021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں جائیداد کی تقسیم
77649ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں شریعت کی روسے کیا فرماتے ہیں

ملوک خان بن دوست محمد کی دوشادیاں تھیں،پہلی شادی( بیوی) سے پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں،جبکہ دوسری بیوی سے تین بیٹے(ایک بیٹا اور بھی، جو ان کی موت کے کچھ عرصہ بعد پیداہو،جس کا نام صفی اللہ رکھا گیا) اور پانچ بیٹیاں تھیں۔

پہلی بیوی کی اولاد:

1۔میرعبداللہ    2۔نعمت اللہ    3۔حفیظ اللہ   4۔نادرخان     5۔بازخان  6۔ چار بیٹیاں

دوسری بیوی کی اولاد:

1۔شاہزاللہ      2۔حبیب اللہ   3۔خان ولی   4۔صفی اللہ    5۔ پانچ بیٹیاں    

ملوک خان نے اپنی حیات زندگی میں اپنی منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کو 9 حصوں میں تقسیم کیاتھا،پہلی بیوی کے پانچ بیٹوں اور چار بیٹیوں کو پانچ حصے جائیداد کے دیے،جبکہ دوسری بیوی کی اولاد کو تین حصے دیے ۔اور ایک حصہ ملوک خان نے جائیداد میں اپنا رکھا،پہلی بیوی کی اولاد کو علیحداہ کر کے زمین قبضہ دیا جبکہ دوسری بیوی اور اس کے بچوں کو ساتھ رکھا،ملوک خان کی وفات کے چندماہ بعددوسری بیوی سے  اس کے ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کا نام صفی اللہ رکھا۔(اوپر ترتیب وار ناموں میں  سےچوتھا نام)

 برائے مہربانی راہنمائی فرمائیں کہ ملوک خان کی وراثت ان کی وفات کے بعد ورثہ میں کیسے تقسیم ہوگی؟نیز یہ بتائیں کہ  ملوک خان نے اپنی حیات میں جو  نو حصے کیے ،ایک خود رکھا اور آٹھ حصے دونوں بیویوں کی اولاد میں تقسیم کیےاور حیات میں ہی ان سب کو قبضہ دے دیا تھا تو آیا ان کی وراثت میں صرف نواں حصہ ہی ہے  یا آٹھ حصے بھی وراثت میں شامل ہوں گے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔اپنی زندگی میں اولاد کو جائیدادوغیرہ دینا ہدیہ ہے، اس لیے اس میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کو بھی اتنا ہی حصہ

دینا چاہیے تھا،جو بیٹوں کودیا ہے،بغیر کسی شرعی وجہ کے بیٹیوں کو کم دینا یا بالکل محروم کرنا شرعی حکم کی خلاف ورزی اور گناہ کا کام ہے۔

2۔اپنی زندگی میں اولاد کوجائیداد دینا ہبہ ہے،اور ہبہ میں قبضہ ضروری ہے،اس لیے  اگر والدنے قبضہ دیا ہے اس طور پر  کہ اس جائیداد سےاپنے تصرفات ختم کرکے ، اس کے تمام حقوق اور سارے متعلقہ امور سے دستبردار ہوکر اولادکے حوالے کردیا ہو تویہ جائیداد ان کی ملکیت میں آگئی ہے۔اگر قبضہ نہ دیا ہو بلکہ فقط نام کردی ہوتو پھر یہ جائیداد ان کی ملکیت میں نہیں آئی ہے،لہذا وہ میراث کا حصہ بن کر ورثہ کے درمیان اپنے حصص کے مطابق تقسیم ہوگی۔لہذا اگر یہ آٹھ حصے اس طور پر حوالے کیے ہیں تو پھر یہ اولاد کی ملکیت شمار ہوں گے،میراث میں شامل نہیں ہوں گے۔اگرتمام حصےیا کچھ حصے اس طرح حوالے نہیں کیے ہیں تو پھر وہ میراث کا حصہ بن کر ورثہ میں اپنے حصص کے مطابق تقسیم ہوں گے۔

3۔ملوک خان کی میراث اس طرح تقسیم ہوگی کہ انہوں نے  فوت ہوتے وقت  ترکہ میں جو کچھ چھوڑا  تھا وہ سب ورثہ میں شرعی طور پر تقسیم ہوگا،جس کی صورت یہ ہے کہ تمام مال واسباب کی قیمت لگائی جائے،اور اس سے کفن دفن کے معتدل اخراجات نکالے جائیں،پھر اگر میت پر قرضہ ہو تو وہ ادا کیا جائے،اس کے بعد بقیہ مال  ورثہ میں تقسیم کیاجائے،ان کے ورثہ میں دو بیویاں ،9 بیٹے اور 9 بیٹیاں ہیں ،جن میں میراث کی تقسیم اس طرح ہوگی:

1۔ دو بیویاں: 12.5 فیصد حصہ (یعنی ہر بیوی کو 6.25فیصد حصہ ملے گا۔)

2۔ نوبیٹوں کا مجموعی حصہ:58.33(یعنی ہر بیٹے کو6.48فیصد حصہ ملے گا۔)

3۔نو بیٹیوں کا مجموعی حصہ:29.17(یعنی ہر بیٹی کو 3.24فیصد حصہ ملے گا۔)

حوالہ جات
وفي الدرالمختار(6/259):
 (وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والاصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلا لا، فلو وهب جرابا فيه طعام الواهب أو دارا فيها متاعه، أو دابة عليها سرجه وسلمها كذلك لا تصح وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط لأن كلا منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به لأن شغله بغير ملك واهبه لا يمنع تمامها كرهن وصدقة لأن القبض شرط تمامها
"المبسوط للسرخسي "(12/ 56):
"فالمذهب أنه ينبغي للوالد أن يسوي بين الأولاد في العطية عند محمد - رحمه الله - على سبيل
الإرث للذكر مثل حظ الأنثيين، وعند أبي يوسف - رحمه الله - يسوى بين الذكور والإناث قال: - عليه الصلاة والسلام - «ساووا بين أولادكم حتى في القبل، ولو كنت مفضلا أحدا لفضلت الإناث»:" .
"بدائع الصنائع "(6/ 127):
"وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض.
وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال النبي - عليه الصلاة والسلام - فأرجعه وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى ولو نحل بعضا وحرم بعضا جاز من طريق الحكم لأنه تصرف في خالص ملكه لا حق لأحد فيه إلا أنه لا يكون عدلا سواء كان المحروم فقيها تقيا أو جاهلا فاسقا على قول المتقدمين من مشايخنا وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة"

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

29/محرم1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب