021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غیر مسلم کے پیچھے پڑھی گئی نمازوں کا حکم
77624نماز کا بیانامامت اور جماعت کے احکام

سوال

مفتی صاحب چند مسائل میں شرعی رہنمائی درکار ہے:

1۔ایک بندے نے پانچ سال ایک مسجد میں امامت کی اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ عیسائی تھا،وہ ایک جاسوس تھا تو اب اس کے پیچھے جتنی نمازیں لوگوں نے پڑھی ہیں وہ نمازیں دوبارہ پڑھنی پڑیں گی یا نہیں؟ کیونکہ ان کو پتہ نہیں تھا کہ وہ عیسائی ہے۔اس کا کیا حکم ہے؟

2۔مرد اور عورت کیلئے ہاتھ میں قیمتی پتھر سے بنی انگوٹھی پہننا جائز ہے؟ اور فیروزہ پتھر کی انگھوٹی پہننا جائز ہے؟

3۔اگر کسی مسجد کے امام کا تلفظ ٹھیک نہیں ہے، وہ ص اور س میں فرق نہیں کرتا، ذ اور ز میں فرق نہیں کرتا، اسی طرح ظ اور ض میں فرق نہیں کرتا، تو کیا اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟

4۔کوئی بندہ گھر کرایہ پر لیتا ہے اور اس سے پہلے اس طور پر بھی ایڈوانس دیتا ہےکہ جب وہ گھر خالی کرے گا تو وہ ایڈوانس واپس لے گا، اگر گھر کا مالک کرایہ دار کے گھر خالی کرنے پر پیسے واپس نہ دے تو کیا اس کا یہ پیسے اپنے پاس روکے رکھنا سود میں شمار ہوگا یا نہیں؟

5۔دس محرم الحرام کو جو اہل تشیع ماتم وغیرہ کرتے ہیں، ان کو موبائل میں یا آمنے سامنے سے دیکھنا جائز ہے یا نہیں؟ اور جو چاول وغیرہ بھیجتے ہیں ان کو کھانا صحیح ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔عیسائی غیر مسلم کے پیچھے لوگوں نے جتنی  نمازیں پڑھی ہیں، ان تمام نمازوں کو دوبارہ لوٹانا واجب ہے،ان نمازوں کو لوٹانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جتنی نمازیں غیر مسلم کے پیچھے پڑھی گئی ہیں، ان سب کا حساب لگالیں، اگر یقینی حساب لگانا ممکن نہ  ہو تو غالب گمان کے مطابق اندازے اور تخمینے سے حساب لگاکر  اپنے پاس محفوظ کرلیں، پھر ان تمام نمازوں کو قضاء کرنا شروع کردیں اور  جتنا وقت  ملے قضاء نمازیں پڑھ کر حساب میں تبدیلی کرتے رہیں۔

واضح رہے  کہ مقتدیوں کو اس کے غیر مسلم ہونے کے بارے میں معلوم نہ ہونا شریعت کی نظر میں معتبر عذر نہیں ، اس لئے نمازیں بہر صورت لوٹانا واجب ہے۔

2۔مرد کیلئے سونا، لوہا، پیتل، تانبا وغیرہ سے بنی ہوئی انگوٹھی پہننا جائز نہیں ہے، البتہ چاندی کی انگوٹھی پہننا مرد کیلئے اس شرط کے ساتھ  جائز ہے،کہ اس کی مقدارپانچ ماشے یا 4.86گرام سے کم ہو، انگوٹھی کے نگینے  میں کوئی قید نہیں ہے، جس چیز کا بھی ہو اور جتنے وزن کا بھی ہو جائز ہے۔ اس لئے فیروزہ پتھر کی انگوٹھی اگر چاندی  کے علاوہ  دھاتوں کے چلے میں ہو تو اس کاپہننا جائز نہیں ہے البتہ اگر اس پتھر کو چاندی سے بنے ہوئی چلے میں نگینے کے طور پر استعمال کیا جائے تو جائز ہے۔

عورت کیلئےصرف  سونے چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے خواہ وہ جس مقدار کی بھی ہو، اس کے علاوہ کسی اور دھات کی انگوٹھی پہننا ان کیلئے جائز نہیں ہے،  خواتین  کیلئے  فیروزہ  پتھر  کی انگوٹھی پہننا اس شرط کے ساتھ جائز ہے  کہ اس کا  نگینہ  فیروزہ پتھر سے  ہو  ورنہ  چلے کے فیروزہ پتھر سے ہونے کی صورت میں  انگوٹھی پہننا  جائز نہیں ہے۔

3۔اگر امام صاحب  صحیح ادائیگی پر قدرت   رکھنے کے باوجود اس طرح پڑھتے ہیں، تو اس سے نماز فاسد  ہوجائیگی ، اگر قصدا  نہیں  پڑھتے ہیں  بلکہ کوشش کے باوجود ادائیگی ایسی ہی ہوتی ہے  تو ایسی صورت میں نماز فاسد نہیں ہوگی ، ہاں البتہ اگر اس امام  سے  اچھے پڑھنے والے موجود ہیں  تو ان کی امامت مکروہ تحریمی ہوگی  اور اگر اس سے اچھا پڑھنے والا کوئی نہیں ہے  تو اس کی امامت بلا کراہت درست ہوجائیگی۔

4۔کرایہ دار سے جو رقم ایڈوانس میں لی جاتی ہے، ابتداء اصولی اعتبار سے یہ امانت ہوتی ہے لیکن چونکہ مالک یہ رقم اپنے استعمال میں لاتا ہے اور عام طور سے کرایہ دار کی طرف سے اس رقم کو استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے اس لئے انتہاء یہ رقم مالک کے ذمے قرض بن جاتی ہے، صورت مسؤلہ میں کرایہ دار کا جو رقم مالک مکان کے پاس ہے، اس رقم کی حیثیت قرض کی ہے، اور قرض  خواہ  کا رقم کو اپنے پاس دبائے ركهنا  جائز نہیں ، کرایہ داری کا معاملہ ختم ہونے سے پہلے اس  رقم کو واپس کرنا شرعا لازم ہے ،تاہم ایسا کرنے سے سود لازم نہیں آتا، اس لئے مالک مکان کے اس عمل کو سود میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

5۔ماتم کرنا شرعًا ناجائز اور حرام ہے، رسول اکرم ﷺ  نے اس سےمنع فرمایا ہے،  چنانچہ حضرت  عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:                                                                                                                                                                                                                    "جو منہ پر طمانچے مارے ، گریبان چاک کرے اور زمانۂ  جاہلیت کی طرح چیخ و پکار کرے  وہ ہمارے دین پر نہیں ۔"

ماتم کرنے  کی طرح   اس میں شریک ہونا   بھی گناہ اور ناجائز ہے، لہذا اسے دیکھنے کے  لیے جانا کثرت کا سبب بننے کی وجہ سے   ناجائز اور گناہ ہے،کیوں کہ دیکھنے والا اگرچہ اس میں شریک نہیں ہے لیکن دوسرے لوگ یہی سمجھیں گے کہ یہ شریکِ  ماتم ہے،لہذا ماتم  دیکھنے کے لیے جانا بھی ناجائز ہے۔ موبائل میں بھی انہیں دیکھنا مناسب نہیں ہے کیونکہ ان کی جتنی ویڈیوز اپلوڈ ہوتی ہیں وہ بہر حال کسی شرعی مفسدہ سے خالی نہیں ہوتیں۔

باقی جو کھانا وغیرہ  ایسے لوگوں کو بھیجتے ہیں، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر بھیجنے والا اللہ کے نام پر دے رہا ہے تو اس صورت میں اگرچہ کھانا فی نفسہ جائز اور حلال ہے، تاہم  اس خاص وقت میں کھانالینا یہ  بدعت کی ترویج میں  تعاون ہے، لہذا ایسے کھانے سے بچنا ہی چاہئے۔ بالخصوص اگر دینے والے کا عقیدہ ہی صحیح نہ ہو اور وہ غیر اللہ کے نام پر دے رہا ہو تو اس صورت میں تو کھانا جائز ہی نہیں حرام ہے۔

حوالہ جات
العناية شرح الهداية (7/ 117)
 وإنما الجهل ليس بعذر في دار الإسلام في الفرائض التي لا بد لإقامة الدين منها لا في حيازة اجتهاد جميع المجتهدين۔
الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 56)
" الجماعة سنة مؤكدة " لقوله عليه الصلاة والسلام " الجماعة سنة من سنن الهدى لا يتخلف عنها إلا منافق "" وأولى الناس بالإمامةأعلمهم بالسنة ".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 359)
فی الدر: (ولا يتختم) إلا بالفضة لحصول الاستغناء بها فيحرم (بغيرها كحجر) وصحح السرخسي جواز اليشب والعقيق وعمم منلا خسرو (وذهب وحديد وصفر) ورصاص وزجاج وغيرها لما مر فإذا ثبت كراهة لبسها للتختم ثبت كراهة بيعها وصيغها لما فيه من الإعانة على ما لا يجوز وكل ما أدى إلى ما لا يجوز لا يجوز وتمامه في شرح الوهبانية (والعبرة بالحلقة) من الفضة (لا بالفص) فيجوز من حجر وعقيق وياقوت وغيرها ۔
وفی حاشیتہ:(قوله ولا يتختم إلا بالفضة) هذه عبارة الإمام محمد في الجامع الصغير أي بخلاف المنطقة فلا يكره فيها حلقة حديد ونحاس كما قدمه، وهل حلية السيف كذلك يراجع قال الزيلعي: وقد وردت آثار في جواز التختم بالفضة وكان للنبي - صلى الله تعالى عليه وسلم - خاتم فضة وكان في يده الكريمة، حتى توفي - صلى الله تعالى عليه وسلم -، ثم في يد أبي بكر - رضي الله تعالى عنه - إلى أن توفي، ثم في يد عمر - رضي الله تعالى عنه - إلى أن توفي، ثم في يد عثمان - رضي الله تعالى عنه - إلى أن وقع من يده في البئر فأنفق مالا عظيما في طلبه فلم يجده، ووقع الخلاف فيما بينهم والتشويش من ذلك الوقت إلى أن استشهد - رضي الله تعالى عنه -.
(قوله فيحرم بغيرها إلخ) لما روى الطحاوي بإسناده إلى عمران بن حصين وأبي هريرة قال: «نهى رسول الله - صلى الله تعالى عليه وسلم - عن خاتم الذهب» ، وروى صاحب السنن بإسناده إلى عبد الله بن بريدة عن أبيه: «أن رجلا جاء إلى النبي - صلى الله تعالى عليه وسلم - وعليه خاتم من شبه فقال له: مالي أجد منك ريح الأصنام فطرحه ثم جاء وعليه خاتم من حديد فقال: مالي أجد عليك حلية أهل النار فطرحه فقال: يا رسول الله من أي شيء أتخذه؟ قال: اتخذه من ورق ولا تتمه مثقالا» " فعلم أن التختم بالذهب والحديد والصفر حرام فألحق اليشب بذلك لأنه قد يتخذ منه الأصنام، فأشبه الشبه الذي هو منصوص معلوم بالنص إتقاني والشبه محركا النحاس الأصفر قاموس وفي الجوهرة والتختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجل والنساء۔
(قوله ولا يزيده على مثقال) وقيل لا يبلغ به المثقال ذخيرة.
أقول: ويؤيده نص الحديث السابق من قوله - عليه الصلاة والسلام - «ولا تتممه مثقالا»
وقال العلامہ ابن عابدین ایضا تحت قولہ فیحرم بغیرھا:
وفي الجوهرة والتختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجل والنساء.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 632)
الأصل فيما إذا ذكر حرفا مكان حرف وغير المعنى إن أمكن الفصل بينهما بلا مشقة تفسد، وإلا يمكن إلا بمشقة كالظاء مع الضاد المعجمتين والصاد مع السين المهملتين والطاء مع التاء قال أكثرهم لا تفسد. اهـ. وفي خزانة الأكمل قال القاضي أبو عاصم: إن تعمد ذلك تفسد، وإن جرى على لسانه أو لا يعرف التمييز لا تفسد، وهو المختار حلية وفي البزازية: وهو أعدل الأقاويل، وهو المختار اهـ وفي التتارخانية عن الحاوي: حكى عن الصفار أنه كان يقول: الخطأ إذا دخل في الحروف لا يفسد لأن فيه بلوى عامة الناس لأنهم لا يقيمون الحروف إلا بمشقة. اهـ. وفيها: إذا لم يكن بين الحرفين اتحاد المخرج ولا قربه إلا أن فيه بلوى العامة كالذال مكان الصاد أو الزاي المحض مكان الذال والظاء مكان الضاد لا تفسد عند بعض المشايخ.
قلت: فينبغي على هذا عدم الفساد في إبدال الثاء سينا والقاف همزة كما هو لغة عوام زماننا، فإنهم لا يميزون بينهما ويصعب عليهم جدا كالذال مع الزاي ولا سيما على قول القاضي أبي عاصم وقول الصفار، وهذا كله قول المتأخرين، وقد علمت أنه أوسع وأن قول المتقدمين أحوط قال في شرح المنية: وهو الذي صححه المحققون وفرعوا عليه، فاعمل بما تختار، والاحتياط أولى سيما في أمر الصلاة التي هي أول ما يحاسب العبد عليها.
صحيح البخاري (2/ 82)
 عن عبد الله رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ليس منا من ضرب الخدود، وشق الجيوب، ودعا بدعوى الجاهلية»
شرح الوقاية لعلي الحنفي (6/ 165)
عن عمر بن الحارث: أن رجلا دعا عبد الله بن مسعود إلى وليمة فلما جاء ليدخل سمع لهوا فلم يدخل. فقيل له: لم رجعت قال: لأني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من كثر سواد قوم فهو منهم، ومن رضي عمل قوم كان شريك من عمل به».
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 172)
ولأن ذكر الله تعالى إذا قصد به التخصيص بوقت دون وقت أو بشيء دون شيء لم يكن مشروعا حيث لم يرد الشرع به؛ لأنه خلاف المشروع۔۔۔

محمدنصیر

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

٢٦،محرم الحرام،١٤٤٤ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نصیر ولد عبد الرؤوف

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب