021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ڈاکٹر اور ہسپتال کے عملہ کی غفلت کی وجہ سے مریض کا انتقال ہو تو ضمان کا حکم
77668غصب اورضمان”Liability” کے مسائل متفرّق مسائل

سوال

میری بیٹی اقصیٰ جمال کی ہاسپٹل عملہ کی غفلت کی وجہ سے وفات ہوئی ہے۔ سندھ ہیلتھ کئیر کمیشن نے ڈاکٹرز، ہاسپٹل اور سٹاف کی غفلت کو اس کی موت کی وجہ قرار دیا ہے۔ عدالت میں کیس چل رہا ہے۔ آپ ہمیں دینِ اسلام کی روشنی میں بتائیں کہ ہم کیا کریں ؟  

وضاحت: سائل نے ای میل پر بتایا کہ ہیلتھ کئیر کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جن چیزوں کو ہسپتال کی غفلت قرار دیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک تو ڈاکٹرز نے تشخیص صحیح نہیں کی، بیماری کچھ تھی اور علاج کچھ چل رہا تھا۔ دوم علاج بھی صحیح نہیں کیا، پانچ دن بچی کو پہلے ہی انٹی بائیٹک چل چکی تھی، بخار ختم ہوگیا تھا، لیکن پھر بھی انہوں نے اس کو ہائی ڈوز میڈیسن پہ رکھا، تقریبا ڈھائی سے تین ہزار کی ایک انجکشن تھی جو وہ تین وقت لگا رہے تھے، بچی کے جو الیکٹرو لائٹس تھے، جو کرنٹ ہوتا ہے جسم کا، وہ جو بناتے ہیں وہ سارے پیشاب میں بہہ گئے، لیکن انہوں نے اس کو بھی کنٹرول نہیں کیا، انہوں نے کہا سب ٹھیک ہے۔ بار بار جب بچی کے حوالے سے ہم نے انہیں کہا تو انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ ایمرجنسی کا جو عملہ ہے، انہوں نے بھی اس کا کوئی خیال نہیں رکھا،  عملہ بھی تربیت یافتہ نہیں تھا، انہوں نے کوئی میڈیکل بورڈ بھی نہیں بٹھایا۔ ہیلتھ کئیر کمیشن نے جب اچانک ایمرجنسی کا دورہ کیا تو وہاں ان کو ایک مہینہ بعد ایکسپائر ہونے والی دوائیاں ملیں۔ ان وجوہات کی بنیاد پر سندھ ہیلتھ کئیر کمیشن نے ہسپتال کے ڈاکٹر شفق شاہد پر ایک لاکھ کا جرمانہ رکھا ہے، اور عدالت کو وارننگ دی ہے کہ آپ ہسپتال کے عملے کو تربیت دیں اور اچھے ڈاکٹرز ہائر کریں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں اگر:

 (1)۔۔۔ واقعۃً ڈاکٹرز نے طبی اصولوں اور علاج کے قواعد وضوابط کا خیال نہیں رکھا، بیماری کی تشخیص اور دوائیاں تجویز کرنے میں مطلوبہ احتیاط سے کام نہیں لیا، اور بچی کی فوتگی انجکشن لگانے یا  ڈاکٹر اور عملہ میں سے کسی کے ہاتھ سے دوا پلانے یا کھلانے سے ہونا ثابت ہو تو ایسی صورت میں ڈاکٹر یا عملہ (جس نے انجکشن لگایا ہو یا غلط دوا پلائی یا کھلائی ہو) کے عاقلہ پر دیت لازم ہوگی۔ کسی ہسپتال میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر اور نرسز وغیرہ کا عاقلہ، آج کل کے عرف کے اعتبار سے اسی ہسپتال کو سمجھا جائے گا۔   

اس صورت میں بچی کی وفات کی وجہ سے شرعا دیت لازم ہوگی۔ البتہ اگر مجاز حکومتی اتھارٹی ہسپتال کی مجموعی غفلت، عملہ کو تربیت نہ دینے، ایکسپائر ہونے کے قریب دوائیاں ایمرجنسی وارڈ میں رکھنے جیسی کوتاہیوں کی وجہ سے ان پر تعزیری سزا، جرمانہ وغیرہ لگانا چاہے تو یہ ان کا صوابدیدی اختیار ہے۔  

(2)۔۔۔ لیکن اگر بچی کی وفات انجکشن لگانے سے نہیں، بلکہ دوا سے ہوئی ہے، اور دوا بھی ڈاکٹر یا ہسپتال کے عملہ میں سے کسی نے اپنے ہاتھ سے بچی کو کھلائی یا پلائی نہیں ہے، بلکہ انہوں نے صرف دوا تجویز کی ہو، پھر مریض نے خود استعمال کی ہو یا اس کے والدین وغیرہ نے اس کو کھلائی اور پلائی ہو تو ایسی صورت میں ڈاکٹر اور ہسپتال کا عملہ غلط تشخیص اور مطلوبہ احتیاط سے کام نہ لینے کی وجہ سے گناہ گار تو ہوگا، لیکن ان پر دیت لازم نہیں ہوگی۔ جہاں تک تعزیر کا تعلق ہے تو غفلت، اور طبی اصولوں کی خلاف ورزی ثابت ہونے پر  تعزیر بہر حال واجب ہوگی۔ تعزیری سزا کا تعین حکومت اور اس کی متعلقہ اتھارٹی کی صواب دید پر ہے۔ مالی تعزیر یعنی جرمانہ لگانا اگرچہ مفتیٰ بہ قول کے مطابق درست نہیں، لیکن اگر حکومتی مجاز اتھارٹی اس کا فیصلہ کرے تو حکمِ حاکم رافع للخلاف ہونے کی وجہ سے اس کا لینا جائز ہوگا۔     

حوالہ جات
سنن أبى داود (4/ 321):
  حدثنا محمد بن العلاء حدثنا حفص حدثنا عبد العزيز بن عمر بن عبد العزيز حدثنى  بعض الوفد الذين قدموا على أبى قال: قال: رسول الله ﷺ  « أيما طبيب تطبب على  قوم لا يعرف له تطبب قبل ذلك فأَعنَتَ فهو ضامن ».
قال عبد العزيز: أما إنه ليس بالنعت، إنما هو قطع العروق، والبط، والكى.
بذل المجهود (18/107-106):
قال الخطابی: و لا أعلم خلافًا فی أن المعالج إذا تعدی فتلف المریض کان ضامنا، و المتعاطی علما أو عملا لا یعرفه متعد، فإذا تولد من فعله التلف، ضمن الدیة و سقط عنه القود؛ لأنه لایستبد بذلك دون إذن المریض. و جنایة الطبیب فی قول عامة الفقهاء علی عاقلته...... (أما إنه لیس بالنعت) أي حکم الضمان لیس بالوصف باللسان، و کذا حکم الکتابة، فإنه إذا وصف الدواء لإنسان فعمل بالمریض فهلك لا یلزم الطبیب الدیة (إنما هو) أی حکم الضمان
(قطع العروق) أي الشق (والکي( بالنار.
حاصله: أن الطبیب إذا عالج بشئ من المعالجة بیده، مثلا قطع العرق أو شق الجلد أو کواه بمکواة أو سقاه بیده فأوجر فی فیه فتلف فهو جنایة یلزمه الدیة، و أما إذا وصف له الدواء و بینه للمریض فأکل المریض بیده فلا ضمان فیه.
فيض القدير (6/ 137):
(من تطبب ولم يعلم منه طب) أي من تعاطى الطب ولم يسبق له تجربة ، ولفظ التفعل يدل على تكلف الشئ والدخول فيه بكلفة ككونه ليس من أهله (فهو ضامن) لمن طبه بالدية إن مات بسببه لتهوره بإقدامه على ما يقتل. ومن سبق له تجربة وإتقان لعلم الطب بأخذه عن أهله فطب وبذل الجهد الصناعي فلا ضمان عليه.
الأصل للشيباني (6/ 583):
ولو سقى رجل رجلاً سما، أو أوجره إياه إيجاراً، فقتله، لم يكن عليه القصاص، وكان  على عاقلته الدية. ولو كان أعطاه إياه فشربه هو لم يكن عليه فيه شيء، ولا شيء على عاقلته، مِن قِبَل أنه شربه هو.
فتاوى قاضي خان (3/ 270):
و لو سقاه سما حتى مات فهو على وجهين: إن دفع إليه السم حتى أكل و لم يعلم به فمات لا قصاص فيه و لا دية لكن يحبس و يعزر،  و لو أوجره إيجارا تجب الدية على عاقلته، و إن دفع إليه في شربه فشرب فمات لا تجب الدية؛ لأنه شرب باختياره، إلا أن الدافع خدعه فلا يجب فيه إلا التعزير و الاستغفار.
الدر المختار (6/ 68):
( ولا ضمان على حجام وبزاغ ) أي بيطار ( وفصاد لم يجاوز الموضع المعتاد فإن جاوز ) المعتاد ( ضمن الزيادة كلها إذا لم يهلك ) المجني عليه ( وإن هلك ضمن نصف دية النفس ) لتلفها بمأذون فيه وغير مأذون فيه، فيتنصف، ثم فرع عليه بقوله ( فلو قطع الختان الحشفة وبرىء المقطوع تجب عليه دية كاملة ) لأنه لما برىء كان عليه ضمان الحشفة، وهي عضو كامل كاللسان ( وإن مات فالواجب عليه نصفها ) لحصول تلف النفس بفعلين أحدهما مأذون فيه، وهو قطع الجلدة، والآخر غير مأذون فيه، وهو قطع الحشفة، فيضمن النصف.
رد المحتار (6/ 69):
قوله ( دية كاملة ) قال الزيلعي: هذا من أعجب المسائل، حيث وجب الأكثر بالبرء، والأقل بالهلاك.
تكملة فتح الملهم (2 /329-328):
قال الإمام أبو حنیفة رحمه الله: إن العاقلة هم الذین یتناصر بهم القاتل، وکان التناصر في عهد رسول الله صلی الله علیه وسلم بالقبائل، فکانت عاقلة الرجل قبیلته، ثم تغیر الوضع حین وضع سیدنا عمر رضي الله عنه الدیوان، فصار التناصر بالدیوان، فأصبح أهل الدیوان عاقلة …..…. فالحاصل اٴن قضاء عمر بمحضر من الصحابة رضی اﷲ عنهم دل علی اٴن الحکم کان مناطه النصرة، فیتغیر بتغیره. ویمکن اٴن یقال فی عصرنا أن التناصر أصبح للعمال بوفاقهم الذي یسمی "ترید یونین"، وللسیاسیین بأحزابهم السیاسیة، فینبغی أن تکون عاقلة عاملٍ وفاقه، وعاقلة سیاسی حزبه السیاسی.   
الدر المختار (4/ 66):
( وعزر كل مرتكب منكر أو مؤذي مسلم بغير حق بقول أو فعل )….. وكل مرتكب معصية لا حد فيها، فيها التعزير، أشباه …… الخ
رد المحتار (4/ 66):
قوله ( وعزر كل مرتكب منكر الخ ) وهذا هو الأصل في وجوب التعزير، كما في البحر عن شرح الطحاوي.
مطلب التعزیر قد یکون بغیر معصیة: وظاهره أن المراد حصر أسباب التعزير فيما ذكر، مع أنه قد يكون بدون معصية، كتعزير الصبي والمتهم كما يأتي، وكنفي من خيف منه فتنة بجماله مثلا، كما مر في نفي عمر رضي الله عنه نصر بن حجاج. وذكر في البحر أن الحاصل وجوبه بإجماع الأمة لكل مرتكب معصية ليس فيها حد مقدر، كنظر محرم ومس محرم وخلوة محرمة وأكل ربا ظاهر اه.
 قلت: وهذه الكلية غير منعكسة؛ لأنه قد يكون في معصية فيها حد كزنا غير المحصن، فإنه يجلد حدا، وللإمام نفيه سياسة وتعزيرا كما مر في بابه.  وروى أحمد أن النجاشي الشاعر جيء به إلى علي رضي الله تعالى عنه وقد شرب الخمر في رمضان فضربه ثمانين ثم ضربه من الغد عشرين، لكن ذكر في الفتح أنه ضربه العشرين فوق الثمانين لفطره في رمضان كما جاء في رواية أخرى أنه قال له: ضربناك العشرين بجراءتك على الله وإفطارك في رمضان اه،  فالتعزير فيه من جهة أخرى غير جهة الحد.
تقریرات الرافعی (4/46):
(قوله لأنه قد يكون في معصية فيها حد كزنا غير المحصن الخ) قد یقال إن تعزیره بالنفي سیاسةً في هذه الصورة لیس لمجرد معصیة الزنا التي حد لها، بل لأمر آخر رآه الإمام اقتضی تعزیره بذلك، کعدم انزجاره بالحد الذي أقامه علیه. فالتعزیر لیس لمعصیة الزنا، بل لأمر آخر  ومعصیة الزنا أخذت حظها، وهو الحد.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

   2/صفر المظفر/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب