021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نمازِ جنازہ میں جہرا تلاوت کرنا
77658جنازے کےمسائلنماز جنازہ

سوال

نمازِ جنازہ میں جہرا تلاوت کا کیا حکم ہے؟ آج کل اہل حدیث لوگ نمازِ جنازہ میں جہر کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں اور اُس میں سورۃ الفاتحہ بھی پڑھتے ہیں اور اُس کے ساتھ سورت بھی ملاتے ہیں۔ اِس طرح نمازِ جنازہ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اہلِ حدیث حضرات میں سے کئی لوگوں کی رائے یہ ہے کہ نمازِ جنازہ میں جہرا تلاوت کرنا، اور اُس میں سورۃ الفاتحہ کے ساتھ سورت ملانا جائز ہے۔ اُن حضرات کی دلیل یہ ہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ تعالی اپنی سنن میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بھتیجے حضرت طلحہ بن عبداللہ بن عوف رحمہ اللہ تعالی کی روایت نقل کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں:

"میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پیچھے نمازِ جنازہ پڑھی، تو اُس میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سورۃ الفاتحہ اور ایک سورت کی جہرا تلاوت کی، جسے ہم نے سنا۔ حضرت ابن عباس جب نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے اُن کا ہاتھ پکڑا اور اُن سے اِس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ سنت ہے اور حق ہے"۔

امام نسائی رحمہ اللہ اِس حدیث کے بعد دوسری سند سے حضرت طلحہ بن عبداللہ رحمہ اللہ سے منقول یہی واقعہ نقل کرتے ہیں جس میں سورۃ الفاتحہ کے ساتھ سورت کا ذکر نہیں، اِسی طرح نمازِ جنازہ سے فراغت کے بعد حضرت طلحہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جو سوال کیا تھا، دوسری روایت میں اُس سوال کے الفاظ مذکور ہیں۔ حضرت طلحہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوالیہ طور پر پوچھا: "تقرأ؟"، (کیا آپ نے قرأت کی؟)۔ اِس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواباََارشاد فرمایا: ہاں! یہ حق اور سنت ہے۔ (دیکھیے فتاوی علمائے اہلِ حدیث، جلد:4، صفحہ: 184تا 186)

فی سنن النسائی، رقم الحدیث: 1987، 1988

"أخبرنا الهيثم بن أيوب، قال: حدثنا إبراهيم وهو ابن سعد، قال: حدثنا أبي، عن طلحة بن عبد الله بن عوف، قال: صليت خلف ابن عباس على جنازة، فقرأ بفاتحة الكتاب، وسورة وجهر حتى أسمعنا، فلما فرغ أخذت بيده، فسألته فقال: سنة وحق".

"أخبرنا محمد بن بشار، قال: حدثنا محمد، قال: حدثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن طلحة بن عبد الله، قال: صليت خلف ابن عباس على جنازة فسمعته يقرأ بفاتحة الكتاب، فلما انصرف أخذت بيده، فسألته فقلت: تقرأ، قال: نعم، إنه حق وسنة".

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے نمازِ جنازہ میں جہرا تلاوت کرنا دیگر کتبِ حدیث میں بھی مروی ہے۔ "المنتقی لإبن الجارود" میں حضرت زید بن طلحہ التیمی سے مروی ہے:

وفی المنتقی لإبن الجارود، رقم الحدیث: 536

"حدثنا محمد بن يحيى، قال: ثنا محمد بن يوسف، قال: ثنا سفيان، عن زيد بن طلحة التيمي، قال: سمعت ابن عباس، رضی اللہ عنہ قرأ على جنازة فاتحة الكتاب وسورة وجهر بالقراءة وقال: إنما جهرت لأعلمكم أنها سنة، والإمام كفها".

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے الفاظ اِس روایت میں سنن نسائی والی روایت کے الفاظ سے مختلف ہیں۔ مستدرک حاکم میں حضرت سعید بن ابی سعید رحمہ اللہ سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اِس پچھلی روایت سے ملتے جلتے الفاظ منقول ہیں:

و فی المستدرک علی الصحیحین للحاکم، رقم الحدیث: 1323

"حدثنا علي بن عيسى، ثنا إبراهيم بن أبي طالب، ثنا ابن أبي عمر، ثنا سفيان، ثنا ابن عجلان، أنه سمع سعيد بن أبي سعيد، يقول: صلى ابن عباس على جنازة فجهر بالحمد لله، ثم قال: إنما جهرت لتعلموا أنها سنة. هذا حديث صحيح على شرط مسلم".

جواب: لیکن اہلِ حدیث حضرات کا اِن روایات کی بنا پر نمازِ جنازہ میں جہری طور پر سورۃ الفاتحہ اور اُس کے ساتھ سورت پڑھنے کو جائز قرار دینا جائز نہیں۔ اِن احادیث کا صحیح محمل بیان کرنے سے پہلے بطور تمہید کچھ تفصیل سمجھنا ضروری ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے لے کر ائمہ مجتہدین تک اِس بات میں اختلاف چلا آرہا ہے کہ نمازِ جنازہ میں سورۃ الفاتحہ پڑھنا ضروری ہے یا نہیں؟ حضرت عمر بن الخطاب، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت فضالۃ بن عبید اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کا مذہب یہ ہے کہ نمازِ جنازہ میں سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی جائے گی۔ تابعین میں سے حضرت سعید بن المسیب، سالم بن عبداللہ اور عطاء بن ابی رباح وغیرھم کا بھی یہی مذہب منقول ہے۔ یہی مذہب فقہائے احناف اور مالکیہ رحمہم اللہ کا ہے۔ احناف اور مالکیہ کے ہاں نمازِ جنازہ میں سورۃ الفاتحہ پڑھنا جائز نہیں، مگر فقہائے حنفیہ نے اِس بات کی تصریح کی ہے کہ نمازِ جنازہ میں اگر سورۃ الفاتحہ بطورِ ثناء پڑھی جائے تو جائز ہے، بطور تلاوت جائز نہیں۔

فی المدونۃ للإمام مالك بن أنس:1/252

"قال ابن وهب عن رجال من أهل العلم عن عمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب وعبد الله بن عمر وفضالة بن عبيد وأبي هريرة وجابر بن عبد الله وواثلة بن الأسقع والقاسم بن محمد وسالم بن عبد الله وابن المسيب وربيعة وعطاء بن أبي رباح ويحيى بن سعيد: أنهم لم يكونوا يقرءون في الصلاة على الميت". قال ابن وهب وقال مالك: ليس ذلك بمعمول به ببلدنا، إنما هو الدعاء، أدركت أهل بلدنا على ذلك".

وفی فتح القدیر للکمال بن الھمام الحنفی: 2/121

"عن أبي حنيفة يقول: سبحانك اللهم وبحمدك إلى آخره، قالوا: لا يقرأ الفاتحة إلا أن يقرأها بنية الثناء، ولم تثبت القراءة عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم.

اِس کے برخلاف حضرت عبداللہ بن عباس، حسن بن علی، عبداللہ بن زبیر اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہم سے نمازِ جنازہ میں سورۃ الفاتحہ کی مشروعیت ثابت ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی نے اِس دوسرے قول والوں میں سے نقل کیا ہے، جبکہ حضرت امام مالک رحمہ اللہ کی المدونۃ کے مطابق حضرت عبداللہ بن مسعود پہلے قول والوں میں سے ہیں۔  امام اسحاق، شوافع اور حنابلہ کا مذہب بھی یہی ہے کہ سب نمازوں کے مثل نمازِ جنازہ میں سورۃ الفاتحہ پڑھنا واجب ہے۔

فی الصحیح للإمام البخاری، رقم الحدیث: 1335

"حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن سعد، عن طلحة، قال: صليت خلف ابن عباس رضی اللہ عنہ، ح حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، عن سعد بن إبراهيم، عن طلحة بن عبد الله بن عوف، قال: صليت خلف ابن عباس  رضی اللہ عنہ على جنازة، فقرأ بفاتحة الكتاب قال: ليعلموا أنها سنة".

وفی فتح الباری للإمام ابن حجر: 3/203

"قوله: (باب قراءة فاتحة الكتاب على الجنازة) أي مشروعيتها وهي من المسائل المختلف فيها، ونقل بن المنذر عن بن مسعود والحسن بن علي وبن الزبير والمسور بن مخرمة مشروعيتها وبه قال الشافعي وأحمد وإسحاق ونقل عن أبي هريرة وبن عمر ليس فيها قراءة وهو قول مالك والكوفيين".

وفی "المھذب" مع شرحہ "المجموع" للإمام النووی الشافعی: 5/232

"ويقرأ بعد التكبيرة الاولي فاتحة الكتاب، لما روى جابر وهى فرض من فروضها؛ لانها صلاة يجب فيها القيام فوجب فيها القراءة، كسائر الصلوات".

وفی الشرح: حديث جابر سبق ذكرنا أنه ضعيف، ويغني عنه في هذه المسألة حديث ابن عباس رضی اللہ عنہ أنه صلى على جنازة فقرأ بفاتحة الكتاب وقال لتعلموا أنها سنة ". رواه البخاري بهذا اللفظ. وقوله: سنة هو كقول الصحابي  من السنة كذا، فيكون مرفوعا إلى رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم على المذهب الصحيح الذي قاله جمهور العلماء من أصحابنا في الأصول وغيرهم من الأصوليين والمحدثين.

وفی المغنی لموفق الدین ابن قدامۃ الحنبلی: 2،362

"مسألة: قال والصلاة عليه، يكبر، ويقرأ الحمد وجملة ذلك أن سنة التكبير على الجنازة أربع".

اصل معتبر اختلافی مسئلہ صرف یہاں تک ہے کہ نمازِ جنازہ میں سورۃ الفاتحہ پڑھی جائے یا نہ پڑھی جائے؟ حضرات صحابہ کے درمیان صرف اِسی بات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ دونوں طرف کے دلائل اپنے اپنے مقام پر کتب فقہ و شروحات میں مذکور ہیں، جنہیں یہاں ذکر کرنے کی کوئی حاجت نہیں۔ باقی سورۃ الفاتحہ کے ساتھ سورت ملانا اور جہرا تلاوت کرنا، تو یہ مسئلہ امت میں اجماعی ہے کہ نمازِ جنازہ میں نہ تو جہرا تلاوت کی جائے گی اور نہ ہی سورۃ الفاتحہ کے ساتھ سورت ملائی جائے گی۔ اِس بارے میں صحابہ کرام کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ اور نہ ہی شوافع اور حنابلہ کے ہاں سورت ملانا اور جہرا تلاوت کرنا کوئی اختلافی مسئلہ ہے، جبکہ حنفیہ اور مالکیہ کے ہاں تو سرے سے نمازِ جنازہ میں قرأت ہے ہی نہیں۔ فقہِ شافعی اور فقہِ حنبلی، دونوں مذاہب میں اِن دونوں مسائل کے بارے میں اجماع نقل کیا گیا ہے۔ عبارات درج ذیل ہیں:

فقہ حنبلی کی مشہور کتاب "المغنی لإبن قدامۃ" میں مذکور ہے:

فی المغنی: 2/362

"فصل: ويسر القراءة والدعاء في صلاة الجنازة لا نعلم بين أهل العلم فيه خلافا، ولا يقرأ بعد أم القرآن شيئا. وقد روي عن ابن عباس أنه جهر بفاتحة الكتاب، قال أحمد: إنما جهر؛ ليعلمهم".

اِسی طرح شافعیہ کے مشہور محقق فقیہ علامہ محی الدین ابو زکریا النووی الشافعی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب "المجموع شرح المھذب" میں سورۃ الفاتحہ کے ساتھ سورت ملانے کے بارے میں لکھتے ہیں:

"وفي قراءة السورة وجهان ذكر المصنف دليلهما وذكرهما مع المصنف جماعات من العراقيين والخراسانيين واتفقوا على أن الأصح أنه لا يستحب وبه قطع جمهور المصنفين ونقل إمام الحرمين إجماع العلماء عليه ونقله القاضي أبو الطيب في المجرد وآخرون من أصحابنا عن الأصحاب مطلقا". (المجموع شرح المھذب:5/234)

اِسی طرح جہرا تلاوت کے بارے میں علامہ نووی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

"وأما الجهر والإسرار، فاتفق الأصحاب على أنه يسر بغير القراءة من الصلاة على النبي صلی اللہ علیہ وسلم والدعاء، واتفقوا على أنه يجهر بالتكبيرات والسلام واتفقوا أيضا على أنه يسر بالقراءة نهارا، وفي الليل وجهان ذكر المصنف دليلهما (أصحهما) عند جمهور الأصحاب وبه قطع جماعات منهم أنه يسر أيضا، كالدعاء، والثانی يستحب الجهر قاله الداركي وصرح به صاحبه الشيخ أبو حامد الاسفرايني وصاحباه المحاملي وسليم الرازي في الكفاية والبندنيجي ونصر المقدسي في كتابيه التهذيب والكافي والصيدلاني وصححه القاضي حسين واستحسنه السرخسي والمذهب الأول ولا يغتر بكثرة القائلين بالجهر فهم قليلون جدا بالنسبة إلى الآخرين وظاهر نص الشافعي في المختصر الإسرار لأنه قال ويخفي القراءة والدعاء ويجهر بالتسليم هذا نصه ولم يفرق بين الليل والنهار ولو كانا يفترقان لذكره ويحتج له من السنة بحديث أبي أمامة بن سهل الذى ذكرنه، والله اعلم". (المجموع: 5/234)

یہاں یہ اشکال ہوتا ہے کہ علامہ نووی رحمہ اللہ نے تو یہاں کئی سارے نام ذکر کیے ہیں جو نمازِ جنازہ میں جہرا تلاوت کے قائل ہیں، تو ایسی صورت میں یہ مسئلہ اجماعی تو نہیں ہوا۔ اِس اشکال کا جواب یہ ہے کہ علامہ نووی رحمہ اللہ کے کلام سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ اِس بارے میں انہیں قرونِ اولی کے متقدمین حضرات میں سے اِس بارے میں اختلاف کرنے والا کوئی ایک صحابی یا کوئی ایک فقیہ و محدث بھی نہیں ملا۔ قرونِ اولی کے بعد کے زمانے کے چند متاخرین کے نام ذکر کیے ہیں، جنہیں علامہ نووی رحمہ اللہ نے بھی " فهم قليلون جدا بالنسبة إلى الآخرين" کہہ کر بہت تھوڑا قرار دیا ہے۔ جبکہ اِن حضرات کا موقف بھی وہ نہیں تھا جو آج کل اہلِ حدیث حضرات کا ہے۔ اہلِ حدیث حضرات تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ والی روایات کی بنیاد پر سرا اور جہرا، دونوں صورتوں میں نمازِ جنازہ پڑھنے کو جائز قرار دیتے ہیں، چاہے دن کا وقت ہو یا رات کا۔ جبکہ یہ جو اختلاف علامہ نووی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے، وہ حضرات فرض نمازوں پر قیاس کرتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ نمازِ جنازہ دن میں اگر پڑھی جائے تو اُس میں تو سرا تلاوت کی جائے گی اور اگر رات میں پڑھی جائے تو باجماعت مغرب اور عشاء کی نماز کا اعتبار کرتے ہوئے اُس میں تلاوت جہرا کی جائے گی۔

غرض نمازِ جنازہ میں جہرا تلاوت کرنے کے بارے میں جو آج کل بعض اہلِ حدیث حضرات کا موقف ہے، کہ دن ہو یا رات، بہر صورت سرا اور جہرا، دونوں طرح نمازِ جنازہ میں تلاوت کرنا جائز ہے، آج سے پہلے پوری امت میں حضراتِ صحابہ کرام تک کبھی کسی کا موقف نہیں رہا۔ سب سے پہلے اِس کے جائز ہونے کا دعوی تیرہویں صدی ہجری کے مشہور سلفی عالم علامہ محمد بن علی الشوکانی رحمہ اللہ نے کیا ہے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ اجتہاد کا دروازہ چونکہ قیامت تک کے لیے کھلا ہے، لہذا قرآن و حدیث سے براہِ راست احکامات کا استنباط آج بھی جائز ہے۔ اِس بنا پر انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول جہرا تلاوت والی روایات سے براہِ راست استدلال کرتے ہوئے نمازِ جنازہ میں جہرا تلاوت کو جائز قرار دیا ہے۔ اُن کا کلام ملاحظہ ہو:

فی نیل الأوطار: 4/75

"قوله: (وجهر) فيه دليل على الجهر في قراءة صلاة الجنازة. وقال بعض أصحاب الشافعي: إنه يجهر بالليل كالليلية. وذهب الجمهور إلى أنه لا يستحب الجهر في صلاة الجنازة".

یہاں غور فرمائیں! علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے یہاں بعض حضرات کا وہ قول نقل کیا ہے جسے علامہ نووی رحمہ اللہ نے بھی ذکر کیا ہے، لیکن جو "فیہ دلیل" کہہ کر براہِ راست خود استدلال کرکے علی الاطلاق جہرا تلاوت کو جائز قرار دیا ہے، اُس بارے میں تیرہویں صدی ہجری سے پہلے کے کسی ایک شخص کا بھی قول نقل نہیں کیا۔ اِس سے بالکل ظاہر ہے کہ علامہ شوکانی رحمہ اللہ سے پہلے نمازِ جنازہ میں علی الاطلاق جہرا تلاوت کو جائز قرار دینے والا پوری امت میں کوئی ایک شخص بھی نہیں تھا۔ متاخرینِ شافعیہ میں سے گنتی کے چند لوگ مل سکے ہیں جنہیں علامہ نووی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے، کہ انہوں نے رات کے وقت میں پڑھی جانے والی نمازِ جنازہ میں جہرا تلاوت کو جائز قرار دیا ہے۔ اور اِس کو بھی علامہ نووی نے غیر معتبر قرار دیا ہے۔ علامہ نووی کا کلام دوبارہ ملاحظہ ہو:

"ولا يغتر بكثرة القائلين بالجهر فهم قليلون جدا بالنسبة إلى الآخرين وظاهر نص الشافعي في المختصر الإسرار لأنه قال ويخفي القراءة والدعاء ويجهر بالتسليم هذا نصه ولم يفرق بين الليل والنهار ولو كانا يفترقان لذكره ويحتج له من السنة بحديث أبي أمامة بن سهل الذى ذكرنه، والله اعلم". (المجموع: 5/234)

اور علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اِس بارے میں اجماع نقل کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

فی مجموع الفتاوی للإمام ابن تیمیۃ: 24/293

"لا يستحب رفع الصوت مع الجنازة لا بقراءة ولا ذكر ولا غير ذلك، هذا مذهب الأئمة الأربعة وهو المأثور عن السلف من الصحابة والتابعين، ولا أعلم فيه مخالفا".

فتاوی علمائے اہلِ حدیث میں سوائے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایات کے صرف یہی علامہ شوکانی کا مذکورہ بالا اقتباس نقل ہوا ہے۔

اِسی طرح سورۃ الفاتحہ کے ساتھ سورت ملانے کو بھی علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے براہِ راست استدلال کرتے ہوئے واجب کہا ہے۔ فرماتے ہیں:

"قوله: (وسورة) فيه مشروعية قراءة سورة مع الفاتحة في صلاة الجنازة، ولا محيص عن المصير إلى ذلك؛ لأنها زيادة خارجة من مخرج صحيح، ويؤيد وجوب قراءة السورة في صلاة الجنازة الأحاديث المتقدمة في باب وجوب قراءة الفاتحة من كتاب الصلاة فإنها ظاهرة في كل صلاة. (نیل الأوطار: 4/75)

ویسے تو علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے سورۃ الفاتحہ کے ساتھ سورت ملانے کو مشروع قرار دیتے ہوئے کسی فقیہ کا قول یا کسی کا مذہب ذکر نہیں کیا، لیکن یہاں کسی کو یہ اشکال ہوسکتا ہے کہ سورت ملانے کے مسئلہ میں علامہ نووی رحمہ اللہ تعالی نے چھوٹی سورت ملانے کے مستحب ہونے کا قول ذکر کیا ہے۔ اگر چہ اِس قول کے مقابل سورت نہ ملانے والے قول کو علامہ نووی رحمہ اللہ نے مذہبِ شافعیہ کا اصل مذہب قرار دیا ہے، اور امام الحرمین علامہ جوینی رحمہ سے اِس قول پر اجماع بھی نقل کیا ہے، لیکن پھر بھی اِس مسئلہ میں اتنی بات تو ثابت ہوتی ہے کہ جہرا تلاوت کرنے کے بارے میں تو اہلِ حدیث حضرات کے موقف کے مطابق اگر چہ کوئی ایک قول بھی علامہ شوکانی سے پہلے نہیں ملتا، لیکن سورت ملانے کے بارے میں تو کم از کم ایک قول مل ہی جاتا ہے۔ پھر اِس میں یہ تأویل بھی ہوسکتی ہے کہ امام الحرمین علامہ جوینی نے جو اجماع نقل کیا ہے، ہوسکتا ہے وہ بعد میں ہوا ہو، اور اجماع سے پہلے یہ مسئلہ حدیثِ ابن عباس کی بنا پر اختلافی ہو۔ اور ایسی صورت میں "الإجماع اللاحق لایرفع الخلاف المتقدم" کے اصول پر اُس دوسرے قول کو آج بھی کوئی محقق اپنی رائے سے اُسے راجح قرار دے دے تو اُس کی رائے کو باطل محض قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔

اِس کا جواب یہ ہے کہ محض کہیں اختلاف کا ذکر ہوجانا اِس بات کے ثابت ہونے کے لیے کافی نہیں ہے کہ یہ مسئلہ مختلف فیہ مسائل میں سے ہے۔ اختلاف کے معتبر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسئلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان بھی مختلف فیہ ہو، جبکہ علامہ نووی رحمہ اللہ نے جو مرجوح قول ذکر کیا ہے وہ قول اُسی درجے کا ہے جس درجے کا رات میں جہرا تلاوت کرنے والا قول ہے۔ اگر سورت ملانے والا قول معتبر ہوتا، اور صحابہ کرام کے مابین مختلف فیہ ہوتا تو علامہ نووی سے کئی برس پہلے علامہ جوینی اِس پر اجماع نقل نہ کرتے، اور نہ ہی موفق الدین ابن قدامۃ حنبلی اپنی کتاب "المغنی" میں یہ بات ذکر کرتے:

فی المغنی: 2/362

"فصل: ويسر القراءة والدعاء في صلاة الجنازة لا نعلم بين أهل العلم فيه خلافا، ولا يقرأ بعد أم القرآن شيئا. وقد روي عن ابن عباس أنه جهر بفاتحة الكتاب، قال أحمد: إنما جهر؛ ليعلمهم".

کسی مسئلہ کے اختلافی اور غیر اختلافی ہونے میں اصل مدار حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین اختلاف پائے جانے کا ہے۔ اگر کسی مسئلہ میں صحابہ کرام کے مابین دو اقوال نہیں پائے جارہے، اور نہ ہی کوئی اختلاف روایت کیا جارہا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام کا اِس مسئلہ میں اجماع تھا، اگر اجماع نہ ہوتا تو اِس بارے میں اختلاف نقل کیا جاتا، جیسا کہ نمازِ جنازہ میں سورۃ الفاتحہ پڑھنے کے بارے میں سب جگہ حضراتِ صحابہ سے لے کر ائمہ مجتہدین تک اختلاف نقل ہوتا آیا ہے۔ جبکہ اِس مسئلہ میں تو بہت بعد میں کوئی قول ذکر کیا گیا ہے، اور اُس میں بھی قائلین کا نہ تو کوئی نام ذکر کرتے ہیں، اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ یہ اختلاف کرنے والے کون ہیں؟ کس زمانے اور کس طبقے سے ہیں؟ جبکہ اُس سے پہلے تمام محققین اِس بارے میں اجماع نقل کرتے آرہے ہیں۔ تو اِس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ یہ دوسرا قول ایسا نہیں ہے کہ جس کا اعتبار کیا جائے اور اِس کی بنیاد پر اِس مسئلہ کو مختلف فیہ قرار دیا جائے۔ غرض ہر ذکر کیا گیا قول اور اختلاف قابلِ التفات نہیں ہوتا، الا یہ کہ اُس میں اختلاف کے معتبر ہونے کی تمام شرائط پائی جائیں۔

البتہ جہاں تک یہ احتمال ذکر کیا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ شروع میں اِس مسئلہ میں اختلاف ہو اور پھر بعد میں اِس پر اجماع ہوگیا ہو اور علامہ ابن قدامہ اور علامہ جوینی رحمہما اللہ نے بعد میں ہونے والے اجماع کو نقل کیا ہو۔ چنانچہ "الإجماع اللاحق لا یرفع الخلاف المتقدم" کی بنیاد پر نمازِ جنازہ میں سورۃ الفاتحہ کے ساتھ سورت ملانے والے قول کو مشروع قرار دینا  بالکل بے بنیاد اور باطل نہیں ہوگا۔

اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ امکان اُس وقت معتبر ہوتا جب علامہ نووی کا زمانہ پہلے اور علامہ ابن قدامۃ اور علامہ جوینی کا زمانہ اُن کے بعد ہوتا۔ پھر یہ ہوسکتا تھا کہ علامہ نووی اپنے زمانے کے اعتبار سے اختلاف نقل کرتے اور علامہ جوینی اور ابن قدامۃ اِس کے بعد ہونے والے اجماع کو نقل کرتے۔ مگر اِس کے برعکس حقیقت یہ کہ علامہ جوینی اور ابن قدامۃ زمانے کے اعتبار سے مقدم ہیں اور اِس کے باوجود اجماع نقل کررہے ہیں، جبکہ علامہ نووی متاخر ہیں اور اختلاف نقل کررہے ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ یہ اختلاف درحقیقت بعد میں پیش آیا ہے۔ لہذا ایسے اختلاف کا نہ تو محققین اعتبار کرتے ہیں اور نہ ہی اِس قسم کے اختلاف سے اجماعی مسئلہ کی قوت میں کوئی فرق آتا ہے۔

اِسی اعتبار سے اگر یہ دیکھ لیا جائے تو مسئلہ خوب اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ جہرا تلاوت کرنے کے قائلین کے بھی تو چند نام علامہ نووی رحمہ اللہ نے ذکر کیے ہیں، اور علامہ نووی رحمہ اللہ کا سنِ وفات 676ھ ہے۔ حضرت علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا زمانہ علامہ نووی کے زمانے کے بعد کا ہے، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا سنِ وفات 728ھ ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جہرا تلاوت کے بارے میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تو دعوی کررہے ہیں کہ جنازہ میں تلاوت کے سرا ہونے میں کسی کا بھی کوئی اختلاف نہیں۔ فرماتے ہیں:

"لا يستحب رفع الصوت مع الجنازة لا بقراءة ولا ذكر ولا غير ذلك، هذا مذهب الأئمة الأربعة وهو المأثور عن السلف من الصحابة والتابعين، ولا أعلم فيه مخالفا".

(مجموع الفتاوی:24/293)

علامہ ابن تیمیہ رحمہ للہ نے صاف صریح الفاظ میں فرمایا ہے "لا أعلم فیہ مخالفا" کہ میں اِس مسئلہ میں کسی اختلاف کرنے والے کو نہیں جانتا۔ کیا علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسی علم و عمل میں بلند و بالا شخصیت کے بارے میں اِس موقع پر یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ اُن سے تھوڑا عرصہ پہلے علامہ نووی نے اِس بارے میں جن چند لوگوں کا اختلاف ذکر کیا ہے، علامہ ابن تیمیہ جیسے متبحر فی العلم سے بعید ہے کہ وہ اُن قائلین سے لاعلم ہوں۔ (یقینا علامہ ابن تیمیہ بھی اِن قائلین اور اِن کے اختلاف سے واقف تھے)۔ لیکن اِس کے باوجود جو انہوں نے یہ کہا کہ میں کسی مخلاف کو نہیں جانتا، اِس بارے میں اغلب یہی ہے کہ اُن کی نظر میں یہ اختلاف شرعی اعتبار سے کوئی وقعت نہیں رکھتا کہ جس بنا پر اِس مسئلہ کو مختلف فیہ سمجھا جائے۔

اِس کی مثال اِس سے سمجھی جاسکتی ہے کہ بہت سے مقامات پر اہل السنت والجماعت سے خارج فرقے مثلا شیعہ، روافض اور خوارج وغیرہ کا کوئی اختلاف ذکر کیا جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی اِس اختلاف کے باعث اِس مسئلہ کو اختلافی مسئلہ نہیں سمجھا جاتا۔اِسی وجہ سے اگر اہل السنت والجماعت میں وہ مسئلہ اجماعی ہو، تو پھر شیعہ وغیرہ کا اِس میں اختلاف ہونے سے اُس مسئلہ کی اجماعی حیثیت میں کوئی فرق نہیں آتا، بلکہ وہ مسئلہ بالاتفاق اجماعی ہی رہتا ہے۔ جیسے کہ نکاحِ متعہ کے حرام ہونے میں تمام اہل السنت والجماعت کا اتفاق ہے اور سب اِس کی حرمت پر اجماع نقل کرتے ہیں، لیکن اِس کے ساتھ یہ بھی ذکر کیا جاتا ہے کہ شیعہ وغیرہ کے ہاں یہ نکاح جائز ہے۔ لیکن اِس اختلاف کی ایسی حیثیت نہیں کہ جس کی بنا پر اِس مسئلہ کو اجماعی کے بجائے اختلافی قرار دیا جائے۔اِسی طرح یہاں پر بھی یہی بات ہے کہ ہر قول اور ہر اختلاف قابلِ اعتبار نہیں ہوتا، بلکہ جو اختلاف شرعی اعتبار سے مؤثر ہو تو اُس بنا پر تو وہ مسئلہ اجماعی کے بجائے اختلافی بنتا ہے، ورنہ بسا اوقات ہر جگہ کوئی نہ کوئی قول تو مل ہی جاتا ہے۔ کتبِ فقہ میں اِس کی بہت سی مثالیں ہیں۔

خلاصہ کلام: اِس پوری تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ نمازِ جنازہ میں سورۃ الفاتحہ پڑھی جائے یا نہ پڑھی جائے؟ یہ تو اختلافی اور اجتہادی مسئلہ ہے، جس میں صحابہ کرام کے مابین دونوں رائے پائی جاتی ہیں۔ مگر جہرا تلاوت نہ کرنا اور سورت نہ ملانا، یہ دونوں اجماعی مسئلہ ہیں۔ چاروں فقہی مذاہب میں نہ تو جہرا تلاوت کی جائے گی اور نہ ہی سورت ملائے جائے گی۔ جو شاذ اقوال ذکر کیے بھی گئے ہیں تو اول تو سب حضرات نے ذکر نہیں کیے، ایک دو جگہ ذکر ہوئے ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ اُن اقوال کی حیثیت ایسی نہیں ہے کہ جن کا محققین کے ہاں اعتبار کیا جاسکتا ہو۔ چنانچہ اِس مسئلہ میں علامہ نووی سے پہلے والوں نے بھی اور بعد والوں نے بھی اجماع نقل کیا ہے۔ ایک قول میں تو چند نام ذکر کیے گئے ہیں، وہ بھی متاخرین کے، جبکہ دوسرے میں تو کوئی ایک نام بھی ذکر نہیں۔ اِس تفصیل کے مطابق یہ مسئلہ کسی صورت بھی اختلافی قرار نہیں پاتا۔ چنانچہ اِس مسئلہ پر اجماع ثابت ہوگیا تو اجماع دلیلِ قطعی ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ "میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی"۔

فی سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث:3950

"حدثنا العباس بن عثمان الدمشقي، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا معان بن رفاعة السلامي، حدثني أبو خلف الأعمى أنه سمع أنس بن مالك يقول: سمعت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يقول: إن أمتي لن تجتمع على ضلالة، فإذا رأيتم الاختلاف فعليكم بالسواد الأعظم".

قال شعیب الأرنؤوط تحت ھذا الحدیث: وقوله: (إن أمتي لا تجتمع على ضلالة) صحيح بمجموع شواهده، فانظرها عند حديث ابن عمر في جامع الترمذي بتحققنا.

و فی المستدرك للإمام الحاکم، رقم الحدیث: 399

"حدثنا أبو بكر محمد بن أحمد بن بالويه، ثنا موسى بن هارون، ثنا العباس بن عبد العظيم، ثنا عبد الرزاق، ثنا إبراهيم بن ميمون العدني وكان يسمى قريش اليمن وكان من العابدين المجتهدين، قال: قلت لأبي جعفر: والله لقد حدثني ابن طاوس، عن أبيه، قال: سمعت ابن عباس، يقول: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: لا يجمع الله أمتي على ضلالة أبدا، ويد الله على الجماعة. قال الحاكم: فإبراهيم بن ميمون العدني هذا قد عدله عبد الرزاق وأثنى عليه وعبد الرزاق إمام أهل اليمن وتعديله حجة. وقد روي هذا الحديث، عن أنس بن مالك".

لہذا اِس مسئلہ میں یہ اجماع مستقل شرعی دلیل ہے کہ نمازِ جنازہ میں جہرا تلاوت کرنا اور سورۃ الفاتحہ کے ساتھ بطورِ تلاوت سورت ملانا مشروع نہیں۔

اِس پوری تمہید کے بعد اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ ابتداء میں جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی روایات ذکر کی گئی ہیں، اُن سے تو صراحۃ ظاہر ہورہا ہے کہ نمازِ جنازہ میں جہرا تلاوت کرنا بھی جائز ہے اور سورت ملانا بھی جائز ہے۔ اِن مرویات کے جتنے بھی متابع و شواہد ذکر کیے گئے ہیں، جہرا تلاوت کا ذکر تو ایک دو روایات کے علاوہ تقریبا سب میں ہے، جبکہ سورت ملانے کا ذکر بعض میں ہے، اور بعض میں نہیں۔ جہاں تک جہرا تلاوت کی بات ہے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی سب روایات کو اگر دیکھ لیا جائے تو خود اِس کا جواب مل جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ نے جو "إنہ سنۃ وحق" کہا ہے، اِس سے علامہ شوکانی رحمہ اللہ اور بعض اہلِ حدیث حضرات نے یہ سمجھا ہے کہ اِس حدیث میں جہرا نمازِ جنازہ پڑھنے کو حضرت ابن عباس رضی اللہ نے سنت کہا ہے، اِسی بنا پر یہ حضرات جہرا تلاوت کو سنت قرار دیتے ہیں۔ (حوالے اوپر گزر چکے ہیں)۔

حقیقت یہ ہے کہ اِن روایات میں حضرت ابن عباس رضی اللہ نے کہیں بھی جہرا تلاوت کرنے کو سنت نہیں کہا ہے، بلکہ سورۃ الفاتحہ پڑھنے کو سنت کہا ہے۔ جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے کہ نمازِ جنازہ میں سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کرنے کے بارے حضرات صحابہ کے درمیان اختلاف تھا، تو حضرت ابن عباس رضی اللہ چونکہ اُن صحابہ کرام میں سے تھے، جو جنازہ میں سورۃ الفاتحہ پڑھنے کو واجب قرار دیتے تھے، اور سورۃ الفاتحہ نہ پڑھنے والے موقف کو وہ غلط سمجھتے تھے، اِس لیے اُن کا مقصود یہ تھا کہ وہ لوگوں کو یہ بتلائیں کہ نمازِ جنازہ میں سورۃ الفاتحہ پڑھنا سنت ہے، اِسے نمازِ جنازہ میں ترک نہیں کرنا چاہیے۔ اِس بات کو بتانے کی غرض سے انہوں نے چند مواقع پر جہرا نمازِ جنازہ میں تلاوت کی، تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ سورۃ الفاتحہ پڑھنا سنت ہے۔ اگر ابن عباس رضی اللہ عنہ اِس موقع پر آہستہ تلاوت کرتے تو لوگوں کو اُن کے سورۃ الفاتحہ تلاوت کرنے کا پتا نہیں چلتا۔ اِس دعوی کے درست ہونے کا واضح قرینہ یہ ہے کہ سنن نسائی میں جو دوسرے نمبر پر محمد بن بشار والی روایت ذکر کی گئی ہے، اُس میں حضرت طلحہ بن عبداللہ نے جو سوال کیا تھا، اُس کے الفاظ بھی مذکور ہیں۔جس سے پتا چلتا ہے کہ حضرت طلحہ بن عبداللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سےکیا سوال کیا۔ انہوں نے حضرت ابن عباس سے پوچھا: "تقرأ"۔ کیا آپ نے تلاوت کی؟ حضرت طلحہ کے سوال سے صاف ظاہر ہے کہ وہ حضرت ابن عباس سے یہ پوچھنا چارہے ہیں کہ کیا آپ تلاوت کرنے والوں میں سے ہیں؟ کیونکہ اِس مسئلہ کا مختلف فیہ ہونا اُس زمانے میں لوگوں کو معلوم تھا۔ تو حضرت طلحہ نے جہرا تلاوت سن کر یہ اندازہ لگایا کہ حضرت ابن عباس سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کو سنت سمجھتے ہیں، اِسی لیے انہوں نے "تقرأ" کہا۔ اگر جہرا تلاوت کی سنیت کے بارے میں سوال کرنا مقصود ہوتا، تو حضرت طلحہ اِس لفظ کے بجائے "تجھر" کا لفظ استعمال کرتے۔ جبکہ انہوں نے جہرا تلاوت کے بارے میں نہیں پوچھا، نفسِ تلاوت کے بارے میں پوچھا ہے۔ کیونکہ اصل اختلافی مسئلہ یہی تھا، جہرا تلاوت کرنا کوئی اختلافی مسئلہ نہیں تھا کہ جس کے بارے میں سوال کیا جاتا۔ جہر کا مقصد صرف سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کی سنیت بتلانا تھا۔

فی سنن النسائی، رقم الحدیث:1988

"أخبرنا محمد بن بشار، قال: حدثنا محمد، قال: حدثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن طلحة بن عبد الله، قال: صليت خلف ابن عباس على جنازة فسمعته يقرأ بفاتحة الكتاب، فلما انصرف أخذت بيده، فسألته، فقلت: تقرأ؟، قال: نعم، إنه حق وسنة".

سنن نسائی کی روایات کے علاوہ دیگر روایات کے الفاظ سے تو یہ مسئلہ اور زیادہ واضح ہوتا ہے، جن میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے "إنما جهرت لأعلمكم أنها سنة" اور "إنما جهرت لتعلموا أنها سنة" کے الفاظ مروی ہیں۔ اِن الفاظ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ "إنما" کا لفظ بولا ہے، یہ لفظ عربی کلام میں حصر کا فائدہ دیتا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت ابن عباس کا جہرا تلاوت کرنا صرف اور صرف ایک سبب سے تھا، اور وہ سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے سنت ہونے کو بتلانا۔ حضرت ابن عباس نے جہرا تلاوت اصلا مشروع ہونے کی بنا پر نہیں کی، بلکہ اِس کی علیحدہ سے علت بیان کی کہ اصل میں تلاوت کے مسنون ہونے کا بتانا تھا۔ تمام محدثین اور شارحین نے اِس مقام کی یہی توضیح و تشریح بیان کی ہے۔

فی شرح المھذب للإمام النووی الشافعی: 5/232

"وقال انما جهرت لتعلموا أنها سنة، يعني لتعلموا أن القراءة مأمور بها".

خود مشہور اہلِ حدیث عالم عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ اپنی سنن ترمذی کی شرح "تحفۃ الأحوذی" میں فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ عمل تعلیم کے واسطے تھا۔ فرماتے ہیں:

"قلت: قول ابن عباس إنما جهرت لتعلموا أنها سنة: يدل على أن جهره كان للتعليم، وأما قول بعض أصحاب الشافعي: يجهر بالليل كالليلية، فلم أقف على رواية تدل على هذا، والله تعالى أعلم". (4/96)

یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اگرچہ تعلیم کی غرض سے جہرا تلاوت کی، لیکن اِس سے کم از کم اِس بات کا جواز تو ثابت ہو ہی جاتا ہے کہ ہم بھی تعلیم کی غرض سے اگر کبھی جہرا تلاوت کرلیں، تو اِس میں مضائقہ نہیں۔

اِس کا جواب یہ ہے کہ تعلیم کی غرض سے تھوڑی آواز کے ساتھ تلاوت کرنا تو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سری نمازوں مثلا ظہر و عصر میں ثابت ہے۔ تو کیا اِس ثبوت کی وجہ سے کوئی سری نمازوں میں جہر کو جائز قرار دے گا؟ یقینا نہیں، تو اِسی طرح نمازِ جنازہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی جہر بھی اِسی قبیل کا ہے کہ جو اصلا حکم نہیں، بلکہ تعلیم کی غرض سے ہلکی آواز کے ساتھ ہو۔

اِن مذکورہ بالا روایات کے علاوہ اِسی واقعہ سے متعلق کچھ دیگر روایات بھی ہیں، جن میں مذکور الفاظ سے یہ بات اور زیادہ واضح ہوتی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ نے جہرا تلاوت کو ہرگز سنت قرار نہیں دیا، بلکہ سورۃ الفاتحہ پڑھنے کو سنت کو قرار دیا ہے، جہر صرف تعلیم کی غرض سے کیا ہے، نہ اصلا سنت ہونے کی وجہ سے۔ اُن روایات میں سے صرف ایک روایت بغرضِ اختصار ذکر کی جاتی ہے:

فی المستدرک للإمام الحاکم، رقم الحدیث:1329

" أخبرنا أبو النضر الفقيه، ثنا عثمان بن سعيد الدارمي، ثنا سعيد بن أبي مريم، ثنا موسى بن يعقوب الزمعي، حدثني شرحبيل بن سعد، قال: حضرت عبد الله بن عباس صلى بنا على جنازة بالأبواء وكبر، ثم قرأ بأم القرآن رافعا صوته بها، ثم صلى على النبي صلی اللہ علیہ وسلم، ثم قال: اللهم عبدك، وابن عبدك، وابن أمتك، يشهد أن لا إله إلا أنت وحدك لا شريك لك، ويشهد أن محمدا عبدك ورسولك، أصبح فقيرا إلى رحمتك، وأصبحت غنيا عن عذابه، يخلى من الدنيا وأهلها، إن كان زاكيا فزكه، وإن كان مخطئا فاغفر له اللهم لا تحرمنا أجره، ولا تضلنا بعدہ، ثم كبر ثلاث تكبيرات، ثم انصرف فقال: أيها الناس إني لم أقرأ علنا إلا لتعلموا أنها السنة. لم يحتج الشيخان بشرحبيل بن سعد، وهو من تابعي أهل المدينة، وإنما أخرجت هذا الحديث شاهدا للأحاديث التي قدمنا، فإنها مختصرة مجملة، وهذا حديث مفسر".

اِس روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرمارہے ہیں کہ میں نے زور سے تلاوت نہیں کی مگر اِس لیے کہ تم لوگ جان جاو کہ یہ سنت ہے۔ یعنی جہر کے ذریعے تم لوگوں کو پتا چل جائے کہ سورۃ الفاتحہ پڑھنا سنت ہے۔ اِس روایت میں جو شرحبیل بن سعد کی وجہ سے کمزوری آرہی ہے، اُس بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اپنی کتاب "المطَالبُ العَاليَةُ بِزَوَائِدِ المسَانيد الثّمَانِيَةِ" میں فرماتے ہیں:

"قال الحاكم: لم يحتج الشيخان بشرحبيل بن سعد، وهو من تابعي أهل المدينة، وأخرجته شاهدا. ووافقه الذهبي. قلت: هو حسن في الشواهد والمتابعات". (5/398)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اِس روایت کو حسن قرار دیا ہے، اور اِس روایت سے بالکل صاف ظاہر ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جہرا تلاوت کسی اور سبب سے کی تھی، بذاتِ خود کو جہر کو مسنون بتانا مقصود نہیں تھا۔

جہرا تلاوت کے بارے میں بحث یہاں مکمل ہوگئی۔ رہا مسئلہ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانے کا تو اِس بارے میں سنن نسائی کی ہی دو روایات میں سے محمد بن بشار والی روایت میں سورت ملانے کا ذکر نہیں ہے۔ اِسی طرح دیگر کتبِ حدیث میں بھی بعض روایات میں سورت ملانے کا ذکر ہے، بعض میں نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام بیہقی رحمہ اللہ کی رائے کو لیتے ہوئے روایات میں سورت ملانے والی بات کو غیر محفوظ قرار دیا ہے۔

فی تحفۃ الأحوذی: 4/96

"قلت: قال الحافظ في التلخيص بعد ذكر أثر بن عباس أنه قرأ على الجنازة بفاتحة الكتاب وقال إنها سنة ما لفظه ورواه أبو يعلى في مسنده من حديث بن عباس وزاد وسورة، قال البيهقي ذكر السورة غير محفوظ، وقال النووي إسناده صحيح. انتهى".

اور اگر اِن روایات کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو اُسے اِس بات پر محمول کیا جائے گا کہ سورۃ الفاتحہ جس طرح بطور ثناء تقریبا سب علماء کے نزدیک پڑھنا جائز ہے، تو اِسی طرح اِس میں سورۃ الفاتحہ کی کوئی خاص تخصیص نہیں، بلکہ قرآن کریم کی کوئی بھی سورت جو حمد و ثناء کے مضمون پر مشمل ہو، اُسے نمازِ جنازہ میں بطور ثناء پڑھنا جائز ہے۔ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جن چند مقامات پر سورۃ الفاتحہ کے ساتھ سورت ملانا ثابت ہے، اگر اُسے تسلیم بھی کرلیا جائے تو اُس بارے میں یہ تاؤیل کوئی بعید نہیں ہے کہ انہوں نے سورت ثناء کی نیت سے پڑھی ہو، کیونکہ اگر اِس روایت کی بنیاد پر سورت ملانے کو سنت قرار دینے کی کوشش کریں تو محض ایک صحابی کا ایسا تفرد کہ جس کے ثابت شدہ ہونے میں ہی محدثین نے کلام کیا ہے، اُس سے سنیت کو ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔

فی إعلاء السنن للعلامۃ ظفر احمد العثمانی:8/258

"فإنہ یحتمل أن تکون تلك السورۃ مشتملۃ علی الثناء کالفاتحۃ، فلا یضرنا، وبہ نقول: والجواب عن الجھر أنہ لتعلیم کون الثناء ولو فی آیات القرآن سنۃ، کما یدل علیہ قول ابن عباس "إنما جھرت" الخ".

حاصل کلام یہ کہ اہلِ حدیث حضرات کا مذکورہ بالا مرویات کے محض ظاہر کو دیکھتے ہوئے نمازِ جنازہ میں جہرا تلاوت اور اُس کے ساتھ سورت ملانے کو جائز قرار دینا امت میں دس صدیاں گزرجانے کے بعد ایک نئی رائے کی ایجاد اور ایک نئے قول کا اختراع ہے، جو کہ صاف اور صریح اجماعِ امت کی مخالفت ہے۔ (أعاذنا اللہ منہ)، اور شرعی احکامات کے ثابت ہونے میں اجماع بھی مستقل دلیل ہے، جیسا کہ پیچھے ذکر کیا گیا ہے۔

آخری سوال یہاں یہ ہے کہ اگر کوئی اہلِ حدیث امام جہرا تلاوت کے ساتھ نمازِ جنازہ پڑھاتا ہو تو اُس کے پیچھے نمازِ جنازہ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

واضح رہے کہ نمازِ جنازہ کےدو رکن ہیں: 1۔ چار تکبیرات، 2۔ قیام۔

اگر چار تکبیرات اور قیام پایا جائے تو نمازِ جنازہ بہرحال درست ہوگی۔ البتہ جہرا تلاوت کرنا چونکہ اجماع کی مخالفت ہے، لہذا ایسے شخص کے پیچھے اگر چہ نماز ہوجائے گی، لیکن ایسے شخص کو اپنے اختیار سے امام بنانا جائز نہیں۔ جہرا تلاوت کرنے کے دوران امام کی اتباع نہ جائے اِس طور پر کہ سورۃ الفاتحہ کے اختتام پر آمین نہ کہا جائے، بلکہ خاموش رہا جائے۔ اور باقی تکبیرات وغیرہ میں امام کی اتباع کی جائے۔

حوالہ جات
فی الفقہ الإسلامی وأدلتہ للعلامۃ وھبۃ الزحیلی: 2/1513
"أما مذهب الحنفية: فللصلاة عندهم ركنان: التكبيرات الأربع، والقيام".
وفی الدر المختار مع رد المحتار: 2/214
"(ولو كبر إمامه خمسا لم يتبع) لأنه منسوخ (فيمكث المؤتم حتى يسلم معه إذا سلم) به يفتى".
و فی الشرح: قوله: (لأنه منسوخ)؛ لأن الآثار اختلفت في فعل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم، فروي الخمس والسبع والتسع وأكثر من ذلك إلا «أن آخر فعله صلی اللہ علیہ وسلم كان أربع تكبيرات» فكان ناسخا لما قبله ح عن الإمداد. وفي الزيلعي: «أنه صلی اللہ علیہ وسلم حين صلى على النجاشي كبر أربع تكبيرات وثبت عليها إلى أن توفي» فنسخت ما قبلها. ط. قوله: (فيمكث المؤتم إلخ) لما كان قولهم لم يتبع صادقا بالقطع وبالانتظار أردفه ببيان المراد منه. ط. قوله: (به يفتى) رجحه في فتح القدير بأن البقاء في حرمة الصلاة بعد فراغها ليس بخطأ مطلقا إنما الخطأ في المتابعة في الخامسة. بحر. وروي عن الإمام أنه يسلم للحال ولا ينتظر تحقيقا للمخالفة".

طارق مسعود

دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

28، محرم الحرام،1444

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طارق مسعود

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب