021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اسلام میں شادی کےلیے قومیت کا تصور
77837نکاح کا بیانولی اور کفاء ت ) برابری (کا بیان

سوال

اسلام میں شادی کےلیے قومیت کا کیا تصور ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نکاح انسان کے تقوی وپاکیزگی کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ یہ رشتہ جتنا خوشگوار اور دیرپا ہوگا اتنا  ہی انسان کی عبادات اور دینی خدمات میں آسانی ہوں گی۔ لہذا شریعت نے نکاح کےلیے رشتہ دیکھتے ہوئے دینداری کے معیار کو مقدم رکھنے کی ترغیب کے ساتھ اس بات کا بھی حکم دیا ہے کہ لڑکے کا خاندان لڑکی کے ہم پلہ ہونا چاہئے ۔یہ بات تجربے سے ثابت ہے کہ  ہم پلہ خاندانوں میں شادی زیادہ کامیاب رہتی ہے، اگر رشتہ ہم پلہ نہ ہو تو اسے بسا اوقات خاندانی حمایت حاصل نہیں ہوتی جس کی وجہ سے جدائی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ تاہم اگر ایک اعلی خاندان  کا فرد اپنی بیٹی کا عقد اس کی رضامندی سے کسی کم تر خاندان کے لڑکے کے ساتھ کردیتا ہے تو یہ جائز ہے بلکہ اگر کوئی بڑا دینی مقصد ہو تو ایسا کرنا مستحسن بھی ہوگا ۔نکاح انسان کے تقوی وپاکیزگی کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ یہ رشتہ جتنا خوشگوار اور دیرپا ہوگا اتنا  ہی انسان کی عبادات اور دینی خدمات میں آسانی ہوں گی۔ لہذا شریعت نے نکاح کےلیے رشتہ دیکھتے ہوئے دینداری کے معیار کو مقدم رکھنے کی ترغیب کے ساتھ اس بات کا بھی حکم دیا ہے کہ لڑکے کا خاندان لڑکی کے ہم پلہ ہونا چاہئے ۔یہ بات تجربے سے ثابت ہے کہ  ہم پلہ خاندانوں میں شادی زیادہ کامیاب رہتی ہے، اگر رشتہ ہم پلہ نہ ہو تو اسے بسا اوقات خاندانی حمایت حاصل نہیں ہوتی جس کی وجہ سے جدائی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ تاہم اگر ایک اعلی خاندان  کا فرد اپنی بیٹی کا عقد اس کی رضامندی سے کسی کم تر خاندان کے لڑکے کے ساتھ کردیتا ہے تو یہ جائز ہے بلکہ اگر کوئی بڑا دینی مقصد ہو تو ایسا کرنا مستحسن بھی ہوگا ۔نکاح انسان کے تقوی وپاکیزگی کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ یہ رشتہ جتنا خوشگوار اور دیرپا ہوگا اتنا  ہی انسان کی عبادات اور دینی خدمات میں آسانی ہوں گی۔ لہذا شریعت نے نکاح کےلیے رشتہ دیکھتے ہوئے دینداری کے معیار کو مقدم رکھنے کی ترغیب کے ساتھ اس بات کا بھی حکم دیا ہے کہ لڑکے کا خاندان لڑکی کے ہم پلہ ہونا چاہئے ۔یہ بات تجربے سے ثابت ہے کہ  ہم پلہ خاندانوں میں شادی زیادہ کامیاب رہتی ہے، اگر رشتہ ہم پلہ نہ ہو تو اسے بسا اوقات خاندانی حمایت حاصل نہیں ہوتی جس کی وجہ سے جدائی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ تاہم اگر ایک اعلی خاندان  کا فرد اپنی بیٹی کا عقد اس کی رضامندی سے کسی کم تر خاندان کے لڑکے کے ساتھ کردیتا ہے تو یہ جائز ہے بلکہ اگر کوئی بڑا دینی مقصد ہو تو ایسا کرنا مستحسن بھی ہوگا ۔

حوالہ جات
 قال فی التنویر:الکفاءۃ معتبرۃ من جانبہ لا من جانبھا وھی حق الولی لا حقھا وتعتبر نسبًا فقریش أکفاء ،والعرب أکفاء وحریۃ  وإسلامًا وأبوان فیھما کالآباء ودیانۃ ومالًا وحرفۃ.
(تنویر الأبصار مع ردالمحتار : 4/206  ، 215)
 وفی الفتاوی الھندیۃ:  الکفاءۃ تعتبر فی  أشیاء : منھا النسب  : فقریش بعضھم أکفاء لبعض …. والعرب بعضھم أکفاء لبعض.... والموالی وھم غیر العرب لایکونون أکفاء للعرب والموالی بعضھم أکفاء لبعض ، کذا فی العتابیۃ.  (الفتاوی الھندیۃ  : 1/319)
                                                قال الإمام أبو المعالٰی محمود بن صدرالشریعۃ رحمہ اللہ : الكفاءة معتبرة في باب النكاح، والأصل فيه قوله عليه السلام فيما رواه  عنہ جابر رضی اللہ عنه: لا تنكح النساء إلا من الأكفاء ، وقال عليه الصلاۃوالسلام: ألا لا يُزوجُ النساءَ إلا الأولياءُ ولا يزوجن إلا من الأكفاء، والحكمة في اشتراطها تحقيق ما
 
 
هو المقصود من النكاح ، وهو السكنى والازدواج، إذ المرأة تتعير باستفراش من لا يكافئها.
(المحیط البرھانی : 4/27)
قال العلامۃ الشامی رحمہ اللہ : وفي الفتح: أن الموجب هو استنقاص أهل العرف فيدور معه ، وعلى هذا ينبغي أن يكون الحائك كفؤا للعطار بالإسكندرية لما هناك من حسن اعتبارها وعدم عدها نقصا ألبتة ؛ اللهم إلا أن يقترن بها خساسة غيرها..…. لأن المدار هنا علی النقص والرفعة في الدنيا ، ولهذا لما قال محمد: لا تعتبر الكفاءة في الديانة ؛ لأنها من أحكام الآخرة فلا تبنى عليها أحكام الدنيا ، قالوا في الجواب عنه : إن المعتبر في كل موضع ما اقتضاه الدليل من البناء على أحكام الآخرة وعدمه،  بل اعتبار الديانة مبني على أمر دنيوي وهو تعيير بنت الصالحين بفسق الزوج).  رد المحتار : 4/215، 216)
قال الإمام الزیلعی رحمہ اللہ :   اعلم أن الكفاءة معتبرة في النكاح ؛ لما روى جابر أنه عليه الصلاة والسلام  قال:ألا لا يزوج النساء إلا الأولياء ولا يزوجن إلا من الأكفاء ؛ ولأن النكاح يعقد للعمر ويشتمل على أغراض ومقاصد كالازدواج والصحبة والألفة وتأسيس القرابات ، ولا ينتظم ذلك عادة إلا بين الأكفاء ؛  ولأنهم يتعيرون بعدم الكفاءة فيتضرر الأولياء به. (تبیین الحقائق : 2/516)  
قال الإمام الکاسانی رحمہ اللہ :وأما الثالث فی بیان ما تعتبرفیہ الکفاءۃ ، فما تعتبر فیہ الکفاءۃ أشیاء:منھا النسب ،والأصل فیہ قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم :قریش بعضھم أکفاء لبعض ،والعرب بعضھم أکفاء لبعض؛ حی بحی وقبیلۃ بقبیلۃ،والموالی بعضھم أکفاء لبعض ]رجل برجل[؛ لأن التفاخروالتعییریقعان بالأنساب، فتلحق النقیصۃ بدنائۃ النسب………. ولأن من لاقدرۃ لہ علی المھر والنفقۃ یستحقر ویستھان  فی العادۃ ، کمن لہ نسب دنیء ،   فتختل  بہ  المصالح کما تختل عند   دناءۃ
النسب .  (  بدائع الصنائع: 3/576، 581)

     خیر اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید ، کراچی

17/صفر المطفر/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

خیر اللہ بن فضل کرم

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب