021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
منفعت مقصودہ فوت ہونے کی صورت میں کرایہ لینے کاحکم
77888اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

ایک عمارت ہے،جس کےگراؤنڈ فلور کے علاوہ باقی سب ایک شخص کی ملکیت ہے،گراؤنڈ فلور کی دکانیں مختلف لوگوں کی ملکیت ہیں، یہ شخص اوپر مزید تعمیرکرنے کاخواہاں ہے،پختہ بنیاد ڈالنے کیلئے وہ اس پوری عمارت کوادھیڑناچاہتاہے،اتفاق اس بات پرہواکہ یہ شخص گراؤنڈفلور کی تمام دکانوں کودوبارہ اس طرح بناکردے گا اورجتنی مدت تک عمارت  زیرتعمیر رہے گی،اتنی مدت ماہانہ طورپر مالک کو55 ہزارروپے کرایہ بھی دے گا،گراؤنڈ فلور کی بعض دکانیں مالک خود چلارہے ہیں،جبکہ بعض کرایہ پر ہیں،کرایہ دار کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ چونکہ تین سال کامعاہدہ ہواہے ،اس لئے یہ 55 ہزارکرایہ ہم لیں گے اورہم مالک کوآگے کرایہ دیتے رہیں گے،پوچھنایہ ہے کہ ان 55 ہزار  کاحق دار کون ہے؟

قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مطلوب ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دکان گرانے کی صورت میں مالک اورکرایہ دار دونوں کیلئے کرایہ کی مد میں رقم وصول کرناجائزنہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ کرایہ داری کا مطلب ہوتاہے: منفعت مقصودہ فراہم کرنے پر اجرت لینا،صورت مسؤلہ میں جب پوری عمارت ہی ختم ہوجائے گی تواس سے فائدہ حاصل کرناہی ممکن ہی نہیں رہا،اس لئے اگرمالک اورکرایہ داردونوں کی رضامندی سے دکانیں ختم کی جائیں گی  تودوبارہ جب تک یہ جگہ قابل انتفاع نہ ہوجائے تو کرایہ کی مد میں رقم وصول کرناجائزنہیں۔ البتہ کرایہ داری کا معاملہ  ہوجانے کے بعد چونکہ دکانداروں کیلئےطے شدہ مدت تک سکونت کاحق ثابت ہوچکاہے،اس طے شدہ مدت میں دکاندار اگردوسرے( یعنی بلڈرز)  کیلئےمخصوص رقم کے بدلے میں  اپنے اس ثابت شدہ حق سےدستبردارہوناچاہےتواس کی اجازت ہے،لہذاکرایہ دار اپنے حق سے دستبردارہونے کیلئے رقم کی مقدار طے کرلیں اور باہمی رضامندی سے دینے کاطریقہ کارطے کرلیاجائےتواس طرح یہ رقم کرایہ داروں کیلئے لیناجائزہوگی،باقی مالکان،دکان کے ملبہ اورمیٹریل بلڈرزکوفروخت کرکے قیمت وصول کرلیں تواس طرح مالکان  کوبھی معاوضہ مل سکتاہے۔

حوالہ جات
فی الدرالمختار:(3/6)
الاجارۃ:ھی تملیک نفع مقصود من العین بعوض حتی لواستاجر ثیابا اواوانی لیتجمل بہا۔۔۔اودارا،لالیسکنھا۔۔۔لیظن الناس انہ لہ فالاجارۃ فاسدۃ فی الکل،ولااجرلہ،لانھا منفعۃ غیرمقصودۃ من العین۔
وفی الھندیۃ:(519/6)
المؤاجر اذانقض الدارالمستاجرۃ برضا المستأجرأو بغیر رضاہ کان للمستأجرأن یفسخ الإجارۃ ولاتنتقض الإجارۃ بغیرفسخ ویسقط الاجر عن المستأجر۔
فی رد المحتار (ج 18 / ص 249):
مطلب في النزول عن الوظائف بمال ( قوله : وعليه فيفتى بجواز النزول عن الوظائف بمال ) قال : العلامة العيني في فتاواه : ليس للنزول شيء يعتمد عليه ولكن العلماء والحكام مشوا ذلك للضرورة ، واشترطوا إمضاء الناظر لئلا يقع فيه نزاع .

محمد اویس بن عبدالکریم

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

27/صفر1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب