021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں اپنے بیٹے کو مکان فروخت کرنے کا حکم
77678جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

میرے والد صاحب نے تین شادیاں کی تھیں۔ پہلی بیوی سے میرے والد صاحب کے کافی بچے تھے، جبکہ دوسری بیوی سے صرف میں اور میری بہن تھی۔ میرے والد صاحب کی کافی جائیداد میں سے ایک گھر بھی تھا۔ میں نے دوسرے بھائیوں کے مقابلے میں والد صاحب کی بہت خدمت کی ہے۔ والد صاحب مجھ سے بہت خوش تھے اور انہوں نے یہ چاہا تھا کہ وہ مجھے اپنا گھر دے دیں۔ اِس کے لیے انہوں نے اپنا وہ گھر عدالت کے ذریعے بیع قطعی کے عنوان سے بیچ دیا تھا، جس کے دستاویز موجود ہیں۔ اُس مکان  کی مجھے بہت کم قیمت دینی پڑی تھی اور وہ کم قیمت دینے سے وہ گھر میرا ہوگیا تھا۔ گھر فروخت ہونے کے بعد میں اور والد صاحب اُس گھر میں رہتے رہے اور اِس دوران والد صاحب نے اپنے کافی جاننے والوں اور رشتہ داروں کو بلا کر اعلان کیا تھا کہ میں نے اپنا یہ مکان اپنے اِس بیٹے کو فروخت کردیا ہے۔ یہ بات میرے دوسروں بھائیوں کو ناگوار لگی۔ لہذا والد صاحب کے انتقال کے بعد جب میں ملک سے باہر تھا، میرے بھائیوں نے اُس مکان پر قبضہ کرلیا اور مجھے کہا کہ تم اگر ادھر آئے تو ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔

میرے بھائی کہتے ہیں کہ والد صاحب نے ہمارے ساتھ غلط کیا، اِس مکان میں ہمارا بھی حصہ تھا اور وہ ایک بیٹے کو فروخت کردیا۔ میرے بھائی کہتے ہیں کہ اِس مکان میں اب بھی ہمارا حصہ ہے۔ مفتی صاحب آپ بتائیں کہ کیا یہ مکان میرا ہے یا اب بھی میرے بھائیوں کا اِس میں حصہ ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکرکردہ صورت میں والد صاحب نے یہ گھر اگر اپنے مرض الوفات (جس مرض میں اُن کا انتقال ہوا) میں آپ کو فروخت کیا تھا تو اِس بیع کا صحیح ہونا باقی ورثہ کی اجازت پر موقوف تھا۔ اور باقی ورثہ چونکہ اِس بیع پر راضی نہیں، لہذا یہ بیع صحیح نہیں ہوئی۔ اور اب اِس مکان کو والد صاحب کے ترکہ میں شامل کرکے سب ورثہ میں شرعی طریقے کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔

البتہ اگر والد صاحب نے یہ گھر آپ کو اپنی صحت کے زمانے یا ایسے مرض کہ جس میں اُن کا انتقال نہیں ہوا تھا، میں فروخت کیا تھا تو یہ بیع صحیح ہے اور اب وہ مکان آپ کا ہے، آپ کے بھائیوں میں سے کسی کا بھی اُس مکان پر کوئی حق نہیں۔ تصرفا يتعدى ضرره إلى غيره، أو لا يتعدى".

حوالہ جات
فی الدر المختار مع رد المحتار: 5/112
"(و)وقف (بيع الغاصب) على إجازة المالك؛ يعني إذا باعه لمالكه لا لنفسه على ما مر عن البدائع. ووقف أيضا بيع المالك المغصوب على البينة، أو إقرار الغاصب، وبيع ما في تسلمه ضرر على تسليمه في المجلس، وبيع المريض لوارثه على إجازة الباقي".
وفی ردالمحتار: 5/112
"قوله: (وبيع المريض لوارثه) أي ولو بمثل القيمة وهذا عنده، وعندهما يجوز ويخير المشتري بين فسخ وإتمام لو فيه باتا أو محاباة، قلت أو كثرت".
وفی الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: 36/157
"المحاباة من الصحيح غير المريض مرض الموت يترتب عليها استحقاق المتبرع له بها من جميع مال المحابي، إن كان صحيحا عند الحنفية والشافعية والحنابلة؛ لأن المحاباة توجب الملك في الحال فيعتبر حال التعاقد فإذا كان المحابي صحيحا حينئذ فلا حق لأحد في ماله، فتؤخذ من جميع ماله، لا من الثلث".
وفی بدائع الصنائع: 6/264
"فنقول: للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء، سواء كان

طارق مسعود

دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

3، صفر المظفر، 1444

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طارق مسعود

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب