021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نکاح میں زمین کو بطور مہر مقرر کرنا
77798نکاح کا بیانجہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے  میں کہ :

ہمارے علاقے  میں عام رواج یہ ہے کہ لوگ اپنی شادی بیاہ میں لڑکی کیلئے بطور مہر  پیسے دیتے ہیں، پیسوں کے علاوہ کسی اور شیء کے دینے کو صحیح نہیں سمجھتے ہیں، میں نے آج سے دس سال  پہلے اپنی بیٹی کا نکاح کسی سے ایک زمین کے بدلے کرایا،اس کے بعد اس زمین  میں  میرے ایک حقیقی بھائی اور ایک چچازاد بھائی  دونوں نے مجھے ایک لاکھ روپیہ دے کر  میرے ساتھ اس زمین میں شریک ہوگئے، اب  پوچھنا یہ ہے کہ کیا  پیسوں کے بجائے زمین کو بطور مہر  دینا شرعا جائز ہے یا نہیں؟ نیز جو دیگر لوگ میرے ساتھ اس زمین میں شریک ہوئے ہیں،ان کی اس شراکت کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نکاح میں ہر اس شیء کو بطور مہر دیا جاسکتا ہےجوشرعا مال ہو ، اس لئے آپ کا اپنی بیٹی کے نکاح میں  زمین کوبطور مہر  مقرر کرنا شرعا درست ہے ،  یہ زمین شرعا  آپ کی بیٹی کی ملک ہے جو دیگر لوگ پیسے دیکر آپ  کی  بیٹی کے ساتھ اس زمین کی ملکیت میں شریک ہوئے ہیں، اگر  یہ معاملہ  آپ نے  بیٹی کی  اجازت  کے ساتھ کیا ہے تو ان کی شرکت بھی شرعا درست ہے۔

واضح رہے کہ نکاح میں لڑکی  کو  جو مہر دیا جاتا  ہے  وہ شرعا   لڑکی ہی  کی   ملکیت شمار ہوتی  ہے  ،  اس کے علاوہ کسی  اور  کو لڑکی   کی رضامندی کے بغیر    مہر   کو اپنی ملک  بنانے  یا اس میں لڑکی کی اجازت  کے بغیر  تصرف کرنے کی شرعا  بالکل اجازت  نہیں ہے،  ہاں  اگر  وہ  اپنا مہر  والد صاحب  یا کسی  اور رشتہ دار کو  اپنی  رضامندی  سے ہبہ( گفٹ)  کردیتی  ہے تو اس صورت  میں لینے والے کیلئے اس میں  تصرف  کرنا   جائز  ہوتا  ہے  ورنہ نہیں ۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 277)
 ولنا قوله تعالى {وأحل لكم ما وراء ذلكم أن تبتغوا بأموالكم} [النساء: 24] شرط أن يكون المهر مالا، فما لا يكون مالا لا يكون مهرا فلا تصح تسميته مهرا، وقوله تعالى {فنصف ما فرضتم} [البقرة: 237] أمر بتنصيف المفروض في الطلاق قبل الدخول فيقتضي كون المفروض محتملا للتنصيف - وهو المال -
الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (2/ 16)
ولا يجوز أن يكون المهر إلا مالا؛ لأن المشروع إنما هو الابتغاء بالمال قال الله تعالى {وأحل لكم ما وراء ذلكم أن تبتغوا بأموالكم} [النساء: 24]
الفتاوى الهندية (1/ 326)
(الفصل الرابع عشر في ضمان المهر) زوج ابنته الصغيرة أو الكبيرة وهي بكر أو مجنونة رجلا وضمن عنه مهرها صح ضمانه ثم هي بالخيار إن شاءت طالبت زوجها أو وليها إن كانت أهلا لذلك ويرجع الولي بعد الأداء على الزوج إن ضمن بأمره هكذا في التبيين.

محمد نصیر

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

١٦،صفر المظفر ،١٤٤٤ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نصیر ولد عبد الرؤوف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب