021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایکونیکس(Econex) کمپنی کا حکم
77655اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلدلال اور ایجنٹ کے احکام

سوال

مجھے ایک کاروبار کے سلسلے میں شرعی تحقیق کرنی ہے، کاروبار یہ ہے کہ ایک پاکستانی کمپنی جس کا نام " ECONEX " ہے جو کہ پچھلے چار سالوں سے اس کاروبار سے متعلق ہے، یعنی جن کی پروڈکٹ "Madison"  ہے، یہ کمپنی پچھلے چار سالوں سے دور جدید کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کمپنی نے اپنے آپ کو Promote کرنے کیلئے Network Marketing کا سہارا لیا،مقصد کمپنی کا اپنی پروڈکٹ کی فروخت ہی ہے،مگر عوام کے ذریعے یہ کام کیا جاتا ہے اور عوام ہی کو مارکیٹنگ کرنے پر بجٹ بطور Rewards کے دیا جاتا ہے۔ کاروبار کا system،مندرجہ ذیل ہے۔

کمپنی کے Madison Products کے چار قسم کے پیکجز ہیں جو کہ 3000 سے 17000 تک ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ کوئی شخص کسی بھی پیکج سے اپنا آرڈر بک کروائے اور مزید یہ کہ کمپنی کی پروڈکٹ کو Promote کرے اور مزید دو ایسے ممبرز لےآئے جو اپنا اپنا پیکج بک کروائیں،اس طرح مزید دو آنے والے ممبرز آپ کی ٹیم میں شامل ہوجائیں گےاور کمپیٹ میں اس طرح سے نظر آئیں گے۔ 

        0

       / \

     0    0

 اب یہ نئے ممبرز مزید دو دو ممبرز بنائیں گے اور اسطرح آپ کی ٹیم چھ لوگوں پر مشتمل ہوجائے گی اورآپ کی ٹیم 20 ممبرز پر مشتمل ہوجانے پر آپکا پہلا Step مکمل ہوتا ہے اور آپ کو کمپنی کی طرف 3000 Bronze Reward کے ملتا ہے۔ اس کے علاوہ per member کے ٪30 کمیشن بھی ملتا ہے،اس کےبعد ہماری ٹیم میں شامل ہونے والے لوگ ہماری زیرنگرانی میں مزید کام کریں گے اور اس طرح آنے والے ہر شخص کو اس کی ٹیم میں شامل کرلیا جائے گا،جو اسے لایا تھا اور اس کا فائدہ اوپر تک کے تمام لوگوں کو ہوگا۔جناب اس طرح کے سسٹم میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بغیر محنت کے کمایا جاسکتا ہے مگر حقیقت اور تجربہ یہ ہی رہا ہے کہ بغیر محنت کے کچھ نہیں کیونکہ کے ایک طرف تو آپ کے اور والے لوگ آپ کو ممبرز دے دیں گے مگر دوسری طرف آپ کی محنت نہ ہونے کی بناء پر کوئی شخص نہیں ہوگا کیونکہ آپ نے کمپنی کی پروڈکٹ کو Promote نہیں کیا تو اس طرح آپ کی ٹیم میں بغیر محنت کے لوگوں کا اضافہ تو ہوگا مگر کمائی کچھ نہیں ہو سکے گی،بغیر محنت کے کسی ممبر ایک روپیہ بھی نہیں کمایا اور اسکو ایک طرف کے نمبرز اوپر والے شخص نے دے دیئے،اوپر کے شخص اور نیچے والے کی اور اپنی اپنی دونوں Sides خود سنبھالی اور ایک Supervisor کے طور پر اپنا بزنس چلایااور 10 Pairs 20 ممبرز مکمل ہونے پر بطور Reward کے بھی رقم حاصل کے گا اور اصل میں یہی وہ نقطہ ہے کہ اس کاروبار میں  ٪100 محنت مشروط ہے۔جناب بڑی نوازش ہوگی کہ آپ اس کاروبار کی شرعی تحقیق کریں،تاکہ امت مسلہ دور جدید کے نئے کاروبار سے آگاہ ہوں اور شرعی اصولوں پر کاربند ہوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکرکردہ تفصیلات کے مطابق مذکورہ کاروبار چار وجوہ سے ناجائز ہے۔

۱۔ایک عقد دوسرے عقد کے ساتھ مشروط ہے جوکہ شرعاًناجائز ہے،جس کی تفصیل یہ ہےکہ مذکورہ کاروبار میں لوگوں کو چیز فروخت کروا کر کمیشن لینا اجارے (ملازمت) کے تحت آتا ہے،جسے پراڈکٹس کی خریداری کے ساتھ مشروط کر دیا جاتا ہے،لہٰذا اگر پراڈکٹس نہیں خریدی گئیں تو دوسروں کو خریداری کروا کر کمیشن کا حق بھی نہیں ہوگا،یوں ایک عقد (معاملے) میں دوسرا عقد جمع کیا جاتا ہے جو شرعاً ناجائز ہے۔

۲۔بغیر عمل کے اجرت کا ملنا یاایک ہی مرتبہ کے عمل کے نتیجے میں بار بار اجرت کا ملنا،اس کی تفصیل یہ ہے کہ  مذکورہ کاروبار میں جب کوئی شخص پہلا ممبر بناتا ہے اور وہ ممبر مزید آگے ممبرز بناتا ہے تو ان آگے والے ممبران کی لین دین میں اس شخص کا کوئی ایسا عمل نہیں ہوتا جس کا تعلق براہ راست کمپنی اور خریدار کے لین دین سے ہو، ایسی صورت میں یہ شخص جو اجرت لیتا ہے وہ بغیر کسی عمل کے ہوتی ہے،یا ابتدا میں بنائے گئے ممبر کے عمل کے نتیجے میں بار بار اجرت ملتی ہے اور ان دونوں صورتوں میں اجرت جائز نہیں ہے۔

۳۔قمار یعنی جوے کا ہونا،جس کی تفصیل یہ ہے کہ مذکورہ کاروبار میں اکثر شامل ہونے والے لوگ نیٹ ورک بنانے کے مقصد سے شامل ہوتے ہیں اور پراڈکٹ خریدنے سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممبران بنائیں تو ان کا کمیشن حاصل ہو، چونکہ معاملات میں مقاصد کا اعتبار ہوتا ہے لہذا یہ لوگ رقم پراڈکٹ خریدنے کے لیے نہیں بلکہ ایک ایسے کام کے لیے لگاتے ہیں جس کا ہونا یا نہ ہونا ، دونوں ممکن ہوتے ہیں، اگر کام ہو گیا (یعنی ممبر بن گئے) تو نفع ہو جائے گا اور ممبر نہ بن سکے تو یہ رقم بھی جائے گی، یہ شرعاً قمار (جوے) کے تحت آتا ہے،جوکہ ناجائز ہے۔

۴۔حق مجرد کی بیع ہونا،جس کی تفصیل یہ ہےکہ مذکورہ کاروبار میں پراڈکٹس کی خریداری کا مقصد پراڈکٹس نہیں ہوتیں بلکہ نیٹ ورکنگ کا حق حاصل کرنا ہوتا ہے، لہذا یہ نیٹ ورکنگ کے حق کی بیع ہوتی ہے، نیٹ ورکنگ کا عمل اجارہ کے تحت آتا ہے ، اس کی بیع حق اجارہ کی بیع ہے جو ایک  حق مجرد ہے اور حق مجرد کی بیع جائز نہیں ہوتی۔

جواب کا خلاصہ یہ ہوا کہ نیٹ ورک مارکیٹنگ یا ملٹی لیول مارکیٹنگ کے نام سے رائج کاروبار کی مختلف اسکیمیں یا کسی اور نام سے مذکورہ کاروبار  کی طرح کی رائج اسکیمیں مذکورہ خرابیوں کی وجہ سے ناجائز ہے،لہٰذا اس طرح کی کاروباری اسکیمیں شروع کرنا یا اس کاحصہ بننا جائز نہیں ہے۔

حوالہ جات
(وكذلك لو باع عبدا على أن يستخدمه البائع شهرا، أو دارا على أن يسكنها شهرا، أو على أن يقرضه المشتري دراهم، أو على أن يهدي له هدية) فالبيع فاسد۔۔۔ وقد نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن صفقتين في صفقة ونهى عن بيع وشرط عن شرطين في بيع وعن بيع وسلف وعن ربح ما لم يضمن وعن بيع ما لم يقبض وعن بيع ما ليس عند الإنسان ، أما بيع وشرط فهو أن يبيع بشرط فيه منفعة لأحد المتعاقدين وأما نهيه عن شرطين في بيع فهو أن يبيع عبدا بألف إلى سنة، أو بألف وخمسمائة إلى سنتين ولم يثبت العقد على أحدهما، أو يقول: على إن أعطيتني الثمن حالا فبألف، وإن أخرته إلى شهر فبألفين، أو أبيعك بقفيز حنطة، أو بقفيزي شعير فهذا لا يجوز. لأن الثمن مجهول عند العقد ولا يدري البائع أي الثمنين يلزم المشتري، وأما صفقتان في صفقة أن يقول: أبيعك هذا العبد بألف على أن تبيعني هذا الفرس بألف وقيل هو أن يبيع ثوبا بشرط الخياطة، أو حنطة بشرط الحمل إلى منزله فقد جعل المشتري الثمن بدلا للعين والعمل فما حاذى العين يكون بيعا وما حاذى العمل يكون إجارة فقد جمع صفقتين في صفقة۔۔۔.
(الجوهرة النيرة، 1/203، ط: المطبعة الخيرية)
وإن اشترى ثوبا على أن يخيطه البائع بعشرة فهو فاسد؛ لأنه بيع شرط فيه إجارة؛ فإنه إن كان بعض البدل بمقابلة الخياطة فهي إجارة مشروطة في بيع، وإن لم يكن بمقابلتها شيء من البدل فهي إعانة مشروطة في البيع، وذلك مفسد للعقد۔۔۔.
(المبسوط للسرخسي، 15/102، ط: دار المعرفة)
وإن سلم غلاما إلى معلم ليعلمه عملا وشرط عليه أن يحذقه فهذا فاسد؛ لأن التحذيق مجهول إذ ليس لذلك غاية معلومة وهذه جهالة تفضي إلى المنازعة بينهما، وكذلك لو شرط في ذلك أشهرا مسماة؛ لأنه يلتزم إيفاء ما لا يقدر عليه فالتحذيق ليس في وسع المعلم بل ذلك باعتبار شيء في خلقة المتعلم، ثم فيما سمي من المدة لا يدري أنه هل يقدر على أن يحذقه كما شرط أم لا والتزام تسليم ما لا يقدر عليه بعقد المعاوضة لا يجوز.
(المبسوط للسرخسي، 16/41، ط: دار المعرفة)
العبرة في العقود للمقاصد والمعاني لا للألفاظ والمباني۔۔۔ والمراد بالمقاصد والمعاني: ما يشمل المقاصد التي تعينها القرائن اللفظية التي توجد في عقد فتكسبه حكم عقد آخر كما سيأتي قريبا في انعقاد الكفالة بلفظ الحوالة، وانعقاد الحوالة بلفظ الكفالة، إذا اشترط فيها براءة المديون عن المطالبة، أو عدم براءته.
وما يشمل المقاصد العرفية المرادة للناس في اصطلاح تخاطبهم، فإنها معتبرة في تعيين جهة العقود، فقد صرح الفقهاء بأنه يحمل كلام كل إنسان على لغته وعرفه وإن خالفت لغة الشرع وعرفه: (ر: رد المحتار، من الوقف عند الكلام على قولهم: وشرط الواقف كنص الشارع) .
(شرح القواعد الفقهية، 1/55، دار القلم)
لغة: اسم للأجرة وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض).
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 6/4، ط: دار الفكر)

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

        ۰۲/صفر۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب