021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
99سال کی لیز پر حاصل کردہ دکان میں کیا میراث جاری ہوگی؟
77701میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

 کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

       میوسپل کمیٹی (بلدیہ)کی طرف سے ایک مارکیٹ بنائی گئی ہے  99سال کی لیز پر ،جس کی دکانیں کچھ رقم لے کراورتھوڑے سے کرائے پر مختلف لوگوں کو الاٹ کردی گئیں ہیں، اس کے بعد ان دکانوں کی خریدوفروخت کا سلسلہ بھی جاری ہوا اورجاری رہتاہے،بلدیہ والے دوسرے خریدارسے نیاایگریمنٹ کرکے تھوڑا سا کرایہ اوربڑھا دیتے ہیں جس شخص کے نام دکان الاٹ ہے اس کے فوت ہونے کے بعد بلدیہ وہ دکان اس کی اہلیہ کے نام منتقل کردیتی ہے کیونکہ مرحوم کے بیٹے اپنی والدہ کے نام پر کاغذات منتقل کئے بغیراس دکان کو  آگے فروخت نہیں کرسکتے،اب پوچھنایہ ہے کہ

آیا اس کان میں وراثت جاری ہوگی یانہیں؟ جبکہ عرف میں ایسے دکاندارکو مالک سمجھاجاتاہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

    مسئولہ صورت میں مروجہ 99 سالہ لیزنگ کا  قانون،جسے اگرچہ لیز  یعنی  ”کرایہ داری“ سے موسوم کیا جاتا ہے، لیکن  چونکہ قانون اورعرف کی رو سے مروجہ لیز پر زمین لینے والے شخص کو  اس زمین/دکا ن کی خریدوفروخت  وغیرہ سے متعلق مکمل اختیارات حاصل ہوتے ہیں، اور تمام مالکانہ  حقوق حاصل ہوتے ہیں، البتہ لیز کی مدت مکمل ہونے کے بعد دوبارہ لیز کروانی پڑتی ہے، اس لیے مروجہ لیز کے معاملات پر شرعاَ بیع و شراء کے احکامات جاری ہوں گے، یعنی  99 سالہ لیز پر زمین/دکان لینے والا شخص  شرعاً اس زمین/دکان  کا مالک ہوگا، اور اس شخص کے انتقال کے بعد ایسی زمین/دکان  مرحوم کے شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگی کیونکہ معاملات میں الفاظ کا نہیں حقیقت کا اعتبارہوتاہے اورحقیقت میں میں خریدارباضابطہ مالک ہوجاتاہے، لہذا اس کے فوت ہونےپر میراث جاری ہوگی۔

باقی حکومت کا دوسرے خریدارسے نیاایگریمنٹ کرتے وقت کچھ لینا من جملہ دیگرٹیکسوں کے ایک قسم کا ٹٰیکس شمارہوگا اوراس سے مذکوربیع فاسدنہیں ہوگی ۔(کذا فی تبویب دارالافتاءجامعة الرشید)

حوالہ جات
العبرة في العقود بالمقاصد والمعاني لا بالألفاظ والمباني .
تشير هذه القاعدة إلى أنَّ عقود البيع والشراء وإن كانت تتم بالألفاظ والمباني، فإنَّ المعتبر في هذه العقود
هو المقصد والنية للمتعاقدين، لا مجرد ألفاظهما "فالعبرة بما أُضمر لا بما أُظهر" وانظر القواعد الفقهية لمحمد بكر إسماعيل (ص/ 39)؛ د. عزام (ص/ 370)، والأشباه والنظائر؛ لابن الملقن (1/ 325).

   سیدحکیم شاہ عفی عنہ

   دارالافتاء جامعۃ الرشید

      8/2/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب