021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق اور بچوں کی کفالت سے متعلق ایک صورت کا حکم
77582طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

جناب مفتی صاحب میں مسماۃ شاہین مسئلہ دریافت کرنا چاہتی ہوں ، چار سال قبل میرے شوہر کی مجھ سے لڑائی ہوئی ، انہوں نے مارا پیٹا ، منہ پر تھپڑ مارے اور مجھے تین بچوں کے ساتھ میکے چھوڑ دیا ، ان چار سالوں میں انہوں نے مجھے میرے والدین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ، مجبور ہو کر دو سال قبل عدالت میں کیس دائر کیا کہ کم از کم بچوں کے نفقہ کے لیے عدالت کوئی حکم نامہ جاری کرے ، مختلف پیشیاں ہوتی رہیں لیکن اب تک عدالت سے استدعا کے باوجود بچوں کا نفقہ لازم نہیں ہوا ہے لیکن 03/06/2022 کو انہوں نے منسلکہ طلاق اول کا نوٹس بھیجا ہے۔

(1) مجھے ان کے بھیجے گئے نوٹس کے بارے میں شرعی حکم اور مستقبل میں مراسم نکاح کے حوالے سے آگاہ فرما دیں ۔

(2) نیز انہوں نے 90 دن کا وقت دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ نوٹس میں لکھی گئی اشیاء مجھے لا کر دے دی جائیں تو میں رجوع کر لوں گا۔ لیکن پختہ گمان ہے کہ مقصود بے قیمت اشیاء کا حصول ہے رشتہ نبھانا مقصود نہیں۔ ورنہ نوٹس میں کم از کم بچوں کا ذکر کیا جاتا، جو کہیں موجود نہیں۔ تو مجھے اس مہلت کے بارے میں بھی بتائیں کہ شرعی اعتبار سے اس کی کیا حیثیت ہے۔

(3) یہ بھی واضح فرما دیں کہ بچوں پر ہونے والا خرچہ شرعا کس کے ذمہ ادا کرنا لازم ہے، یعنی رجوع اور طلاق دونوں صورتوں میں بچوں کا خرچہ ماں ادا کرے گی یا باپ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1,2) صورت مسئولہ میں جناب غیور احمد صاحب نے جو طلاق اول کا عدالتی نوٹس دستخط کر کے آپ کے پاس بھیجا ہے اس سے آپ (شاہین صاحبہ ) پر  ایک طلاق رجعی واقع ہو چکی ہے۔ طلاق رجعی کا حکم یہ ہے کہ دوران عدت اگر شوہر بیوی سے رجوع کرنا چاہے تو شرعا اس کو یہ حق حاصل ہوتا  ہے۔

 واضح رہے کہ مطلقہ عورت کو اگر حیض آتا ہو تو اس کی عدت تین  حیض  کی مدت کے بقدر ہو گی  اور اگر حیض نہ آتا ہو تو پھر اس کی عدت تین ماہ  ہو گی، چنانچہ تین حیض یا  تین ماہ کی مدت کے دوران اگر شوہر نے عورت سے رجوع نہ کیا تو عدت کے مکمل ہو نے پر نکاح بالکلیہ ختم ہو جائے گا اور بغیر نکاح جدید کے وہ ایک دوسرے کیلئے حلال  نہ ہوں گے۔ عدت کا یہ حکم غیر حاملہ عورت  کا ہے، اگر عورت حاملہ ہو تو پھر عدت کا  اختتام بچے کی پیدائش کے وقت ہو گا۔

اس حکم سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ شوہر نے رجوع کیلئے  جو 90 دن کی مہلت آپ کو دی ہے اس کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں اس لئے کہ رجوع کیلئے شریعت نے عدت کی مدت کو معیار بنایا ہے پھر چاہے وہ مدت  تین حیض کے ساتھ پوری  ہو یا تین ماہ کے ساتھ یا پھر وضع حمل کے ساتھ۔

(3) طلاق کے بعد اور بغیر طلاق کے علیحدگی ،  یعنی دونوں صورتوں میں  بچوں کا نفقہ اور ان پر ہونے والے دیگر  ضروری اخراجات ان کے بالغ ہونے تک شرعا ان کے والد کے ذمہ لازم ہو ں گے کیونکہ والد  ہی ان کا ولی ہے ۔

حوالہ جات
حاشية ابن عابدين ، رد المحتار ط الحلبي:(3/ 400)
(قوله: إن لم يطلق بائنا) هذا بيان لشرط الرجعة، ولها شروط خمس تعلم بالتأمل شرنبلالية
قلت: هي أن لا يكون الطلاق ثلاثا في الحرة، أو ثنتين في الأمة ولا واحدة مقترنة بعوض مالي ولا بصفة تنبئ عن البينونة - كطويلة، أو شديدة -، ولا مشبهة كطلقة مثل الجبل، ولا كناية يقع بها بائن. ولا يخفى أن الشرط واحد هو كون الطلاق رجعيا، وهذه شروط كونه رجعيا متى فقد منها شرط كان بائنا كما أوضحناه أول كتاب الطلاق، وقد استغنى عنها المصنف بقوله إن لم يطلق بائنا، وهو أولى من قول الكنز إن لم يطلق ثلاثا، لكن قال الخير الرملي: لا حاجة إلى هذا مع قوله استدامة الملك القائم في العدة لأن البائن ليس فيه ملك من كل وجه والكلام في الرجعي لا في البائن، فقد غفل أكثرهم في هذا المحل اهـ لكن لا يخفى أن المساهلة في العبارة لزيادة الإيضاح لا بأس بها في مقام الإفادة۔
مختصر القدوري (ص159):
إذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض والرجعة أن يقول: راجعتك أو راجعت امرأتي أو يطأها أو يقبلها أو يلمسها شهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة ويستحب أن يشهد على الرجعة شاهدين فإن لم يشهد صحت الرجعة.
وإذا انقضت العدة فقال: قد كنت راجعتها في العدة فصدقته فهي رجعة وإن كذبته فالقول قولها ولا يمين عليها عند أبي حنيفة وإذا قال الزوج: قد راجعتك فقالت مجيبة له: قد انقضت عدتي لم تصح الرجعة عند أبي حنيفة.
 :الفتاویٰ الھندية (1/ 526)
إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء سواء كانت الحرة مسلمة أو كتابية كذا في السراج الوهاج.
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي :(9/ 6955)
أما‌‌ الطلاق الرجعي: فهو الذي يملك الزوج بعده إعادة المطلقة إلى الزوجية من غير حاجة إلى عقد جديد ما دامت في العدة، ولو لم ترض. وذلك بعد الطلاق الأول والثاني غير البائن إذا تمت المراجعة قبل انقضاء العدة، فإذا انتهت العدة انقلب الطلاق الرجعي بائنا، فلا يملك الزوج إرجاع زوجته المطلقة إلا بعقد جديد.
اتفق الفقهاء على أن الطلاق الرجعي له آثار هي:
نقص عدد الطلقات: يترتب على الطلاق أنه ينقص عدد الطلقات التي يملكها الزوج، فإذا طلق الرجل زوجته طلاقا رجعيا بقي له طلقتان، وإذا طلق طلاقا آخر بقي له طلقة واحدة.
انتهاء رابطة الزوجية بانتهاء العدة: إذا طلق الرجل طلاقا رجعيا وانقضت العدة من غير مراجعة بانت منه بانقضاء العدة، وحينئذ يحل مؤخر الصداق۔
الفتاوى العالمكيرية (560/1):
نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة....وبعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب وتدفع إلى الأم حتى تنفق على الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقة تدفع إلى غيرها لينفق على الولد.
و فيه أيضا (561/1):
رجل معسر له ولد صغير إن كان الرجل يقدر على الكسب يجب عليه أن يكتسب وينفق على ولده كذا في فتاوى قاضي خان. فإن أبى أن يكتسب وينفق عليهم يجبر على ذلك، ويحبس كذا في المحيط وإن كان لا يقدر على الكسب يفرض القاضي عليه النفقة ويأمر الأم حتى تستدين على زوجها، ثم ترجع بذلك على الأب إذا أيسر.

محمد انس جمیل 

دارالافتاء جامعۃالرشید کراچی

25، محرم الحرام 1444 ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب