021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
معلق طلاق کاحکم(اگر تو نے صبح تک گھر پہنچنے میں دیر کی تو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ،اللہ تعالی مجھے نبی اور مسلمان نہیں رکھے گا اگر میں نے تجھے طلاق نہیں دی تو)
77873طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

بخدمت جناب حضرات مفتیان کرام

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک مسئلہ معلوم کرناتھا امید ہے آپ حضرات تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں گے ،ان شاء اللہ ۔مسئلہ یہ ہے کہ میرے چھوٹے بھائی (عزیز اللہ)اپنی بیوی(عفت)کے ساتھ سسرال میں موجود تھا کہ ان کے درمیان رات کےوقت ان بن ہوگئی،میرے بھائی  نے غصہ کی حالت میں گھر سے باہر آکر اپنی بیوی کو فون کر کے کہا:" اگر تو نے صبح تک گھر پہنچنے میں دیر کی تو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ،اللہ تعالی مجھے نبی اور مسلمان نہیں رکھے گا اگر میں نے تجھے طلاق نہیں دی تو"

اس کے بعد اپنے سسر کو درج ذیل چار میسجز اس طرح سے کیے:۔

1۔تلاق ہو عفت کو۔

2۔ایک لکھا ہے۔دوبارہ بھی انتظار کرو،جلد آجائے گی (یعنی دوسری طلاق جلد آجائے گی)

3۔ تلاق ہو۔

4۔تیسری بھی آئے گی۔(یعنی تیسری طلاق بھی آئے گی،میسج کا انتظار کرو)

لیکن اس کے بعد تیسری طلاق نہیں دی۔

واضح رہے کہ میرے بھائی کی بیوی(عفت) امید سے بھی ہے،آٹھویں مہینے میں چل رہی ہے،اور اب تک اپنے والدین کے گھر پر ہی ہے۔ساری صورتحال بتانے کے بعد معلوم یہ کرنا ہے کہ

1۔طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟

2۔اگر طلاق واقع ہوگئی ہے تو کونسی؟

3۔اگر طلاق رجعی واقع ہوئی ہے تو رجوع کی کیا صورت ہےکیا فون پر رجوع ہوسکتا ہے ؟

4۔طلاق رجعی کی صورت میں اگر ڈلیوری تک رجوع نہیں کیا تو ڈلیوری ہونے کے بعد کونسی طلاق واقع ہوجائے گی؟

5۔اگر ابھی طلاق بائن یا مغلظہ واقع ہوگئی ہے تو اس صورت میں صلح کی کیا صورت ہوگی؟

6۔جو الفاظ کلمہ پڑھ کر کہے گئے ہیں وہ کتنے خطرناک ہیں؟اور ان سے تلافی کی کیا صورت ہوگی؟

تشفی بخش جوابات عنایت فرما کر مہربانی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1،3)۔دودفعہ میسج پر طلاق لکھ کر بھیج دی ہے،جن میں سے ایک میں بیوی کا نام صراحت کے ساتھ موجود ہے،جبکہ دوسرے میں فقط طلاق کے الفاظ ہیں ،نسبت موجود نہیں ہے،تاہم دلالۃ نسبت موجود ہے، اس لیے کہ پہلے میسج میں بیوی کا ذکر موجود ہے،اور بظاہر شوہر کی نیت بھی اپنی بیوی ہی کو طلاق دینے کی ہے،اس لیے دوطلاقیں واقع ہوچکی ہیں،اور یہ دونوں رجعی ہیں،چونکہ بیوی امید سے ہیں، اس لیے  بچے کی ولادت تک شوہر کو رجوع کا اختیار ہے، آمنے سامنے یا فون پر زبانی طور پررجوع کرے کہ میں آپ سے رجوع کرتاہوں یا عملی طریقےسے میاں بیوی والا تعلق قائم کرکے رجوع کرے۔لیکن اب مزید فقط ایک طلاق کا حق باقی ہے،اگر ایک طلاق دیدی تو پھر بیوی مغلظہ ہوجائے گی۔

(4)۔ بچے کی ولادت تک رجوع نہیں کیا تو پھرولادت کے بعد نکاح ختم ہوجائے گا،اب دوبارہ ساتھ رہنے کےلیے فقط رجوع کرنا کافی نہیں ہوگا،بلکہ دونوں کی رضامندی سے نیا نکاح ،نئے مہر کے ساتھ کرنا پڑے گا،اور پھر بھی فقط ایک طلاق کا اختیار باقی رہے گا۔

(5)۔ابھی طلاق بائن یا مغلظہ واقع نہیں ہوئی ہے۔

(6)۔ مذکورہ جملہ (" اگر تو نے صبح تک گھر پہنچنے میں دیر کی تو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ،اللہ تعالی مجھے نبی اور مسلمان نہیں رکھے گا اگر میں نے تجھے طلاق نہیں دی تو")  کے بارے میں سائل نے یہ وضاحت کی ہے کہ اس نے یوں کہنا تھا:

"اللہ تعالی اور نبی، مجھےمسلمان نہیں رکھے گا اگر میں نے تجھے طلاق نہیں دی تو"

مگر غصہ میں غلطی سے اوپر والا جملہ زبان سے نکل گیا۔

طلاق کو اس جملے کے ساتھ معلق کرنےکے بعد،صبح اگر طلاق نہیں دی ہے تو یہ شخص دائرۂ  اسلام سے خارج نہیں ہواہے، البتہ اس پرقسم کا کفارہ ادا کرنا لازم  ہوگا  ، اور احتیاطاً تجدیدِ ایمان کے ساتھ تجدیدِ نکاح (دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کا ایجاب وقبول ) بھی کرلینا چاہیے، اور آئندہ اس قسم کی قسمیں  اٹھانے  سے  بالکل

اجتناب کرے۔

قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس غریبوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلائے،یا ان کو متوسط درجے کے کپڑے دیدے،اگر یہ  استطاعت نہ ہو تو تین دن لگاتارروزے رکھے،درمیان میں ناغہ کرے گا تو دوبارہ تین روزے رکھنے پڑیں گے۔

ایک مسکین کےکھانےکی کم ازکم مقدارنصف صاع گندم یااس کی قیمت ہے۔نصف صاع گندم کی مقدارمفتی رشیداحمدلدھیانوی رحمہ اللہ کی تحقیق کےمطابق سوا دو کلو گندم یا اس کی قیمت بنتی ہےاوراس میں احتیاط بھی ہے،لہذافی مسکین سوادوکلوگندم یااس کی جوقیمت آپ کےعلاقےمیں بنتی ہووہ اداکردی جائے،اس اعتبارسےدس مسکینوں کاکھاناساڑھےبائیس کلوگندم یااس کی قیمت کےبرابرہوگا۔

 تاہم دیگرعلماءکرام کےنزدیک نصف صاع کی مقدارپونےدوکلوگندم کےبرابرہے،اگرآپ اس پرعمل کرناچاہیں تواس کی بھی گنجائش ہے۔اس اعتبارسےساڑھےسترہ کلوگندم یااس کی قیمت دس مسکینوں کاکھاناسمجھاجائےگا۔

حوالہ جات
وفی الدرالمختار(3/348):
" ولايلزم كون الإضافة صريحةً في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له: من عنيت؟ فقال: امرأتي، طلقت امرأته، العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله: إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها؛ لأنه يحتمله كلامه".
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 8):
"و لو قال: إن فعل كذا ‌فهو ‌يهودي أو نصراني أو مجوسي أو بريء عن الإسلام أو كافر أو يعبد من دون الله أو يعبد الصليب أو نحو ذلك مما يكون اعتقاده كفرا فهو يمين استحسانا والقياس أنه لا يكون يمينا وهو قول الشافعي. وجه القياس أنه علق الفعل المحلوف عليه بما هو معصية فلا يكون حالفا كما لو قال إن فعل كذا فهو شارب خمرا أو آكل ميتة.
وجه الاستحسان أن الحلف بهذه الألفاظ متعارف بين الناس فإنهم يحلفون بها من لدن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى يومنا هذا من غير نكير ولو لم يكن ذلك حلفا لما تعارفوا لأن الحلف بغير الله تعالى معصية فدل تعارفهم على أنهم جعلوا ذلك كناية عن الحلف بالله - عز وجل - وإن لم يعقل.
وجه الكناية فيه كقول العرب لله علي أن أضرب ثوبي حطيم الكعبة إن ذلك جعل كناية عن التصدق في عرفهم وإن لم يعقل وجه الكناية فيه كذا هذا، هذا إذا أضاف اليمين إلى المستقبل فأما إذا أضاف إلى الماضي بأن قال هو يهودي أو نصراني إن فعل كذا لشيء قد فعله فهذا يمين الغموس بهذا اللفظ ولا كفارة فيه عندنا لكنه هل يكفر؟ لم يذكر في الأصل وعن محمد بن مقاتل الرازي أنه يكفر لأنه علق الكفر بشيء يعلم أنه موجود فصار كأنه قال هو كافر بالله وكتب نصر بن يحيى إلى ابن شجاع يسأله عن ذلك فقال لا يكفر وهكذا روي عن أبي يوسف أنه لايكفر و هو الصحيح؛ لأنه ما قصد به الكفر و لا اعتقده و إنما قصد به ترويح كلامه و تصديقه فيه و لو قال: عصيت الله إن فعلت كذا أو عصيته في كل ما افترض علي فليس بيمين؛ لأن الناس ما اعتادوا الحلف بهذه الألفاظ."

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

24/صفر1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب