77887 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
سوال: میں ایک گرافک ڈیزائنر ہوں اور این ایف ٹی بنانے اور بیچنے کا کام کرنا چاہتی ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا این ایف ٹی بنانا اور خرید و فروخت جائز ہے؟
این ایف ٹی کا مطلب "نان فنجیبل ٹوکن" ہے۔ ڈیجیٹل ورلڈ میں جب بھی کوئی بندہ کوئی چیز بیچتا ہے تو وہ اس چیز پر ایک بلاک چین کوڈ لگا دیتا ہے جس کی وجہ سے اس کے ملکیتی حقوق اس شخص کے نام ہو جاتے ہیں۔ پھر جب وہ اسے بیچتا ہے تو بلاک چین میں خریدار کا ایڈریس ڈال دیتا ہے جس سے اس چیز کے ملکیتی حقوق خریدار کے نام منتقل ہو جاتے ہیں۔ این ایف ٹی کوئی بھی چیز ہو سکتی ہے مثلاً تصویر، پینٹنگ، ٹوئٹ، ویڈیو، کسی گیم کے کپڑے، ہتھیار وغیرہ۔ اس خریدی گئی چیز کو کہیں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بعض لوگ اس میں رائیلٹی بھی شامل کر لیتے ہیں یعنی یہ چیز جب بھی کہیں بکے گی تو اصل بنانے والے کو کچھ رقم بطور رائیلٹی ملے گی۔ جب اسے بیچا جاتا ہے تو اس کے عوض ڈیجیٹل (کرپٹو) کرنسی ملتی ہے تو ڈیجیٹل والٹ میں ٹرانسفر ہو جاتی ہے۔ پھر اس کرپٹو کرنسی کو پیپر کرنسی میں کنورٹ کر لیا جاتا ہے اور اپنے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر لیا جاتا ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اس سوال کے جواب سے قبل این ایف ٹی اور اس کے لین دین کی تفصیل بطور تمہید ذکر کی جاتی ہے:
این ایف ٹی:
این ایف ٹی (نان فنجیبل ٹوکن) سے مراد ایک ایسا کوڈ ہوتا ہے جو منفرد ہو، یعنی اس جیسا کوئی کوڈ کسی اور چیز کا نہ ہو۔ یہ کوڈ کسی بھی ڈیجیٹل چیز (مثلاً تصویر، ویڈیو، اینیمیشن وغیرہ) کا ہوتا ہے اور بلاک چین پر بنایا جاتا ہے۔ مثلاً زید کے پاس ایک تصویر ہے (خواہ اس نے خود بنائی ہو یا کسی سے بعوض یا بلا عوض لی ہو) جس کا وہ کوڈ بنا لیتا ہے تو اس جیسی تصویر کا یہ ایک ہی منفرد کوڈ ہوگا۔ بلاک چین میں ہر فرد کی شناخت اس کے "ایڈریس" سے ہوتی ہے۔ زید کی تصویر کا یہ کوڈ اس کے ایڈریس پر موجود ہوگا اور زید بلاک چین استعمال کرنے والوں کے یہاں اس تصویر کا حقیقی مالک تصور ہوگا۔ اگر عمرو اس تصویر کو کاپی کر لے یا اس کا اسکرین شاٹ لے لے تو تصویر تو اس کے پاس آ جائے گی لیکن کوڈ اس کے ایڈریس پر نہ ہونے کی وجہ سے وہ حقیقی مالک متصور نہیں ہوگا۔ البتہ ملکیت کا یہ ریکارڈ زید کے بعد سے دستیاب ہوگا یعنی اگر زید نے وہ تصویر کسی سے لی تھی تو چونکہ اس کا کوڈ اس وقت نہیں بنا تھا لہذا بلاک چین پر اس گزشتہ مالک کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوگا۔
یہ این ایف ٹی کمپیوٹر میں موجود کسی بھی چیز کا بن سکتا ہے۔ چنانچہ اسے تحاریر، سافٹ وئیرز، کتب، زمین وغیرہ کی حقیقی ملکیت ریکارڈ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کی اس انفرادیت کی وجہ سے یہ سوشل میڈیا ایپس میں مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ چونکہ یہ ایک نئی چیز ہے لہذا اس کے عنوان سے کچھ لوگ جعل سازی بھی کرتے ہیں، مثلاً چند افراد تیزی سے ایک ہی این ایف ٹی کو آپس میں خریدتے اور بیچتے ہیں اور جب کوئی عام شخص اس دھوکے میں پڑ جاتا ہے کہ یہ کوئی بہت قیمتی چیز ہے تو اسے مہنگا بیچ دیتے ہیں۔
این ایف ٹی کا لین دین:
این ایف ٹی کا کوڈ چونکہ بلاک چین پر ہوتا ہے لہذا اس کا لین دین بھی اسی پر ہوتا ہے۔ کچھ ویب سائٹ نما پلیٹ فارم ہوتے ہیں جہاں کوئی شخص اپنے این ایف ٹی کا اشتہار لگاتا ہے اور دوسرا شخص اس سے خریدتا ہے لیکن حقیقی منتقلی بلاک چین کے ذریعے ہوتی ہے۔ بلاک چین پر چونکہ فیاٹ (عام ملکی) کرنسیاں نہیں آ سکتیں اس لیے یہ لین دین عموماً کرپٹو کرنسی میں ہوتا ہے (الا یہ کہ کوئی پلیٹ فارم اپنی جانب سے ملکی کرنسی میں لین دین کی سہولت دیتا ہو یا بنانے والا کسی جاننے والے سے لین دین کرے اور اس سے رقم ملکی کرنسی میں لے)۔ مثلاً زید نے اپنی تصویر بکر کو بیچی تو اس کا کوڈ بکر کے ایڈریس پر بھیجے گا اور بکر اس کے عوض کرپٹو کرنسی (ایتھیریم، بی این بی، سولانا یا یو ایس ڈی سی وغیرہ) بذریعہ بلاک چین زید کو ادا کرے گا۔ بعد ازاں زید یہ کرپٹو کرنسی کسی بھی کمپنی یا فرد کو دے کر اس سے فیاٹ (عام ملکی) کرنسی اپنے بینک اکاؤنٹ میں وصول کر سکتا ہے۔
اس تفصیل کے بعد سوال میں مذکور صورت میں تین قابل غور چیزیں سامنے آتی ہیں:
1. کسی چیز کا این ایف ٹی بنانا جائز ہے یا نہیں؟
2. این ایف ٹی کا بیچنا کیسا ہے؟
3. این ایف ٹی کے عوض کرپٹو کرنسی لینا اور اسے ملکی کرنسی میں تبدیل کروانا کیسا ہے؟
ان سوالات کے جوابات بالترتیب مندرجہ ذیل ہیں:
1. مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں چونکہ این ایف ٹی کسی ڈیجیٹل چیز کا کوڈ ہوتا ہے جو اس کی ملکیت ظاہر کرتا ہے لہذا اسے بنانا ان شرائط کے ساتھ درست ہے:
أ. بنانے والا اس چیز کا حقیقی مالک ہو، کسی اور کی چیز کا این ایف ٹی بنا کر اپنی ملکیت ظاہر نہ کرے۔
ب. جس چیز کا این ایف ٹی بنایا جائے وہ کوئی مباح فائدہ رکھنے والی جائز چیز ہو، ذاتی فائدے سے خالی یا ایسی غیر مباح فائدے والی چیز نہ ہو جس سے صرف ناجائز انتفاع ہو سکتا ہو، مثلاً فحش منظر نگاری، نا محرم کی تصاویر اور گانوں وغیرہ کا این ایف ٹی بنانا بھی درست نہیں ہے۔
2. این ایف ٹی کو اگر ملکی کرنسی کے عوض بیچا جائے تو اس کے حوالے سے پہلے یہ واضح ہو کہ اس کی بیع در اصل متعلقہ ایسٹ کی بیع ہے، این ایف ٹی کی وجہ سے اگر اس ایسٹ کی قیمت میں اضافہ کیا جائے تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں، لیکن یہ واضح رہے کہ متعلقہ ایسٹ کے بغیر صرف این ایف ٹی کی بیع شرعاً مال نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔ نیز متعلقہ ایسٹ کے ساتھ بھی اس کی بیع مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ درست ہے:
أ. بیچنے والا اس کا حقیقی مالک ہو۔
ب. این ایف ٹی جائز چیز کا ہو۔
ج. بیچنے والے نے این ایف ٹی کی پشت پر موجود ڈیجیٹل ایسٹ پر باقاعدہ قبضہ (ڈاؤن لوڈ وغیرہ کی صورت میں) کیا ہو، صرف کوڈ پر قبضہ کرنا معتبر نہیں ہوگا۔
د. این ایف ٹی کی پشت پر موجود چیز ایسی ہو جس کا کوئی جائز استعمال ممکن ہو۔ کوئی ایسی تصویر یا چیز نہ ہو جو صرف مال داری دکھانے کے لیے خریدی جائے اور اس کا کوئی استعمال نہ ہو۔
ه. چونکہ خرید و فروخت میں اصل یہ ہے کہ تمام حقوق مبیع (بیچی جانے والی شے) کے ساتھ منتقل ہوں اور این ایف ٹی میں رائیلٹی رکھنے کا ابھی تک عرف نہیں ہے لہذا این ایف ٹی بیچنے والا تمام حقوق کے ساتھ بیچے اور کسی قسم کی رائیلٹی اپنے لیے نہ رکھے۔
و. لین دین کسی قسم کی جعل سازی یا دھوکہ دہی کے لیے نہ ہو۔
3. کرپٹو کرنسی کی قانونی و شرعی حیثیت زیر بحث ہونے اور اس کے لین دین میں متنوع مفاسد پائے جانے کی وجہ سے دیگر معتبر اداروں کی طرح ہمارے دار الافتاء سے بھی اس میں سرمایہ کاری یا اس کے ذریعے لین دین کے جواز کا فتوی نہیں دیا جاتا، بلکہ گریز کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ مذکورہ این ایف ٹی کو بھی اگر دیگر مسلمہ کرنسیوں میں سے کسی کے عوض فروخت کرنا ممکن ہو تو اسی میں معاملہ کرنا چاہیے، تاہم اگر یہ ممکن نہ ہو اور بلاک چین پر ہی لین دین ناگزیر ہو تو ایسی مجبوری میں اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے کہ ابتدائی طور پر ان ٹوکنوں کی بیع کا معاملہ کرپٹو کرنسی میں کر لیا جائے لیکن وصول کرنے کے بعد قیمت بڑھنے کے انتظار میں نہ رکھا جائے بلکہ فوراً کمپنی کو دے کر ملکی کرنسی میں کنورٹ کر لی جائے۔ اس میں بھی بہتر یہ ہے کہ ان کرپٹو کرنسیوں میں کام کیا جائے جن کی پشت پر حقیقی ڈالر یا اس کی قیمت کی سیکیورٹیز ہوتی ہیں (جیسے یو ایس ڈی سی، بی یو ایس ڈی اور یو ایس ڈی ٹی وغیرہ) تاکہ وہ حقیقتاً ڈالر کی رسید ہوں.
حوالہ جات
"وشرعا: (مبادلة شيء مرغوب فيه بمثله) خرج غير المرغوب كتراب وميتة ودم على وجه) مفيد. (مخصوص) أي بإيجاب أو تعاط، فخرج التبرع من الجانبين والهبة بشرط العوض، وخرج بمفيد ما لا يفيد۔۔۔."
(الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین، 4/504، ط: دار الفکر)
"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة من طعام، فأدخل يده فيها، فنالت أصابعه بللا، فقال: يا صاحب الطعام، ما هذا؟، قال: أصابته السماء يا رسول الله، قال: أفلا جعلته فوق الطعام حتى يراه الناس، ثم قال: من غش فليس منا."
(سنن الترمذي، 2/597، دار الغرب الاسلامی)
محمد اویس پراچہ
دار الافتاء، جامعۃ الرشید
18/ صفر المظفر 1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس پراچہ | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |