021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اسکول ٹیچر کے خلافِ قانون تبادلے اور اجرت کا حکم
77811اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلملازمت کے احکام

سوال

میں ایک سرکاری ہائی سکول میں معلم القرآن ٹیچر کی حیثیت سے بھرتی ہوا، میرا کام  سکول میں اسلامیات پڑھانا تھا، میں نے وہاں کچھ عرصہ ڈیوٹی کی۔ لیکن میں چونکہ عالم دین بھی ہوں؛ اس لئے میری خواہش تھی کہ میں مدرسے میں بھی پڑھاتا رہوں؛ تاکہ میں اپنی ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی تدریس بھی جاری رکھ سکوں۔ اس کے لیے میں نے ایک ترتیب بنائی۔ یہاں ہمارے علاقے میں  ایک مدرسہ ہے، جہاں باقاعدہ پرائمری تک سرکاری سکول  موجود ہے، یہ سکول بعض امور میں مدرسے کے زیرِ انتظام ہے، یعنی چھٹیاں،کتابوں کی ترتیب اورامتحانات وغیرہ سب  مدرسے کے نظام کے تحت انجام پاتے ہیں، البتہ اساتذہ کی تنخواہیں حکومت دیتی ہے، نیز اساتذہ  حاضری، رخصت وغیر ہ کے اعتبار سے حکومتی ہدایات کے بھی  پاپند ہیں۔ بہرحال میں نے مدرسے کے مہتمم سے بات کی، اس نے  ضلعی تعلیمی آفیسر(district education officer) سے یہ درخواست کی کہ میرا سرکاری طورپر مدرسے کے سکول میں تبادلہ  (Transfer)ہوجائے۔ اس نے   میرا ایک  عام  سرکاری ہائی سکول سے   مدرسے کے پرائمری سکول کی طرف   تبادلے کا باقاعدہ تحریری آرڈر جاری کیا، اس نے  میرے آرڈر میں یہ بھی لکھا ہے کہ آپ  نےوہاں  جے وی ٹیچر(جو اسلامیات کے علاوہ دوسرے مضامین  پڑھاتے  ہیں) کی حیثیت سے ڈیوٹی انجام دینا ہے،کیونکہ  وہاں معلم القرآن کی پوسٹ نہیں ہے، اس لیے انہوں نے  مجھے اس طرح کا آرڈر دیا،اس کو اصطلاح میں اٹیچ  یا اگینسٹ  یعنی عارضی آرڈکہا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ میرا جب سکول میں تعیناتی آرڈر ہو رہا تھا، اس وقت  سرکار نے ہم سے ایک اسٹامپ پیپر پر یہ تحریر ی وعدہ لیا تھا کہ  میں  تین سالوں تک   ٹرانسفر  کے لیے اپلائی نہیں کروں گا ،لیکن میں نے  تقریباً  صرف ڈیڑھ سال بعد ہی  ڈی ای او سے مہتمم کے واسطے سے تبادلے کی درخواست کی،اور تبادلہ کروایا، آرڈر لیتے ہوئے میں نے ضلعی آفیسر کو یہ وعدہ یاد  دلایا تھا لیکن انہوں نے کہا  کہ  کوئی بات نہیں۔

اب سوالات پوچھنے سے پہلے کچھ مزید معلومات لکھتا ہوں جو میں نے مختلف ذرائع سے حاصل کی ہیں جن میں اسکول کا کلرک اور ڈی ای او کے آفس میں سالوں سے کام کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔

جس ضلع میں جو امیدوار امتحان پاس کر کے منتخب ہوجائیں، اسکولوں میں ان کی تشکیل اور ان کے لیے اسکولوں کی تعیین ڈی ای او کا اختیار اور اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جب وہ کسی استاذ کو کسی اسکول میں لگادیتا ہے تو محکمۂ خزانہ میں اس استاذ کا ریکارڈ جمع ہوجاتا ہے اور تنخواہ جاری ہوجاتی ہے۔

 ڈی ای او کو عام حالات میں  تبادلے سمیت یہ اختیار بھی حاصل ہوتا ہے کہ  وہ  ایک ٹیچر کواس کی اپنی قانونی ذمہ داری کے علاوہ  دوسرے ٹیچر کی ذمہ داری سونپ دے، لیکن یہ اختیار اس کو ا  سکول کی کسی  مجبو ری یا  مفادکی صورت  میں حاصل ہوتا ہے، ٹیچر کے مفاد  کی صورت میں  نہیں۔ مثال کے طورپر یہاں  دیہات میں بعض اسکولوں میں ٹیچروں کی تعداد صرف ایک یا دو ہوتی ہے، اب بعض اوقات کوئی  ٹیچر ریٹائر ہوجا تا ہے، اس  کی جگہ  پر دوسرا ٹیچر سرکاری پروسس کے بعد ہی تعینات ہوتا ہےجس میں  پانچ یا  چھ سال کا عرصہ لگنے کا بھی امکان ہوتا ہے۔  اس جیسی صورت حال میں  ڈی ای او تبادلے کی مذکورہ کارروائی کر کے اس کمی کو پورا کرلیتے ہیں؛ ورنہ اسکول بند ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات کسی اسکول میں طلبا کی تعداد کافی زیادہ ہوتی ہے، لیکن اساتذہ کی تعداد کم ہوتی ہے، اس وقت بھی ڈی ای او اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیےتبادلے کا مجاز ہوتا ہے۔ ڈی ای او ہائی اسکول کے ٹیچر کو پرائمری میں بھی عارضی آرڈر کے تحت بھیج سکتا ہے۔  

یہ تو عام حالات کی بات ہے۔ لیکن بعض اوقات سیکریٹری   تعلیم  (جوکہ پورے صوبے کا مجاز آفیسر ہوتا ہے، اور ڈی ای اوز اس کے ماتحت ہوتے ہیں) کی طرف سے ایک مخصوص مدت تک  یہ  حکم نامہ جاری ہوتاہے کہ  ڈی ای اوز  تبادلے نہ کریں۔ ایسی صورت میں پھر ڈی ای اوز کو قانونا تبادلے کا اختیار نہیں ہوتا۔ لیکن اس کے باوجود وہ بعض دفعہ ٹیچرز کا تبادلہ کرلیتے ہیں۔ اس میں بھی پھر دو طرح کی صورتیں پیش آتی ہیں، کبھی یہ ہوتا ہے کہ کوئی ٹیچر خود تبادلہ چاہتا ہے اور وہ سفارش وغیرہ کے ذریعے اپنا تبادلہ کرادیتا ہے، اور کبھی ٹیچر کی خواہش نہیں ہوتی، لیکن ڈی ای او اس کا تبادلہ کر کے اس کو دوسری جگہ بھیج دیتا ہے۔ اب جیسے میرا تبادلہ میری خواہش پر ہوا، لیکن میرے ایک اور ساتھی کا تبادلہ ڈی ای او نے خود کیا، وہ ساتھی اپنے اصل اسکول میں خوش تھا، لیکن ڈی ای او کے آرڈر کے بعد اس کو دوسرے اسکول میں جانا پڑا، اس کا آرڈر بھی اسی دوران ہوا ہے جس دوران سیکٹری تعلیم کی طرف سے ٹرانسفر پر پابندی تھی۔    

واضح رہے کہ ڈی ای او جب اٹیچ یا اگینسٹ یعنی عارضی آرڈر کے تحت کسی ٹیچر کا تبادلہ کرتا ہے تو

محکمۂ خزانہ سے اس کو تنخواہ اسی پرانے اسکول اور پرانی پوزیشن کے نام پر ملتی ہے۔ محکمۂ خزانہ کا اصول یہ ہے کہ جب تک ان کے پاس ٹیچر کی اصل پوزیشن اور اسکول وہی ہو جو تقرر کے بعد ان کے پاس بھیجا گیا تھا تو وہ اسی کے اعتبار سے تنخواہ دے گا، اگرچہ آگے ڈی ای او اس کا اٹیچ یا گینسٹ آرڈر کے تحت تبادلہ کرے، کیونکہ وہ ڈی ای او کا دائرۂ کار ہے۔ اور ٹیچر قانونی طور پر ڈی ای او کے ماتحت اور اس کا حکم ماننے کا پابند ہوتا ہے؛ لہٰذا جب ڈی ای او تبادلہ کرے تو ٹیچر یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس اسکول میں نہیں جاتا جس کی طرف آپ نے میرا تبادلہ کیا ہے، اگرچہ یہ تبادلہ اس دوران ہو جس دوران ڈی ای او پر سیکٹری تعلیم کی طرف سے پابندی ہو۔  

اس تفصیل کے بعد عرض یہ ہے کہ میرے تبادلے میں جب میں مدرسے کی صورتِ حال کو دیکھتا ہوں تو اس میں مدرسے کے اسکول کی مجبوری یا مفاد  نہیں  ہے؛کیونکہ وہاں طلبہ کی تعداد کے مطابق دوسرکاری اساتذہ پہلے سے مصروفِ عمل ہیں، بلکہ  میرا آرڈر مہتمم کے تعلقات کی وجہ سے ہوا ہے، جوکہ میرےہی مفاد میں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ڈی ای او نے جس وقت میرا تبادلہ کیا، اس وقت سیکٹری تعلیم کی طرف سے ڈی ای اوز پر پابندی تھی، لیکن اس نے باقاعدہ آفیشل ٹرانسفر آرڈر جاری کیا ہے جس پر تاریخ وغیرہ سب کچھ موجود ہے۔ آرڈر لیتے ہوئے میں نے ڈی ای او کو وہ وعدہ بھی یاد دلایا کہ ہم سے سٹام پپپر پر لکھوایا گیا تھا کہ تین سال تک ٹرانسفر کی درخواست نہیں دیں گے، اس نے کہا کوئی بات نہیں۔ ڈی ای او کے آفس میں موجود ایک شخص سے بھی میں نے کہا کہ جب سیکٹری تعلیم کی طرف سے پابندی ہے تو یہ آرڈر کیسے ہوگیا؟ اس نے کہا بس آپ پریشان نہ ہوں، یہ ڈی ای او کا اپنا کام ہے، وہ جانتا ہے اس چیز کو۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ :

میرے تبادلے کا مذکورہ آرڈر جائز ہے یا نہیں؟  سال کے درمیان مدرسہ کو چھوڑ کر واپس  اسکول کی طرف تبادلہ کرانا    میرے لیے ایک مشکل فیصلہ ہے،کیونکہ  مدرسے کا نظام   متاثر ہو جائےگا۔ میرے لیے  شرعاً کیا حکم ہے؟ میں اپنی قانونی ذمہ داری (اسلامیات پڑھانے ) کی جگہ  جو دوسری  ذمہ داری (دوسرے مضامین اردو وغیرہ  پڑھانا) انجام دیتا ہوں، یہ اور اس کی تنخواہ کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل درست ہے تو آپ کے سوالات کے جوابات یہ ہیں کہ:

تبادلے کا مذکورہ آرڈر خلافِ قانون (جس میں وعدہ کی خلاف ورزی بھی شامل ہے) ہونے کی وجہ سے شرعا جائز نہیں۔ تبادلے کی درخواست دینے والا، تبادلہ کرنے والا اور اس میں معاونت کرنے والے تمام لوگوں کو قانون اور وعدہ کی خلاف ورزی کا گناہ ہوگا۔ ان سب پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ واستغفار کریں، اور آئندہ ایسا کام نہ کرنے کا پکا عزم کرلیں، توبہ کا ایک جزء یہ بھی ہے کہ اس خلافِ قانون تبادلے کو جلد از جلد ختم کیا جائے۔ لہٰذااب آپ کے لیے حکم یہی ہے کہ آپ جلد از جلد اس اسکول میں واپس جائیں جہاں قانون کے مطابق ابتداء میں آپ کا تقرر ہوا تھا۔آپ کے جانے سے مدرسے کے اسکول کے لیے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوگی۔ جہاں تک مدرسہ کی بات ہے تو اگرچہ تھوڑا بہت انتظامی مسئلہ ہوگا، مگر مدرسہ والے اسے مناسب طریقے سے حل کرلیں گے۔ مہتمم صاحب کو مسئلہ سے آگاہ کر کے مطمئن کیا جاسکتا ہے۔    

جہاں تک اس ٹرانسفر کے بعد ملنے والی تنخواہوں کا تعلق ہے تو اگر واقعتاً ڈی ای او کے اس خلافِ قانون آرڈر کے بعد آپ قانوناً اس پر عمل کرنے کے پابند تھے، اور آپ نے اس دوسرے اسکول میں ڈیوٹی کا مکمل وقت اسکول کو دیا ہو،  اور جو مضامین آپ کو پڑھانے کے لیے دئیے گئے تھے وہ بھی آپ نے صحیح طریقے سے پڑھائے ہوں تو اس مدت کی تنخواہ آپ کے لیے  حرام نہیں ہوگی۔ لیکن اگر ایسا نہیں تھا تو پھر وہ تنخواہ آپ کے لیے جائز نہیں۔

حوالہ جات
المجلة (ص: 82):
 مادة 425: الأجير الخاص يستحق الأجرة إذا كان في مدة الإجارة حاضرا للعمل، ولا يشترط عمله بالفعل، ولكن ليس له أن يمتنع من العمل، وإذا امتنع فلا يستحق الأجرة.
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (1/ 386-387):
(شرح  المادة 425 ) : ومعنى كونه حاضرا للعمل أن يسلم نفسه للعمل، ويكون قادرا، وفي حال تمكنه من إيفاء ذلك العمل . …….. وإنما لا يشترط عمل الأجير الخاص بالفعل كما ورد في هذه المادة؛ لأنه لما كانت منافع الأجير مدة الإجارة مستحقة للمستأجر، وتلك المنافع قد تهيئت، والأجرة مقابل المنافع، فالمستأجر إذا قصر في استعمال الأجير، ولم يكن للأجير مانع حسي عن العمل كمرض ومطر فللأجير أخذ الأجرة ولو لم يعمل ( الزيلعي ) .
تبيين الحقائق (5/ 137):
الأجير الخاص يستحق الأجرة بتسليم نفسه للعمل عمل أو لم يعمل. سمي أجيرا خاصا وأجيرَ وحدٍ؛ لأنه يختص به الواحد، وهو المستأجر، وليس له أن يعمل لغيره؛ لأن منافعه في المدة صارت مستحقة له، والأجر مقابل بها فيستحقه ما لم يمنعه من العمل مانع حسي كالمرض والمطر ونحو ذلك مما يمنع التمكن من العمل.
المبسوط للسرخسي: (16 / 52)
ويكره له أن يستأجر امرأة حرة أو أمة يستخدمها ويخلو بها لقوله - صلى الله عليه وسلم - «لا يخلون رجل بامرأة ليس منها بسبيل؛ فإن ثالثهما الشيطان» ، ولأنه لا يأمن من الفتنة على نفسه أو عليها إذا خلا بها، ولكن هذا النهي لمعنى في غير العقد، فلا يمنع صحة الإجارة ووجوب الأجر إذا عمل، كالنهي عن البيع وقت النداء.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  16/صفر المظفر /1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب