021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد میں تعلیم اور تدریس کے عمل کی شرعی حیثیت اور حدود
77366وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

مسجد میں مدرسہ مکتب کانظام قائم کرنا،درس قرآن درس حدیث دینا کیسا ہے؟ کیا ذکرو تلاوت میں تعلیم قرآن ودین شامل ہے؟شرعی اعتبار سے رہنمائی فرما کر مشکوروممنون فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسجد عبادات مقصودہ کی ادائیگی کے لیے ہے اور عبادات غیر مقصودہ کی ادائیگی بھی ضمنا اس طور پر درست ہے کہ اصل  مقصد میں حرج یا خلل نہ ہو، لہذا  اوقات نماز کے علاوہ اوقات میں مسجد میں دینی تعلیم کا عمل جائز ہے، لیکن مکاتب کے عمل کے لیے یہ شرط بھی ہے کہ مسجد کی حرمت وادب متاثر نہ ہو ،نیز یہ پوری تفصیل اس صورت میں ہے کہ جب کہ تعلیم پر اجرت بھی نہ  لی جارہی ہو، ورنہ بلاضرورت مسجد میں باوظیفہ تعلیم کا عمل درست نہیں، البتہ مسجد کی چھت یا تہ خانہ وغیرہ میں شروع ہی سے اس عمل کی ادائیگی کے لیے کوئی جگہ مختص کردی گئی ہویا دوسری جگہ کا بندوبست نہ ہو تو ایسی مجبوری کی صورت میں اس کی بھی گنجائش ہے۔(ازاحسن الفتاوی:ج۶،ص۴۵۸)

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 662)
ويمنع منه؛ وكذا كل مؤذ ولو بلسانه.وكل عقد إلا لمعتكف بشرطه۔۔۔۔۔۔۔وليس له إزعاج غيره منه ولو مدرسا، وإذا ضاق فللمصلي إزعاج القاعد ولو مشتغلا بقراءة أو درس
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 663)
وجعل المسجدين واحدا وعكسه لصلاة لا لدرس، (قوله لا لدرس أو ذكر) لأنه ما بني لذلك وإن جاز فيه، كذا في القنية
الفتاوى الهندية (1/ 110)
وأما المعلم الذي يعلم الصبيان بأجر إذا جلس في المسجد يعلم الصبيان لضرورة الحر أو غيره لا يكره وفي نسخة القاضي الإمام وفي إقرار العيون جعل مسألة المعلم كمسألة الكاتب والخياط. كذا في الخلاصة.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۶ ذی الحجہ۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب