021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین پتھر دینے سے طلاق کاحکم
77601طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کچھ عرصہ پہلے میرے اور میرے سسرال کے خاندان کےدرمیان لڑائی ہوئی ،جس کی وجہ سے میں نے اپنی بیوی کو اس کے والدین کے گھربھیج دیا،تین چاردن کے بعدجب ہم اسے لینے گئے تولڑکی کے والدین نے لڑکی بھیجنے سے انکارکردیا اورکہاکہ لڑکے نے لڑکی کوتین طلاقیں دی ہیں ،جبکہ نہ تومیں نے تین طلاق دیں اورنہ ہی اپنے علاقے کے  رواج کے مطابق اسے تین پتھردئیے،ہمارے علاقے میں جب لڑکی کوتین طلاق دیتے ہیں تو منہ سے کہنے کے ساتھ تین پتھر بھی دیتے ہیں ،لڑکی کے والد سے طلاق دینے پرگواہ پیش کرنے کامطالبہ کیاگیا تواس نے میرے چچاؤں کاکہا کہ لڑکے کے چچاگواہ ہیں،لیکن میرے چچانے انکارکیاکہ نہ توہم نے سناہے اورنہ ہی ہم نے دیکھاہے کہ لڑکے نے لڑکی کوطلاق دی ہو،اس کے بعد بات جرگہ تک پہنچ گئی ،جرگے نے میرے چچاکوقرآن پرہاتھ رکھ کرقسم کھانے کوکہا،لیکن میرے چچانے قسم کھانے سے انکارکردیا اورکہاکہ اس طرح توہماری بے عزتی ہے،پھریہ طے پایاکہ چارمہینہ کے بعد لڑکی کاباپ لڑکے والوں کو ساڑھے تین لاکھ روپے دے گا اورلڑکااس موقع پرتین پتھر دے گا،چارماہ کے بعد جب وقت آیا تومیں نے پتھردینے سے انکارکیا کہ کیوں کہ میں نے توطلاق نہیں دی تھی توپتھرکیوں دوں؟چچانے کہاکہ اگرتم یہ تین پتھرنہیں دوگے توخاندان میں بہت زیادہ لڑائی ہوگی توچچانے تین پتھرجمع کرکے مجھے دئیے،میں نےان کے اصرارپرزبان سے طلاق کے لفظ بولے بغیر تین پتھرلڑکی کے چچاکودیدئیے،اس وقت میں نے زبان سے نہ توصریح لفظ طلاق کابولااورنہ ہی کنائی لفظ،کیااس طرح صرف تین پتھردینے سے طلاق واقع ہوئی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

طلاق واقع ہونے کیلئے ضروری ہے کہ طلاق یااس کے ہم معنی الفاظ استعمال کئے جائیں،طلاق اوراس کے ہم معنی لفظ استعمال کئے بغیرطلاق واقع نہیں ہوتی،صورت مسؤلہ میں اگرواقعی  شوہرنے تین پتھردیتے وقت طلاق کے الفاظ نہیں بولے اورنہ ہی تحریرکرکے دئیے توطلاق واقع نہیں ہوئی،عورت بدستورمردکے نکاح میں ہے۔

حوالہ جات
رد المحتار  (ج 3 / ص 254):
(وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المتسبينة وإشارة الاخرس وإشارة إلى العدد بالاصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي، وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، وكذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لا يقع به طلاق وإن نواه.

محمد اویس بن عبدالکریم

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

25/01/1444

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب