77654 | طلاق کے احکام | تین طلاق اور اس کے احکام |
سوال
میری بہن ہے، اس کے شوہر نے اس کو بہت مارا تھا جو ہم نے برداشت کیا۔ میری بہن نے اپنے شوہر سے کہا کہ مجھے علیحدگی چاہتی ہوں، مجھے علیحدگی دے دیں۔ شوہر نے کہا کہ علیحدگی کی بات یہ ہے کہ میر اتمہارے اوپر بال کے برابر اعتماد نہیں ہے۔ میری بہن نے مجھے بتایا کہ آپ اٹھ جائیں، چلتے ہیں۔ میری بہن باہر نکلی، میں بھی باہر نکلا، اتنے میں اس کا شوہر بھی باہر آیا اور اس کو بہت زیادہ مارا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا کہ اس کو نہ ماریں۔ وہ پیچھے ہٹا اور یہ الفاظ کہے کہ میرے اوپر تین دفعہ طلاق ہو۔ میں نے اپنی بہن کو وہاں سے روانہ کیا، چار ماہ کا بچہ اس کی گود میں تھا، جب یہ روانہ ہوئی، چوکھٹ پر پہنچی تو شوہر اور اس کی بہن نے اس سے بچہ چھین لیا۔ میری بہن بچے کے پیچھے واپس ہونے لگی تو میں نے اسے روکا کہ بچہ یہ نہیں روک سکتے، اس دوران اس نے کہا کہ اگر یہ چوکھٹ پار کیا تو میرے اوپر تین دفعہ طلاق ہو۔ پھر تیسری دفعہ کہا کہ اگر یہ چوکھٹ ابھی پار کیا تو میرے اوپر تین دفعہ طلاق ہو۔ میں نے اسے جواب دیا کہ آپ نے جو بکواس پہلے کرلی ہے، اس کے بعد تو کچھ رہا نہیں ہے۔ اس کے چار پانچ دن بعد انہوں نے جہیز کا سامان بھی واپس کیا اور بڑوں سے کہا کہ اس کا جو مہر ہے وہ بھی ہم دیدیں گے اور بچے کا خرچہ بھی دیں گے۔ اب وہ بات تبدیل کر رہے ہیں، کبھی کچھ کہتے ہیں، کبھی کچھ۔
سوال یہ ہے کہ صورت میں طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینا گناہ کا کام ہے جس سے بچنا ضروری ہے، لیکن اگر کوئی تین طلاقیں ایک ساتھ دیدے تو وہ تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔
لہٰذا اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل درست ہے تو جب آپ کے بہنوئی نے آپ کی بہن کو پہلی دفعہ یہ الفاظ کہے کہ "میرے اوپر تین دفعہ طلاق ہو" تو اس سے آپ کی بہن پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں اور ان دونوں کے درمیان حرمتِ مغلظہ ثابت ہوگئی۔ اب نہ رجوع ہوسکتا ہے، نہ ہی تحلیل کے بغیر ان دونوں کا دوبارہ آپس میں نکاح ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد اس نے دو دفعہ تین طلاقوں کی جو تعلیق کی ہے، اس کا شرعا کوئی اعتبار نہیں۔
حوالہ جات
.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
1/صفر المظفر/1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |