021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فری لانسنگ میں طلبہ کے لیے اسائنمنٹ بنانا
77751جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

 فری لانسنگ میں کچھ پروجیکٹس ایسے آتے ہیں جس میں یونیورسٹی کے بچے اپنے امتحانات، ہوم ورک اور اسائنمنٹ وغیرہ پیسے دے کر آن لائن حل کرواتے ہیں، کیا اِس طرح کے پروجیکٹس فری لانسنگ میں کرنا جائز ہوگا، اور کیا اُس کی کمائی حلال ہوگی یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تعلیمی اداروں میں طلبہ کو اُن کی تعلیم کے سلسلے میں جو کچھ کام دیا جاتا ہے، اُس میں ادارے کی جانب سے طلبہ پر یہ پابندی ہوتی ہے کہ یہ کام انہوں نے خود انجام دینا ہے۔ کسی اور سے کام کروانا نقل کے زمرے میں آتا ہے۔ لہذا کسی طالب علم کے لیے اِس طرح کا کام کر کے اُس پر اجرت لینا اُس کے ساتھ گناہ میں تعاون کہلائے گا۔

اور ویسے بھی یہ جو تعلیمی سرگرمیاں ہوتی ہیں، اُن سے اصل مقصود یہ ہوتا ہے کہ طالب علم جو ڈگری حاصل کررہا ہے، اُس کام کی اُس میں اہلیت اور صلاحیت پیدا ہوجائے۔ تو اگر کوئی طالب علم خود کام نہ کرے، بلکہ کسی اور کو پیسے دے کر اپنا کام کروائے، تو اُس میں اُس کام کی صلاحیت اور اہلیت پیدا نہیں ہوگی، اور اِس طرح نااہل لوگوں کو اہلیت کا سرٹیفکیٹ مل جائے گا، اور پھر اِس کے جو منفی نتائج برآمد ہوں گے، اُس کا وبال اور قوم کے ساتھ خیانت کا گناہ اُس کے سر بھی ہوگا کہ جس نے چند پیسوں کے عوض اُس طالب علم کے لیے اسائنمنٹ لکھا تھا۔ لہذا اِس طرح کے کاموں سے پیسے کمانا جائز نہیں۔

حوالہ جات
فی قولہ تعالی، سورۃ المائدۃ:2
"وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ."

طارق مسعود

دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

13، صفرالمظفر،1444

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طارق مسعود

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب