021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
 بیٹے کاوالدکو کسی امیرعورت سےشادی پرمجبورکرناتاکہ خوداپنی شادی کابندوبست ہوسکے
77643نکاح کا بیاننکاح کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

سوال:کیافرماتےہیں،مفتیان کرام اس مسئلےکےبارےمیں کہ ایک شخص جوکہ اپنی بیوی بچوں کےساتھ بہت خوش ہے،اس شخص کابڑابیٹا ہےجوکہ بالغ بھی ہےاوراس سال مدرسےسےفارغ التحصیل بھی ہونےوالاہے،اس بچےکی چاہت اپنی پڑھائی کی وقت سےہی شادی کی تھی،لیکن اس کاوالد کہاکرتاتھاکہ شادی کےبعد میں آپ کی کوئی بھی ذمہ داری نہ اٹھاؤنگا،جس کی وجہ سےدوران تعلیم نکاح نہ کرسکا،اب جب پڑھائی سےفراغت کاوقت قریب آیاتو والد کاکہناہےکہ پہلےمیرےپاس تین لاکھ روپےجمع کراؤپھرآپ کی شادی کرونگا،اب بیٹےنےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک "تنکح المرءۃ لاربع۔۔۔۔۔کوبنیاد بناتےہوئےاپنےوالد سےیہ کہاکہ آپ کسی امیرعورت سےدوسری شادی کرلیں،تاکہ پیسہ آنےکےبعد ہماری شادی بھی آسانی سےہوجائےاوربعدکی زندگی میں  بھی آسانی پیداہوجائے۔اس  صورت حال سےمتعلق سوال یہ ہےکہ

۱۔کیااس شخص کےلیےاپنےبچوں کی طلب کی خاطر کسی امیر عورت سےدوسرانکاح کرنا جائزہے؟

۲۔ کیاایک آدمی کےلیےدوسرانکاح صرف پیسےکےلیےکرنا جائزہے؟

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اصل جوا ب سے پہلےبطورتمہیدیہ سمجھنا ضروری ہےکہ بیٹے کے بالغ ہونے کے بعد( اگر وہ معذور نہ ہو اور کمانے کے قابل ہو تو) اس کا کسی بھی قسم کا خرچہ شرعاً والدین کے ذمہ نہیں رہتا، چنانچہ بیٹے کے بالغ ہونے کے بعد اس کی مناسب جگہ پر شادی کی فکر وکوشش کرنا تو والدین کی ذمہ داری بنتی ہے، لیکن شادی کا خرچہ اور بیوی کا نفقہ والدین کے ذمہ نہیں ہے، اس کا انتظام لڑکے کو خود کرنا ہوگا، اور اگر شادی کی فضول و غیر ضروری رسموں  اور فضول خرچی سے بچاجائے تو شادی کا خرچہ اتنا زیادہ اور مشکل بھی نہیں ہے،جتنا آج کل سمجھ لیا گیا ہے، اس لیے اگر والدین کی استطاعت ہو تو ان کو بطورِ تبرع یہ خرچہ اٹھانا چاہیے، یہ ان کے لیے باعثِ اجر و ثواب ہوگا، لیکن اگر والدین کسی وجہ سے بیٹے کی شادی کا خرچہ نہ اٹھاسکیں تو بیٹے کے گناہ میں مبتلا ہونے کا وبال ان پر نہیں ہوگا، بیٹا خود کوشش کر کے حلال مال کمانے کی کوشش کرے؛ تاکہ شادی کا خرچہ اور بیوی کا نفقہ اٹھاسکے، اور جب تک اس کا انتظام نہ ہوسکے تو گناہ سے بچنے کے لیے حدیث میں روزہ رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔

اس تفصیل کےبعد آپ کےسوال کاجواب یہ ہے:

2،1۔شادی کرنےمیں ہرایک شخص خودمختارہے، شریعت نےایک مرد کوچارشادیوں تک کی اجازت دی ہے،اس  لیےاگروالدشادی کرناچاہتےہیں تواپنی مرضی سےجہاںچاہیں کرسکتےہیں  شرعاان کواختیارہے،البتہ بچوں کی طرف سےوالدکومجبورکرناکہ کسی امیرعورت سےشادی کریں(تاکہ بچوں کی اپنی شادی کابندوست ہوسکے)شرعایہ جائزنہیں(کیونکہ بالغ ہونےکےبعدبچوں کےشادی وغیرہ کاخرچہ شرعاباپ پرلازم نہیں)۔

رہی  بات حدیث مبارکہ کی جس کاحوالہ بیٹےنےدیاہے،اس کےمطابق حدیث میں مذکورہ چارچیزوں میں برابری کو بھی دیکھناضروری ہوگا،صرف مال کاہی ذکرنہیں کہ اس کی بنیادپرشادی کی جائے،چارچیزوں میں ایک اہم چیز دینداری بھی ہےاوراس کواہمیت کےپیش نظر آخرمیں ذکرکیا گیاہے،اوراس کامقصدیہ ہےکہ ان چیزوں میں سب سےمقدم دینداری ہونی چاہیے۔

نیزصرف لالچ کی خاطرنکاح کروایاجائےتواس سےدینی فوائدکبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتےاوراکثروبیشتراس طرح کےنکاح زیادہ دیرقائم بھی نہیں رہتے۔لہذابچوں کےلیےوالدکواس طرح کےعمل پرمجبور کرناشرعاجائزنہیں ہوگا،ہاں  اگروالدنےشرعی طریقےکےمطابق(کسی امیرعورت سے) نکاح کرلیاتونکاح شرعامنعقد ہوجائےگا۔

حوالہ جات
"صحيح البخاري "3/ 26:"
باب: الصوم لمن خاف على نفسه العزبة: حدثنا عبدان، عن أبي حمزة، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، قال: بينا أنا أمشي، مع عبد الله رضي الله عنه، فقال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: «من استطاع الباءة فليتزوج، فإنه أغض للبصر، وأحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم، فإنه له وجاء۔
قوله: (من استطاع) قال القرطبي: الاستطاعة هنا عبارة عن وجود ما به يتزوج ولم يرد القدرة على الوطء، وقال الكرماني، رحمه الله، وتقديره من استطاع منكم الجماع لقدرته على مؤن النكاح فليتزوج، ومن لم يستطع الجماع لعجزه عن مؤنه فعليه بالصوم۔۔۔
قلت: النكاح على ثلاثة أنواع: الأول: سنة وهو في حال الاعتدال لقوله صلى الله عليه وسلم: (تناكحوا توالدوا تكثروا، فإني أباهي بكم الأمم يوم القيامة) . الثاني: واجب وهو عند التوقان وهو غلبة الشهوة. الثالث: مكروه وهو إذا خاف الجور، لأنه إنما شرع لمصالح كثيرة فإذا خاف الجور لم تظهر تلك المصالح ثم في هذه الحالة تشتغل بالصوم، وذلك أن الله تعالى أحل النكاح وندب نبيه صلى الله عليه وسلم إليه ليكونوا على كمال من دينهم وصيانة لأنفسهم من غض أبصارهم وحفظ فروجهم لما يخشى على من جبله الله على حب أعظم الشهوات، ثم أعلم أن الناس كلهم لا يجدون طولا إلى النساء، وربما خافوا العنت بعقد النكاح، فعوضهم منه ما يدافعون به سورة شهواتهم وهو الصيام، فإنه وجاء، وهو مقطع للانتشار وحركة العروق التي تتحرك عند شهوة الجماع".
" رد المحتار"3/ 612:"
وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر ... (وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقاً وزمن۔
(قوله: لطفله) هو الولد حين يسقط من بطن أمه إلى أن يحتلم، ويقال: جارية، طفل، وطفلة، كذا في المغرب. وقيل: أول ما يولد صبي ثم طفل ح عن النهر ۔۔۔۔۔(قوله: وزمن) أي من به مرض مزمن، والمراد هنا من به ما يمنعه عن الكسب كعمى وشلل، ولو قدر على اكتساب ما لايكفيه فعلى أبيه تكميل الكفاية".فقط واللہ اعلم
"صحيح البخاري "ج 7 / 7:
5090 - حدثنا مسدد حدثنا يحيى عن عبيد الله قال حدثني سعيد بن أبي سعيد عن أبيه عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال تنكح المرأة لأربع لمالها ولحسبها وجمالها ولدينها فاظفر بذات الدين تربت يداك
"تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذي " 7 / 205:
عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إن المرأة تنكح على دينها ومالها وجمالها. فعليك بذات الدين. تربت يداك".
قال: وفي الباب عن عوف بن مالك وعائشة وعبد الله بن عمرو وأبي سعيد.
قال أبو عيسى: حديث جابر حديث حسن صحيح.
قوله: (تنكح) بصيغة المجهول (على دينها) أي لأجل دينها فعلى بمعنى اللام لما في الصحيحين: تنكح المرأة لأربع: لمالها ولحسبها ولجمالها ولدينها. الحديث (فعليك بذات الدين) قال القاضي رحمه الله: من عادة الناس أن يرغبوا في النساء ويختاروها لإحدى الخصال، واللائق بذوى المروءات وأرباب الديانات أن يكون الدين مطمح نظرهم فيما يأتون ويذرون، لا سيما فيما يدوم أمره ويعظم خطره انتهى. وقد وقع في حديث عبد الله بن عمر وعند ابن ماجه والبزار والبيهقي رفعه: لا تزوجوا النساء لحسنهن فعسى حسنهن أن يرديهن، ولا تزوجوهن لأموالهن فعسى أموالهن أن تطغيهن، ولكن تزوجوهن على الدين. ولأمة سوداء ذات دين أفضل۔
 
 
 
 

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

/28محرم  1444 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب