021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کے عدد میں اختلاف ہونے کی صورت میں شرعی حکم
77717طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

 مؤدبانہ گزارش ہے کہ سائلہ (فوزیہ نزیر دختر محمد نزیر خان) ساکنہ  آزاد کشمیر گزشتہ سولہ سال سے تنویراحمد ولدمحمد شہزادخان کے نکاح میں تھی، تنویر احمد روزگار کے سلسلے میں ملک سے باہر مقیم ہے۔ ایک دن معمولی تلخ کلامی پر تنویر احمد نے فون پر کہا ـ’’اگر آئندہ میری اجازت کے بغیر گھر سے نکلی تو میری طرف سے تمہیں تین طلاقیں ہیں‘‘۔ میں نے یہ لفظ سننے کے بعد موبائل بند کیا اور ایک کام سے پڑوس میں چلی گئی ۔ اس کے بعد سے آج تک میرا تنویر احمد سے رابطہ یا بات نہیں ہوئی  اور ناہی میں نے اجازت لی، میں نے اس دن کے بعد  بغیر اجازت کے رشتہ داروں، میکے ، پڑوس ،شادیوں،  فوتگیوں اور بلا تمیز ہر جگہ آنا جانا کیا،اس سارے واقعہ کو چار ماہ سے زیادہ کا وقت گزر گیا۔ میں  قرآن پر ہاتھ رکھ کر حلفاََ اقرار کرتی ہوں کہ میں نے تین طلاقوں کا لفظ اور یہ جملہ پورے ہوش وحواس میں اسی طرح تنویر احمد کے منہ سے سنا جیسے لکھا ہے۔  میں نے اس کے بعد قرآن  ہاتھ میں اٹھا کر میکے اور سسرال والوں کے سامنے بھی اس بات کا اقرار انہی الفاظ میں کیا، میں کسی مفتی  یا جج کے سامنے بھی قرآن پر ہاتھ رکھ کرحلفاََ  یہ جملہ کہنے کو تیار ہوں جو میں نے سنا۔ اس کے باوجود مجھے میکے اور سسرال والوں کی جانب سے اتفاق کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ لیکن میں نے خود کانوں سے تین طلاقیں سنی ہیں، اس لئے میں فتوی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتی۔میں حلفاََ اس بات کا اظہار کرتی ہوں کہ جو میں نے لکھا ہے حرف بہ حرف سچ ہے میں قرآن پر حلف  دیتے ہوئے اس کا اقرار کرتی ہوں ۔ دوسرے صفحہ پر تنویر احمد کی درخواست بھی موجود ہے، برائے کرم دونوں فریقین کی بات سن کر فتویٰ صادر فرمائیں تاکہ میں کسی بھی ناجائزرشتہ سے بچ سکوں ۔گناہگار نہ ہوں۔

مرد کابیان درج ذیل ہے:

میں تنویر احمد ولد محمد شہزاد ساکن آزاد کشمیر اس وقت سعودی عرب میں ہوں گھر میں بیوی سے فون پر تلخی ہوئی۔ تلخی بارہا نیٹ آن نہ کرنے، میری کال کا جواب نہ دینے اورخوامخواہ دور درازرشتہ داروں کےہاں جانے پر ہوئی، میرے وقت پر کال اٹینڈ کرنے کا ٹائم نہیں،لیکن دور دراز رشتہ دارو ں میں جانے کا وقت ہے۔ جس پر بیوی نے تلخی سے کہا کہ تم کون ہوتے ہومجھے روکنے والے تو میں نے کہا کہ آئندہ میری اجازت کے بغیر گھر سے باہر گئی  تو تمھیں طلاق ہے(اس وقت میری نیت قطعا گھر سے قدم باہر رکھنے ، ماں باپ کے گھر جاننے پر پابندی یا کام کاج کے حوالے سے باہر جانے پر نہ تھی)۔  اسی شام کو میں نے اپنی حد ختم کر دی تھی اوراس حد سے رجوع کر لیا تھا۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مطلوب ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسؤلہ میں اگرعورت کے پاس دومعتبرمرد یاایک مرداوردومعتبرعورتوں کی گواہی موجود ہے توایسی صورت میں عورت کی بات معتبرسمجھی جائے گی اور مردکی بات کاکوئی اعتبار نہیں ہوگا اورتین طلاقیں واقع سمجھی جائیں گی۔اوراگرعورت کے پاس تین طلاقیں دئیے جانے پرگواہان موجود نہ ہوں تو مرد سے قسم لی جائے گی،اگرمردپنچایت یاعدالت میں قسم کھاتاہے کہ اس نے ایک طلاق دی ہے توقضاء ایک طلاق واقع سمجھی جائے گی اوراس صورت میں اگرمردجھوٹاہوتواس کاگناہ اوروبال اسی پرہوگااوردیانتایعنیفیمابینہ وبین اللہ عورت اس کیلئے حلال نہیں ہوگی،دیانتاکامطلب یہ ہے کہ عورت نے تین مرتبہ طلاق کے الفاظ خودسنے ہیں یا کسی معتبر اوردیندار شخص  کے خبردینے سے شوہر کی طرف سے تین طلاق دینے کا یقین ہوجائے تووہ عورت  شرعا اپنی ذات کے حق میں اس پرعمل کرنے کی پابند ہوتی ہے اورعورت کیلئے اس  مرد کے ساتھ رہنااورازدواجی تعلق کیلئے قدرت دیناجائز نہیں ہوتا،اس صورت میں اگرمرد چھوڑنے پرآمادہ نہ ہوتوعورت کے ذمہ لازم ہے کہ وہ مال دے کر خلع حاصل کرے یاقاضی یاشرعی پنچایت کے ذریعہ خلاصی کی کوشش کرے،عدالت کے ذریعہ بھی خلع لے سکتی ہے،اگران تمام طریقوں سے مدد لینے کے باوجود خلاصی ممکن نہ ہوسکے اور مرد ساتھ رہنے پرمجبورکرے توایسی صورت میں ساتھ رہنے کاگناہ  مرد  اوراس کی حمایت کرنے والوں پرہوگا۔

حوالہ جات
فی البحر الرائق شرح كنز الدقائق (ج 9 / ص 181):
 والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه هكذا اقتصر الشارحون وذكر في البزازية وذكر الأوزجندي أنها ترفع الأمر إلى القاضي فإن لم يكن لها بينة يحلفه فإن حلف فالإثم عليه .
ولا فرق في البائن بين الواحدة ، والثلاث  .
وهل لها أن تقتله إذا أراد جماعها بعد علمها بالبينونة فيه قولان ، والفتوى أنه ليس لها أن تقتله وعلى القول بقتله تقتله بالدواء فإن قتلته بالسلاح وجب القصاص عليها وليس لها أن تقتل نفسها وعليها أن تفدي نفسها بمال أو تهرب
الفتاوى الهندية (ج 42 / ص 414):
وإذا شهد شاهدان عند المرأة بالطلاق ، فإن كان الزوج غائبا وسعها أن تعتد وتتزوج بزوج آخر ، وإن كان حاضرا ليس لها ذلك ، ولكن ليس لها أن تمكن من زوجها ، وكذلك إن سمعت أنه طلقها ثلاثا وجحد الزوج ذلك وحلف فردها عليه القاضي لم يسعها المقام معه ، وينبغي لها أن تفتدي بمالها أو تهرب منه ، وإن لم تقدر على ذلك قتلته ، وإذا هربت منه لم يسعها أن تعتد وتتزوج بزوج آخر ، قال شمس الأئمة السرخسي - رحمه الله تعالى - : ما ذكر أنها إذا هربت ليس لها أن تعتد وتتزوج بزوج آخر جواب القضاء ، أما فيما بينها وبين الله تعالى - فلها أن تتزوج بزوج آخر بعد ما اعتدت ، كذا في المحيط

محمد اویس بن عبدالکریم

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

09/صفر1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب