021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غیر مدخول بہا کو تین طلاقیں دیں اور موقعِ طلاق لفظ آخر میں ذکر کیا تو کیا حکم ہوگا؟
77682طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

محمد اسماعیل نے اپنی غیر مدخولہ بیوی کو یہ الفاظ لکھ کر دیے کہ "میں اپنی منکوحہ ثمرین اقبال کو طلاق ثلاثہ طلاق طلاق طلاق دے کر اپنے جسم پر حرام حرام حرام قرار دیتا ہوں"۔  

وفی الدر المختار:(وإن فرق) بوصف أوخبر أوجمل بعطف أوغیرہ (بانت بالأولی) لا إلی عدۃ  …… (وکذا أنت طالق ثلاثا متفرقات ) أو ثنتین مع طلاقي إیاك (ف) طلقها واحدة، وقع (واحدة).  (جلد 3 صفحہ 286 طبع: سعید)

مذکورہ صورت میں اس عربی عبارت والا ایک طلاق بائن کا حکم عائد ہوگا یا تین طلاق کا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں محمد اسماعیل کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور ان کے درمیان حرمتِ مغلظہ ثابت ہوگئی ہے، جس کے بعد اب نہ رجوع ہوسکتا ہے، نہ ہی تحلیل کے بغیر ان دونوں کا دوبارہ آپس میں نکاح ہوسکتا ہے۔ تین طلاقیں واقع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ شوہر کی بات "قرار دیتا ہوں" پر مکمل ہورہی ہے، پچھلے سارے الفاظ کا تعلق اس کے ساتھ ہے اور وہ سب بمنزلہ ایک لفظ کے ہیں؛ لہٰذا یہ ایسا ہے گویا کہ شوہر نے لکھا: میں اپنی بیوی کو طلاقِ ثلاثہ دے کر اپنے اوپر حرام قرار دیتا ہوں۔  

جہاں تک سوال میں نقل کردہ عربی عبارت کا تعلق ہے تو وہ اس صورت سے متعلق ہے جس میں ایک طلاق پر بات مکمل ہوجائے، پھر عطف یا صفت غیرہ کے ذریعے مزید طلاقوں کا ذکر کیا جائے، تو اس صورت میں غیر مدخول بہا عورت ایک طلاق سے بائنہ ہوجاتی ہے اور باقی طلاقیں لغو سمجھی جاتی ہیں۔

صورتِ مسئولہ میں اگر بالفرض شوہر کے لکھے ہوئے الفاظ کا الگ الگ اعتبار کیا جائے تب بھی سوال میں نقل کردہ عبارت سے اس پر استدلال درست نہیں؛ کیونکہ شوہر نے پہلا لفظ "طلاقِ ثلاثہ" لکھا ہے جس سے غیر مدخولہ پر بھی تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں۔  

المحیط البرهانی میں ان دونوں صورتوں کے درمیان فرق کی تفصیلی وضاحت  کی گئی ہے، عبارت ملاحظہ فرمائیں:-

حوالہ جات
المحيط البرهاني، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة، کراتشي(4/ 406):
إذا قال لها قبل الدخول بها: أنت طالق ثلاث يقع الثلاث، وكذلك إذا قال لها: ثنتين تقع ثنتان؛ والوجه في ذلك أن في هذه الصورة أول الكلام يتوقف على آخره؛ لأن في آخر الكلام ما يغير حكم أوله؛ لأن قوله أنت طالق لا يحتمل العدد عندنا؛ ولهذا لا تصح نية العدد فيه، وإذا توقف أول الكلام على آخره كان الوقوع عند آخره، فيصادفها آخر الكلام وهي منكوحة،  بخلاف ما إذا كرر لفظ الطلاق بحرف العطف أو بغير حرف العطف فقال لها: أنت طالق وطالق، أو قال: فطالق، أو قال: ثم طالق، أو قال: أنت طالق طالق، أو قال: ترايك طلاق، ترايك طلاق، حيث تقع واحدة؛ لأن هناك ليس في آخر كلامه ما يغير حكم أوله، فلم يتوقف أوله على آخره، فطلقت بأول الكلام وبانت لا إلى عدة، فيصادفها الكلام الثاني وهي مبانة، فلغی.
وفي «فتاوى الفضلي»: إذا قال لها قبل الدخول بها: اگرتوزن مني بيك طلاق ودو طلاق دست بازدا شته، يقع ثلاث تطليقات، ولو لم يقل: دست باز داشته تقع واحدة؛ لأن في الوجه الأول الکلام إنما يتم عند قوله "دست باز داشته"؛ لأنه صار مغیرا للأول، فيتوقف، فیقع الثلاث جملة، وفي الوجه الثاني أول كلامه تام، فبانت به لا إلى عدة.
خلاصة الفتاویٰ (2/87):
قال لامرأته قبل الدخول بها: " اگر تو زن وئی ترا بیک طلاق و دو طلاق و سه طلاق دست باز داشتم" یقع ثلاث، ولو لم یقل "دست باز داشتم" یعنی واحدة. هذا في أیمان الفتاوی، وما تقدم في طلاقها. وکذا لو قال: "اگر فلانه بزنی کنم از من بیک طلاق و دو طلاق و سه طلاق، فتزوجها، تطلق واحدة، ولو قال: "بیکی و دو و سه طلاق" ثم تزوجها یقع الثلاث. وتمام هذا في خزانة الواقعات.
الفتاوى الهندية (1/ 373):
الفصل الرابع في الطلاق قبل الدخول:
الأصل في هذه المسائل أن الملفوظ به أولًا إن كان موقعًا أولًا وقعت واحدة، وإذا كان الملفوظ به أولًا موقعًا آخرًا وقعت ثنتان.  

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  2/صفر المظفر/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب