021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نامرد شوہر سے خلاصی کاطریقہ
77828طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

ایک لڑکی کانکاح ہوا،تین سال بعد رخصتی ہوئی،رخصتی ہونے کے 15 دن بعد تک شوہرکے ساتھ رہی،اس دوران پتہ چلا کہ لڑکاحق زوجیت اداکرنے کے قابل نہیں، اورلڑکابھی اس بات کوتسلیم کرتاہے،یہ بات لڑکے والوں نے شادی سے پہلے نہیں بتائی تھی،جب لڑکی کومعلوم ہواکہ لڑکا حق زوجیت اداکرنے کے قابل نہیں ہے تولڑکی نے کہا تم نے میری زندگی خراب کردی ،اب لڑکی اس کے ساتھ رہنے پرآمادہ نہیں اورمہرمیں دس تولہ سونا اورایک کمرہ اور کمرے کے آگے صحن لکھاگیاہے۔

پوچھنایہ ہے کہ لڑکی علیحدگی چاہتی ہے تواس کاکیاطریقہ ہے اورمہر لڑکی کوملے گایانہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرشوہرحقوق زوجیت اداکرنے کے قابل نہ ہو اورلڑکی جدائی چاہتی ہو تومرد  پردیانتالازم ہے کہ وہ اپنی بیوی پررحم کرے اورحقوق زوجیت ادا کئےبغیر اسے لٹکائے نہ رکھے،بلکہ اس کی عفت اورپاکدامنی کاخیال رکھتے ہوئے اسے طلاق دے کر نکاح سے آزاد کردے یاعورت کل مہر یابعض مہرکے بدلےخلع لے لے اوراس کے نکاح سے آزاد ہوجائے، طلاق کی صورت میں طے شدہ پورامہر لڑکی کاحق ہے،خلع مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے،جس میں دونوں کی رضامندی ضروری ہے اور عام طورپرکسی عوض کے بدلے میں شوہر طلاق دیتاہے،اس لئے اگرمرد کل یانصف مہرکے بدلےطلاق دیتاہے تو اس صورت میں مرد کے ذمہ اتنے مہرکی ادائیگی لازم نہیں ہوگی۔

اگروہ اسےطلاق نہیں دیتااورنہ ہی خلع کرنےپرآمادہ ہوتاہے،اوراس کی بیوی کوزنامیں واقع ہونےکاقوی اندیشہ ہو اورعورت فسخ نکاح کامطالبہ بھی کرتی ہے تواس کی درج ذیل دوصورتیں ہوسکتی ہیں:

۱۔شوہرایک مرتبہ بھی ہمبستری پرقادر نہیں ہوسکا

۲۔ایک دومرتبہ ہمبستری کرنے کے بعدنامرد ہوجائے۔

 پہلی صورت  کاحکم:

 عورت عدالت میں اپنامعاملہ پیش کرے،عدالت واقعہ کی تحقیق کرے،اگرشوہرکانامرد ہوناثابت ہوجائے اوروہ علاج کیلئے مہلت مانگے تواسے علاج کیلئے ایک سال کی  مہلت دے،اس دوران اگرشوہر ایک دفعہ بھی ہمبستری پرقادرنہ ہوتوعورت سال گزرنے کے بعد دوبارہ عدالت سے رجوع کرے،عدالت شوہرکوبلاکر طلاق دینے پرمجبورکرے،اگرشوہرطلاق نہیں دیتا توعدالت دونوں کےدرمیان خودتفریق کردے اوریہ تفریق طلاق بائن کے قائم مقام ہوگی،عورت پورے مہرکی حق دارہوگی،عدت گزرنے کے بعد عورت کسی دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے،مذکورہ بالااختیار عورت کودرج ذیل شرائط کے ساتھ حاصل ہے:

۱۔نکاح کے وقت مرد کے نامردہونے کاعلم نہ ہو۔

۲۔مرد نے ایک دفعہ بھی ہمبستری نہ کی ہو۔

۳۔عورت نے شوہرکے نامرد ہونے کاعلم ہونے کے بعد اس کے ساتھ رہنے پرصراحتارضامندی کااظہارنہ کیاہو۔

اگران شرطوں میں سے کوئی شرط بھی فوت ہوگئی تومذکورہ بالااختیار عورت کوحاصل نہیں ہوگا،ایسی صورت میں خلاصی کی صورت صرف طلاق یاخلع ہے۔

دوسری صورت کاحکم:

حنفیہ کےہاں  اصولی طورپرشادی کےبعد ایک دفعہ بھی حق زوجیت اداء کردیاجائےتوعورت کےجماع کاحق قضاءساقط ہوجاتاہے،اس کےبعدعورت کوخاص اس وجہ سےفسخ نکاح کااختیارنہیں دیاجاتا،لہذامذکورہ صورت میں حنفیہ کےنزدیک عورت کوتفریق کاحق حاصل نہیں ہوگا۔

اسی طرح حضرات مالکیہ کےمشہورمذہب کے مطابق ایسےشخص کی بیوی کوتفریق کاحق حاصل نہیں ہے،اوران کی عام کتابوں میں لکھاہےکہ یہ ایک مصیبتِ نازلہ(اچانک پیش آنےوالی مصیبت)ہے،جسےعورت برداشت کرےگی،البتہ  مالکیہ میں سےعلامہ علی الصعیدی العدوی رحمۃ اللہ علیہ نےاپنی مشہورکتاب’’حاشیۃ العدوی‘‘ میں اورعلامہ احمدبن غنیم النفراوی رحمۃ اللہ  نے’’الفواکہ الدوانی‘‘میں اس بات کی تصریح کی ہےکہ اصل حکم تویہی ہے،اورجب تک عورت کواپنےنفس پر اطمنان ہواورزنامیں واقع ہونےکا اندیشہ نہ ہو،اُس وقت تک اسی پرعمل کیا جائےگا، لیکن اگرواقعۃ ًکسی عورت کو اس حالت میں زنامیں واقع ہونےکاقوی اندیشہ ہو توایسی صورت میں اُس کے لئےفُرقت حاصل کرنےکی گنجائش ہوگی، کیونکہ جوضررقرائنِ احوال سےثابت ہو،اُس کی بنیادپرعورت کوتفریق کاحق حاصل ہوتا ہے۔

     نیزامام ابوثوررحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں کہ اگرکوئی مرداپنی بیوی کےساتھ ایک دفعہ ہمبستری کرنےکےبعدعاجز ہوجائےتوبھی اس کی بیوی کوتفریق کاحق حاصل ہوگا،اس قول کوبعض حضرات نےقیاس کےمطابق قراردیا ہے، اوریہی امام داؤدظاہری رحمۃ اللہ علیہ کامذہب ہے۔

     اورامام مالك رحمۃ اللہ علیہ نےابنِ شہاب کےواسطہ سےابنِ المسیب رحمہ اللہ سےروایت کی ہےکہ اگرکسی شخص نےاپنی بیوی سےہمبستری کرلی اوراس کےبعدوہ ’’معترَض‘‘بن جائےتواس صورت میں بھی اُسےایک سال کی مہلت دی جائےگی،اگراس نےاس مدت کےاندراپنی بیوی سےہمبستری کرلی توٹھیک ہےورنہ ان دونوں کےدرمیان تفریق کردی جائےگی۔

مالکیہ کےہاں ’’معترَض ‘‘کی بیوی کےمتعلق تفریق کی صورت یہ ہےکہ عورت قاضی کی عدالت میں دعوی دائرکرےکہ اس کاخاونداسکےساتھ ہمبستری کرنےسےعاجزہے،توقاضی اسکے معاملات کی تحقیق کرے، اگر تحقیق سےاس شخص کاہمبستری سےعاجزہونا ثابت ہو جائےتو اسے علاج کے لیےایک سال کی مہلت دےدے، اگر  سال کے دوران ایک دفعہ بھی ہمبستری پر قادر نہ ہوا تو سال کے بعد عورت دوبارہ اپنا قضیہ قاضی کےسامنے پیش کر کےتفریق کا مطالبہ کرے،یہ تواس صورت میں ہےجب سال کےختم ہونےکےبعددونوں میاں بیوی کااتفاق ہوکہ شوہرسال کےدوران ہمبستری نہیں کرسکاہے۔لیکن اگر شوہر سال کےدوران ہمبستری کرنےکادعوی کرےاور بیوی اس کی تصدیق نہ کرےتواس صورت میں شوہر کوقسم دی جائےگی،اگر شوہر سال کےدوران ہمبستری کرنےپرقسم اٹھائےتوبیوی کاخیارختم ہوجائےگا، اوراگرشوہرقسم کھانےسے انکارکرے توپھربیوی کوقسم دی جائے گی،اگربیوی قسم اُٹھائےتوبھی اس کوتفریق کاحق حاصل ہوگالیکن اگروہ قسم سےانکارکردےتوپھروہ اسی شخص کی بیوی رہےگی اور اس کوتفریق کاحق حاصل نہیں ہوگا۔

جواب کاحاصل یہ ہے کہ اگرشوہرطلاق اورخلع پرآمادہ نہ ہواوراس کی بیوی کوزنامیں واقع ہونےکاقوی اندیشہ ہوتواس صورت علامہ عدوی اورعلامہ نفراوی رحمہمااللہ تعالی کی ذکرکردہ تفصیل کےمطابق مالکیہ کےمذہب میں اس عورت کوتفریق کاحق حاصل ہے،امام ابوثور اورابن المسیب رحمہمااللہ کےمذہب سےبھی اس کی تأیید ہوتی ہے،آجکل چونکہ فتنہ کازمانہ ہےاورعام طورپرزیادہ عرصہ صبرکرناعورت کےلئےبہت مشکل ہوتاہے،لہذااگر عورت کوواقعۃ ًزناکاخطرہ ہوتوایسی صورت میں مالکیہ کےمذہب میں ذکرکردہ طریقہ اورشرائط کےساتھ ان دونوں کے درمیان تفریق کی جائےتواس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے ۔

واضح رہےکہ مذکورہ صورت حال میں مذکورہ بالاشرائط کےمطابق جماعت المسلمین کےطریقےکےذریعےبھی  نکاح ختم کرایاجاسکتاہے،جماعت المسلمین سےمرادیہ ہےکہ کم سےکم تین نیک اورمتشرع افرادہوں،جن میں سےکم سےکم ایک عالم دین ہوجوفسخ نکاح کےمسائل سےواقف ہواورمذکورہ مسئلہ میں مالکیہ کےمذہب کی تفصیلات بھی جانتاہو،یہ جماعت ان کےمعاملات کی تحقیق کرےگی،اگرتحقیق سے شوہرکاہمبستری سےعاجزہوناثابت ہوجائےتومذکورہ بالاطریقہ کارکےمطابق شوہرکے"معترض"ہونےاوربیوی کےزناء میں واقع ہونےکےخدشہ کی بنیادپرایک سال کی مہلت کےبعددونوں کےدرمیان نکاح کوفسخ کیاجائےتواس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔

نوٹ:چونکہ یہ مسئلہ فقہ مالکی سےلیاگیاہےاوراس کی تفصیلات اصحابِ مذہب ہی بہترجانتےہیں،اس لئےبہتریہ ہےکہ یہ مسئلہ انہیں بھیج کران کےمذہب کےمطابق شرعی حکم معلوم کرلیاجائےاوراس جواب کی تصدیق کرواکر پھراس کےمطابق فیصلہ کرلیا جائے ۔     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماخوذازفتوی دارالعلوم کراچی "معترض  کی بیوی کاحکم

حوالہ جات
فی الفتاوى الهندية (ج 11 / ص 157):
فإن اختارت زوجها أو قامت عن مجلسها أو أقامها أعوان القاضي أو قام القاضي قبل أن تختار شيئا بطل خيارها كذا في المحيط .
وهكذا روي عن محمد رحمه الله تعالى وعليه الفتوى كذا في التتارخانية ناقلا عن الواقعات إن اختارت الفرقة أمر القاضي أن يطلقها طلقة بائنة فإن أبى فرق بينهما هكذا ذكر محمد رحمه الله تعالى في الأصل كذا في التبيين والفرقة تطليقة بائنة كذا في الكافي ولها المهر كاملا وعليها العدة بالإجماع إن كان الزوج قد خلا بها ، وإن لم يخل بها فلا عدة عليها ولها نصف المهر إن كان مسمى والمتعة إن لم يكن مسمى كذا في البدائع ."
وفی الفتاوى الهندية (ج 11 / ص 162):
ولو وصل إليها مرة ، ثم عجز لا خيار لها۔ كذا في التبيين: إن علمت المرأة وقت النكاح أنه عنين لا يصل إلى النساء ،لا يكون لها حق الخصومة ، وإن لم تعلم وقت النكاح وعلمت بعد ذلك كان لها حق الخصومة، ولا يبطل حقها بترك الخصومة ، وإن طال الزمان ما لم ترض بذلك كذا في فتاوى قاضي خان .
وفی رد المحتار( 12 / 308):
( فلو جب بعد وصوله إليها ) مرة ( أو صار عنينا بعده ) أي الوصول ( لا ) يفرق لحصول حقها بالوطء مرة .الشرح( قوله : لحصول حقها بالوطء مرة ) وما زاد عليها فهو مستحق ديانة لا قضاء بحر عن جامع قاضي خان ، ويأثم إذا ترك الديانة متعنتا مع القدرة على الوطء ۔۔
وفی رد المحتار( 10 / 339):
ويسقط حقها بمرة ويجب ديانة أحيانا ولا يبلغ الإيلاء إلا برضاها ، ويؤمر المتعبد بصحبتها أحيانا ، وقدره الطحاوي بيوم وليلة من كل أربع لحرة وسبع لأمة ۔
ولو تضررت من كثرة جماعه لم تجز الزيادة على قدر طاقتها ، والرأي في تعيين المقدار للقاضي بما يظن طاقتها نهر بحثا۔
وفی الشرح الكبير للشيخ الدردير( 2 / 279):
(لا باعتراض) حدث بعد الوطئ فيها ولو مرة وهي مصيبة نزلت بها إلا أن يتسبب فيها فلها الرد به كالحادث قبل الوطئ وبعد العقد، وأدخلت الكاف الخصاء والجب والكبر المانع من الوطئ ( قوله : المعترض ) بفتح الراء اسم مفعول أي الشخص الذي اعترضه المانع فمنعه من الوطء ، إذ الأصل عدمه وإنما يكون لعارض يعرض كسحر أو خوف أو مرض ۔
( قوله : بأن لم يسبق له فيها وطء ) سواء كان اعتراضه قديما أو حادثا أي وأما التي سبق له وطء لها ، ولو مرة فلا خيار لها فيه وحينئذ فلا يؤجل كما مر في قوله لا باعتراض۔
وفی البهجة في شرح التحفة (1 / 505):
(إلاّ اعْتِراضاً كان بعْدَ ما دَخَلْ )والوَطْءِ مِنْهُ هَبْهُ مَرَّةً حَصَلْ ( إلا ) حرف استثناء ( اعتراضاً ) منصوب على الاستثناء والأقرب أنه على نزع الخافض ، إذ المعنى ويرد الزوج بكل عيب إلا بعيب الاعتراض ( كان ) تامة بمعنى وجد وحدث وفاعله ضمير الاعتراض ( بعد ) يتعلق بكان ( ما ) مصدرية ( دخل ) صلتها أي بعد دخوله ( والوطء ) بالجر عطف على المصدر المؤول ( منه ) يتعلق بحصل ( هبه ) فعل أمر وضميره مفعوله الأول ( مرة ) تمييز ( حصل ) في محل نصب على أنه مفعول ثان لهب ، والتقدير إلا اعتراضاً حدث بعد دخوله وبعد وطئه هب أن الوطء حصل منه مرة واحدة فلا ردّ به وهي مصيبة نزلت بها ، وهذا إذا لم يتسبب في إدخاله على نفسه كشربه دواء ليقطع به لذة النساء أو شربه لعلاج علة وهو عالم أو شاك أنه يذهب منه ذلك أو قطع ذكره عمداً أو لعلة نزلت به فإن لها الخيار باتفاق كما في ضيح ، ومثل الاعتراض الجب والخصاء والكبر المانع من الوطء حيث لم يدخل ذلك على نفسه لأنه لم يقصد الإضرار بها ، فلو قال : إلا كجب الخ . لشمل ذلك ونزلت مسألة وهي أن رجلاً كان يطأ زوجته وطأ معتاداً ثم إنه عرض له ما منعه الإيلاج بحيث إذا أراده سبقه الماء وزال إنعاظه فأفتيت فيها بما في النظم واختلف فيمن أراد استحداداً فترامت يده فقيل لها القيام ، وقيل : لا قيام لها لأنه لم يتعمد . وظاهر كلامهم رجحانه وانظر ما يأتي في الإيلاء عند قوله : واشترك التارك الموطء معه الخ .
وفی حاشية العدوي على شرح كفاية الطالب الرباني( 5 / 267):
[ قوله : ويؤجل المعترض سنة ] أي إذا لم يسبق منه وطء لها كان الاعتراض سابقا على العقد أو متأخرا عنه ، فإن سبق منه وطء لها ثم اعترض فتلك مصيبة نزلت بها وكذا خصاء أو جب أو كبر أدرة أو هرم حدث بعد الوطء حيث لم يتسبب في ذلك ، وإلا فلها الخيار ، وأما لو تزوجته فوجدته كبير الأدرة فإن منعت الوطء فلها الخيار ، وإلا فلا ، ومحل كونها لا رد لها بالحادث من جب ونحوه بعد الوطء حيث لم تخش على نفسها الزنا ، وإلا فلها التطليق ؛ لأن للمرأة التطليق بالضرر الثابت ، ولو بقرائن الأحوال ، وقوله سنة أي سنة بعد الصحة من يوم الحكم فلا يؤجل ، وهو بالمرض ، ولا عبرة بالمرض الطارئ بعد ضرب الأجل استغرق جميع السنة أو بعضها ، وهذا إذا ترافعا للحاكم ، وأما إذا لم يترافعا وتراضيا على ذلك فمن يوم التراضي كما قاله بهرام .
[ قوله : وعليه اقتصر صاحب المختصر ] ، وهو المعول عليه أي يؤجل نصف سنة بعد الصحة من يوم الحكم كان ذا شائبة أو لا ، إلا أن العلة التي ذكروها للتأجيل ، وهي إمرار الفصول الأربعة إذ ربما أثر الدواء في فصل موجودة في العبد
وفی الفواكه الدواني ( 5 / 220):
ثم شرع في الكلام على بعض ما يختص بالرجل بقوله : ( ويؤجل المعترض سنة ) بعد الصحة من يوم الحكم وإن مرض والعبد نصفها ۔والمعنى : أن الزوج إذا وجدته المرأة معترضا وهو المسمى عند العامة مربوطا أي له آلة لكن لا تنتشر عند الوطء إما بسحر أو مرض ، فإنه يضرب له أجل يتحيل فيه على إزالة اعتراضه وقدره سنة إن كان الزوج حرا ، ونصفها إن كان عبدا ، وابتداء تلك المدة من يوم قيام الزوجة إن كان الزوج صحيحا ، فإن قامت وهو مريض فابتداؤها بعد الصحة والحكم ، ولا ينظر إلى طريان المرض بعد ذلك .( فإن وطئ ) الزوج في تلك المدة وصدقته المرأة على ذلك أو لم تصدقه ولكن حلف على الوطء في السنة سقط خيارها بمنزلة ما إذا حصل له الاعتراض بعد وطئها ( وإلا ) بأن انقضت السنة للحر والنصف للعبد ولم يطأ مع تصديقها له ، أو لم يحلف على الوطء مع إنكارها ( فرق بينها ) بطلقة بائنة .( إن شاءت ) الزوجة الفراق لأنه من حقه۔۔۔۔
 ( تنبيهات ) الأول : كلام المصنف في المعترض الذي لم يتقدم منه وطء قبل اعتراضه كما قدمناه ، ولا فرق حينئذ بين كون اعتراضه سابقا على العقد أو متأخرا عنه ، وأما لو وطئها سليما ثم حصل له الاعتراض بعد وطئه فلا خيار للمرأة ؛ لأنها مصيبة نزلت بها ، كحصول أدرة له مانعة له من الوطء وهو المعروف عند العامة بالقيليط ، أو حصل له هرم بعد الوطء فلا خيار للمرأة ، اللهم إلا أن تخشى على نفسها الزنا فلها التطليق ، لأن للمرأة التطليق بالضرر الثابت ولو بقرائن الأحوال .
وفی المدونة الكبرى لمالك الأصبحي ( 2 / 185):
مالك عن ابن شهاب عن ابن المسيب أنه قال إذا دخل الرجل بامرأته فاعترض عنها فإنه يضرب له أجل سنة فإن استطاع أن يمسها وإلا فرق بينهما۔
ابن وهب قال موسى بن علي :قال ابن شهاب :إن القضاة يقضون في الذي لا يستطيع امرأته بتربص سنة يبتغي فيها لنفسه فإن ألم في ذلك بأهله فهي امرأته، وإن مضت سنة ولم يمسها فرق بينه وبينها وتقضي القضاة بذلك من حين تناكره امرأته أو يناكره أهلها، قال ابن شهاب: وإن كانت تحته امرأته فولدت له ثم اعترض عنها فلم يستطع لها فلم أسمع بأحد فرق بين رجل وبين امرأته بعد أن يمسها فهذا الأمر عندنا۔
وفی الاستذكار لأبو عمر النمري ( 6 / 196):
 واتفق الجمهور من العلماء على ان العنين إذا وطىء امرأته مرة واحدة لم يكن له أن ترفعه إلى السلطان ولا تطالبه بعد ذلك بما نزل به من غيب العنة
 وممن قال هذا عطاء وطاوس والحسن وعمرو بن دينار والزهري وقتادة ويحيى بن سعيد وربيعة ومالك والثوري والشافعي والأوزاعي وأبو حنيفة وأبو يوسف ومحمد وزفر وأحمد وإسحاق وأبو عبيد
 وقال أبو ثور: إذا وطئها مرة واحدة ثم عجز عن الوطء ولم يقدر على شيء منه أجل سنة لوجود العلة
 قال أبو عمر: أما طريق الاتباع فما قاله الجمهور وأما طريق النظر والقياس فما قاله أبو ثور وبه قال داود والله أعلم
 وذكر بن جريج عن عمرو بن دينار قال: ما زلنا نسمع أنه إذا أصابها مرة واحدة فلا كلام لها ولا خصومة۔
وفی منح الجليل شرح مختصر خليل ( 6 / ص 495):
( وَأُجِّلَ ) بِضَمِّ الْهَمْزِ وَكَسْرِ الْجِيمِ مُثَقَّلًا الزَّوْجُ ( الْمُعْتَرَضُ ) بِضَمِّ الْمِيمِ وَفَتْحِ الرَّاءِ أَيْ الْحُرُّ الَّذِي ثَبَتَ لِزَوْجَتِهِ الْخِيَارُ فِيهِ بِأَنْ لَمْ يَطَأْهَا ، سَوَاءٌ سَبَقَ اعْتِرَاضُهُ الْعَقْدَ أَوْ تَأَخَّرَ عَنْهُ ، وَاخْتَارَتْ فِرَاقَهُ فَيُؤَجَّلُ ( سَنَةً ) هِلَالِيَّةً لِلتَّدَاوِي فِيهَا وَابْتِدَاؤُهَا ( بَعْدَ ) حُصُولِ ( الصِّحَّةِ ) لِلْمُعْتَرَضِ مِنْ مَرَضٍ غَيْرِ الِاعْتِرَاضِ إنْ كَانَ وَ ( مِنْ يَوْمِ الْحُكْمِ ) بِتَأْجِيلِهِ ، فَإِنْ تَرَاضَيَا عَلَى التَّأْجِيلِ فَمِنْ يَوْمِهِ ۔
وفی الشرح الكبير للشيخ الدردير(2 / 281):
(وأجل المعترض) الحر الثابت لزوجته عليه خيار بأن لم يسبق له فيها وطئ (سنة) قمرية لعلاجه (بعد الصحة) من مرض غير الاعتراض أي إذا كان به مرض غيره فإنه يؤجل بعد الصحة منه سنة (من يوم الحكم) لا من يوم الرفع لانه قد يتقدم عن يوم الحكم، فإن لم يترافعا وتراضيا على التأجيل فمن يوم التراضي.
(وإن مرض) بعد الحكم جميع السنة أو بعضها كأن يقدر في مرضه هذا علاج أو لا ولا يزاد عليها بل يطلق عليها (و) أجل (البعد نصفها) أي نصف السنة (والظاهر) عند المصنف (لا نفقة لها فيها) أي لامرأة المعترض في مدة التأجيل.
"حاشية العدوي"5 / :267
[ قوله : ويؤجل المعترض سنة ] أي إذا لم يسبق منه وطء لها كان الاعتراض سابقا على العقد أو متأخرا عنه ، فإن سبق منه وطء لها ثم اعترض فتلك مصيبة نزلت بها وكذا خصاء أو جب أو كبر أدرة أو هرم حدث بعد الوطء حيث لم يتسبب في ذلك ، وإلا فلها الخيار ، وأما لو تزوجته فوجدته كبير الأدرة فإن منعت الوطء فلها الخيار ، وإلا فلا ، ومحل كونها لا رد لها بالحادث من جب ونحوه بعد الوطء حيث لم تخش على نفسها الزنا ، وإلا فلها التطليق ؛ لأن للمرأة التطليق بالضرر الثابت ، ولو بقرائن الأحوال ، وقوله سنة أي سنة بعد الصحة من يوم الحكم فلا يؤجل ، وهو بالمرض ، ولا عبرة بالمرض الطارئ بعد ضرب الأجل استغرق جميع السنة أو بعضها ، وهذا إذا ترافعا للحاكم ، وأما إذا لم يترافعا وتراضيا على ذلك فمن يوم التراضي كما قاله بهرام .
[ قوله : وعليه اقتصر صاحب المختصر ] ، وهو المعول عليه أي يؤجل نصف سنة بعد الصحة من يوم الحكم كان ذا شائبة أو لا ، إلا أن العلة التي ذكروها للتأجيل ، وهي إمرار الفصول الأربعة إذ ربما أثر الدواء في فصل موجودة في العبد [ قوله : إذا تقاررا على عدم الوطء ] أي ، وأما لو ادعى الوطء ، وأنكرته فإن كانت الدعوى في الأجل أو بعد الأجل أنه وطئ في الأجل ، فالقول قوله : بيمينه فإن نكل حلفت ، وكان القول قولها فإن لم تحلف بقيت زوجة ، وأما لو ادعى الوطء بعدها لم يصدق قطعا وللموازية كلام آخر لم يرتضه بعض من شراح خليل .
[ قوله :بطلقة بائنة ] اعلم أن هذا الكلام لا يتبين إلا بمعرفة فقه المسألة ، وحاصله أنه إذا لم يدع المعترض الوطء بأن صدق على عدم الوطء أو سكت أو ادعى أنه وطئ بعد السنة ، فإنه يؤمر بالطلاق إن اختارته الزوجة ، فإن طلق فواضح ، وله أن يوقع ما شاء ، وإن أبى فقولان مشهوران : أولهما أن الحاكم يطلق عليه واحدة ، وإن زاد لم يلزم الزائد ، وقيل يأمر الحاكم الزوجة بإيقاع الطلاق فتوقعه ، كأن تقول طلقتك أو أنا طالق منك ثم يحكم الحاكم بذلك وفائدة حكم الحاكم مع كون الطلاق بائنا ؛ لأنه وقع قبل البناء ليرفع خلاف من لا يرى أمر القاضي لها بذلك إذا انتقش في ذهنك ، هذا يظهر لك عدم صحة تعليل الشارح ؛ لأن الطلاق بائن ، ولو وقع من الزوج لكونه قبل البناء .
تهذيب مسائل المدونة للقيرواني( 1 / 336):
 وإذا قال المعترض في الأجل: جامعتها، دُيّن وحلف، فإن نكل حلفت وفرق بينهما، فإن نكلت بقيت [له] زوجة، وتوقف فيها مالك مرة إذ نزلت [بالمدينة]، وأفتى غيره بالمدينة أن تجعل الصفرة في قبلها، وقال ناس: يجعل النساء معها۔

محمد اویس بن عبدالکریم

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

22/صفر1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب