021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بدل کا ذکر کیے بغیر خلع اور بچوں کی کفالت کا حکم
77921طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

میرا آبائی تعلق میر پور خاص سے ہے۔ میری اہلیہ کراچی سے تعلق رکھتی ہے۔ میں 2018ء میں اہلیہ کی خواہش پر اور بچوں کی تعلیم کے لیے کراچی شفٹ ہوا۔ یہاں کافی مسائل کا سامنا رہا۔ پھر اہلیہ ہی کی خواہش پر اپنی میر پور خاص کی جائیداد بھی بیچ دی۔ چونکہ میں نے بچپن سے 40 سال تقریبا میر پور خاص میں گزارے تھے، اس لیے یہاں کافی مشکلات کا سامنا رہا۔ گھر میں مسلسل ناچاقی کی وجہ سے میں نے اہلیہ کو 18 نومبر 2021ء میں ایک طلاق دیدی۔ پھر غلطی کا احساس ہوجانے پر بڑی مشکل سے اہلیہ کو تجدیدِ نکاح کے لیے راضی کیا۔ پھر کچھ عرصہ حالات صحیح ہوئے۔ میری اہلیہ مسلسل مجھ سے کسی نہ کسی معاملے پر الجھتی ہی رہی، حالانکہ میں نے ہر کام ان کی خواہش کے مطابق کرنے کی کوشش کی، انہی کی خواہش کے مطابق میں نے کراچی میں جائیداد خریدی۔ میری اہلیہ عالمہ ہے، مزاج کافی گرم اور ترش ہے، اپنے آگے کسی کو خاطر میں نہیں لاتی۔ فروری 2022ء میں گلشنِ معمار شفٹ ہوئے۔ چونکہ میر پور خاص کی پراپرٹی کے بدلے کراچی میں پراپرٹی لے چکے تھے، اس وجہ سے رقم اتنی نہیں تھی کہ معمار میں اہلیہ کی خواہش پر جو فلیٹ لیا، اس کی قیمت پوری ہوتی۔ حالانکہ میں نے لاکھ سمجھایا کہ اتنی رقم میں ہی کوئی معقول جگہ لے لیتے ہیں، مگر اہلیہ مصر رہی کہ آپ کے پاس جتنے ہیں، دیدیں، باقی دیکھ لیں گے۔ گلشنِ معمار کا فلیٹ ہماری فیملی کے اعتبار سے کافی بڑا ہے، لیکن اہلیہ کی خواہش کے آگے میں چپ ہوگیا۔ یہاں آنے کے بعد اخراجات کا لوڈ بڑھ گیا اور گھر میں پھر سے ناچاقی بڑھ گئی۔  

کچھ عرصہ پہلے اہلیہ نے پھر سے تلخ باتیں اور کافی سخت لہجے میں علیحدگی کا مطالبہ شروع کیا، یہاں تک کہہ دیا کہ ہماری طلاق ہوچکی ہے، اس لیے مجھے فارغ کردیں۔ اس دوران فلیٹ کی آدھی رقم ادا ہوچکی تھی۔ وہ مسلسل مجھے کہتی رہی کہ آپ کنایہ الفاظ استعمال کرتے ہیں تو طلاق ہوگئی۔ اتنا تو میں بھی سمجھتا ہوں کہ کون سے الفاظ استعمال کرنے ہیں اور کون سے الفاظ سے طلاق واقع ہوتی ہے، مگر اہلیہ میرے لاکھ سمجھانے پر نہیں مانی۔   

غور طلب بات یہ ہے کہ پہلے مسلسل ذہنی اذیت دے کر اور بچوں کے سامنے میری تذلیل کر کے

فلیٹ اپنے نام لکھوایا کہ میرا اب کسی بھی قسم کا لینا دینا نہیں ہے اور مذکورہ فلیٹ سامان کے ساتھ اہلیہ کے نام کرتا ہوں۔ پھر جب میں نے ان کے طلاق کے مطالبہ کو نہیں مانا تو انہوں نے خلع کا مطالبہ کردیا۔ چونکہ میں خلع کے معاملات نہیں سمجھتا، اس لیے میں نے خلع دینے سے بھی انکار کردیا۔  پھر مسلسل ذہنی دباؤ اور اہلیہ کی اس بات پر کہ خلع ایک طلاق شمار ہوتی ہے، میں نے مسلسل ایک ہی سوال کیا کہ کیا ایک ہی ہوتی ہے ؟ اہلیہ نے کہا ہاں، اس کے بعد بھی ہم ساتھ چل سکتے ہیں، اور آپ کے پاس ایک طلاق کا اختیار باقی ہوگا۔ تب مجبور ہوکر اور اللہ کو حاضر ناظر جان کر پیپر پر خلع کے الفاظ لکھ کر اہلیہ کو خلع دیدیا، مطلب ایک طلاق۔ یہ بات 7 ستمبر 2022ء کو ہوئی، خلع دیتے وقت خلع کا بدل طے نہیں ہوا تھا کہ کس چیز کے بدلے میں خلع دیا جارہا ہے، البتہ اہلیہ نے تجدیدِ نکاح کا وعدہ کیا تھا۔ مہر میں اس کو مکمل دے چکا تھا۔

اب معلوم یہ کرنا ہے کہ شرعی اعتبار سے:

  1.  طلاق واقع ہوچکی ہے ؟ اگر ہاں تو کتنی طلاق شمار ہوں گی ؟
  2. اگر طلاق واقع ہوچکی ہے اور اب ہمیں تعلق قائم رکھنا ہو تو اس کا کیا طریقۂ کار ہوگا ؟
  3. خلع کے بعد اہلیہ کے مجھ پر اور میرے ان پر کیا حقوق ہیں؟ خلع دیتے وقت نان نفقہ کے حوالے سے کچھ طے نہیں ہوا تھا؛ کیونکہ اہلیہ نے خلع اپنے مطالبہ پر لیا ہے۔
  4. ہمارے دو بچے ہیں۔ ایک بیٹے کی عمر 13 سال اور دوسرے بیٹے کی عمر 11 سال ہے۔ ان کی کفالت کس کے ذمے ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 (1)۔۔۔ خلع شرعا ایک طلاقِ بائن شمار ہوتی ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب آپ نے اپنی اہلیہ کو خلع دیدیا تو اس پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی۔ طلاقِ بائن سے نکاح ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا، البتہ اگر طرفین باہمی رضامندی سے دوبارہ نیا نکاح کرنا چاہے تو کرسکتے ہیں، ان دونوں کے درمیان نیا نکاح عدت کے اندر بھی ہوسکتا ہے اور عدت کے بعد بھی۔   

(2)۔۔۔ اب اگر آپ دونوں باہم رضامندی سے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے بدلے دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔ تاہم چونکہ آپ اس سے پہلے بھی ایک طلاق دے چکے ہیں، اس لیے آئندہ آپ کو صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہے، یعنی اگر دوبارہ نکاح کے بعد آپ ایک طلاق اور دیں گے تو تین طلاقیں پوری ہونے کی وجہ سے آپ دونوں کے درمیان حرمتِ مغلظہ ثابت ہوجائے گی، جس کے بعد نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ تحلیل کے بغیر دوبارہ نکاح۔ اس لیے اگر آپ دونوں کا دوبارہ نکاح ہوتا ہے تو آئندہ طلاق کے معاملے میں سخت احتیاط سے کام لینا ہوگا۔

(3)۔۔۔ سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق دورانِ عدت اہلیہ کا نفقہ آپ پر لازم ہوگا۔ جہاں تک بدلِ خلع کا تعلق ہے تو جب خلع میں بدل کا ذکر نہیں ہوا تھا اور مہر بھی آپ پہلے سے بیوی کو دے چکے تھے تو اس صورت میں اس پر کچھ واجب نہیں ہوگا۔

اصولی طور پر بدل کا ذکر کیے بغیر خلع سے متعلق کتبِ فقہ میں تین روایات منقول ہیں۔ جامع الفصولین سے معلوم ہوتا ہے کہ مدار عرف پر ہوگا۔ اگر عرف بلا عوض طلاق کا ہو تو عورت پر کچھ واجب نہیں ہوگا۔ اور اگر عرف یہ ہو کہ یہ خلع مہر کے بدلے میں تصور کیا جاتا ہو، چاہے وہ مہر مقبوض ہو یا غیر مقبوض تو پھر عورت پر مہر کی واپسی لازم ہوگی، اور اگر اس نے ابھی تک مہر وصول نہ کیا ہو تو وہ شوہر کے ذمے سے ساقط ہوجائے گا۔ لیکن اگر عرف صرف اسقاطِ مہر کا ہو یعنی غیر وصول شدہ مہر کے ساقط ہونے کا ہو تو پھر بیوی نے جو مہر وصول کرلیا ہو، اس کی واپسی لازم نہیں ہوگی، البتہ جو مہر ابھی تک وصول نہ کیا ہو وہ ساقط ہوجائے گا۔  

"بہشتی زیور، حصہ چہارم، خلع کا بیان"، اور "احسن الفتاویٰ: 5/381" میں لکھا ہے کہ ہمارے عرف میں بدل کا تذکرہ کیے بغیر خلع کی صورت میں صرف اسقاطِ مہر مقصد ہوتا ہے، لہٰذا وصول شدہ مہر کی واپسی نہیں ہوگی، البتہ جو مہر شوہر نے ابھی تک ادا نہ کیا ہو وہ اس کے ذمے سے ساقط ہوجائے گا۔ جامعہ دار العلوم کراچی سے جاری ہونے والے فتویٰ نمبر: 1584/20 میں بھی یہی بات درج ہے۔ اسی کے مطابق دار الافتاء جامعۃ الرشید سے فتویٰ نمبر: 60/70115 جاری ہوچکا ہے۔  

علامہ ابن الہمام اور علامہ شامی رحمہما اللہ نے بھی بدل کے  مسکوت عنہ ہونے کی صورت میں اسی روایت کو صحیح قرار دیا ہے کہ غیر وصول شدہ مہر شوہر کے ذمے سے ساقط ہوگا، لیکن جو مہر بیوی نے وصول کیا ہو وہ اس سے واپس نہیں لیا جائے گا۔

(4)۔۔۔ اگر آپ کے ان دونوں بیٹوں کا اپنا کوئی مال نہ ہو تو بلوغت تک ان کی کفالت آپ پر لازم ہے۔ ان کو اپنے پاس رکھنے اور ان کی تربیت کا حق بھی آپ کو حاصل ہے۔  

حوالہ جات
الدر المختار (3/ 441-439):
باب الخلع  ( هو ) لغة الإزالة واستعمل في إزالة الزوجية بالضم وفي غيره بالفتح،  وشرعا كما في البحر ( إزالة ملك النكاح ) خرج به الخلع في النكاح الفاسد وبعد البينونة والردة فإنه لغو كما في الفصول، (المتوقفة على قبولها) خرج ما لو قال خلعتك ناويا الطلاق فإنه يقع بائنا غير مسقط للحقوق لعدم توقفه عليه، بخلاف خالعتك بلفظ المفاعلة أو اختلعي بالأمر ولم يسم شيئا فقبلت فإنه خلع مسقط حتى لو كانت قبضت البدل ردته، خانية. ( بلفظ الخلع ) خرج الطلاق على مال فإنه غير مسقط، فتح. …..( ولا بأس به عند الحاجة ) للشقاق بعدم الوفاق ( بما يصلح للمهر ) بغير عكس كلي؛ لصحة الخلع بدون العشرة وبما في يدها وبطن غنمها. وجوز العيني انعكاسها.
رد المحتار (3/ 441-440):
قوله ( خرج ما لو قال خلعتك الخ ) أي ولم يذكر المال؛ لأنه متى كان على مال لزم قبولها كما ذكرناه آنفا. وقيد بقوله "ناويا" بناء على ظاهر الرواية؛ لأنه كناية فلا بد له من النية أو دلالة الحال، لكن سيأتي أنه لغلبة الاستعمال صار كالصريح. قوله ( غير مسقط للحقوق ) أي المتعلقة بالزوجية، وسيأتي بيانها. قوله ( بخلاف خالعتك الخ ) كان الأولى أن يقول: بخلاف ما إذا ذكر المال أو قال خلعتك الخ. وأفاد أن التعريف خاص بالخلع المسقط للحقوق فقوله لها خالعتك بلا ذكر مال لا يسمى خلعا شرعا، بل هو طلاق بائن غير متوقف على قبولها، بخلاف ما إذا ذكر معه المال أو كان بلفظ المفاعلة أو الأمر؛ فإنه لا بد من قبولها كما مر؛ لأنه معاوضة من جانبها كما يأتي.
قوله ( بما يصلح للمهر ) هذا التركيب يوهم اشتراط البدل في الخلع؛ لأن الظاهر تعلقه ب "إزالة"، مع أنك علمت أنه لو قال "خالعتك" فقبلت تم الخلع بلا ذكر بدل، وبهذا اعترض في البحر على الفتح حيث ذكر في التعريف قوله ببدل ثم قال إلا أن يقال مهرها الذي سقط به بدل فلم يعر عن البدل، اه. والأولى تعبير الكنز وغيره بقوله "وما صلح مهرا صلح بدل الخلع"؛ فإن معناه أنه إذا ذكر في الخلع بدل يصلح جعله مهرا فإنه يصح، وسيأتي أنه إذا بطل العوض فيه تطلق بائنا مجانا.
جامع الفصولين (1/ 200):
لو خالعها على مال معلوم ولم يذكر المهر فقبلت سقط المهر عند "ح" رحمه الله خلافاً لهما (فقظ) يلزمها البدل، وأما المهر فلو دخل بها وقبضت مهرها يلزمها البدل فقط ولا يرجع أحدهما على صاحبه وفاقاً، ولو لم يدخل بها وقد قبضت مهرها فعند "ح" رحمه الله لا يرجع الزوج عليها إلا بالبدل وعندهما يرجع عليها بالبدل وبنصف المهر، ولو لم تقبض المهر فعند "ح" رحمه الله لا
ترجع المرأة بشيء من المهر، وعندهما ترجع المرأة عليه بنصف المهر….. الخ
 قال: خلعتك، فقبلت تطلق ويبرأ عن المهر لو عليه مهر، وإلا يلزمها رد ما دفع إليها من المهر؛ إذ المال مذكور عرفاً بذكر الخلع "كحم". قالت "سرخديدم"، وقال "فروختم" يسقط بقية المهر الذي على الزوج وتسقط نفقة العدة؛ إذ الخلع في العرف هذا، ولا يسترد ما أعطاها من المهر؛ لأن ما أعطى من المهر ليس من بدل الخلع في عرف زماننا (عده).
فتح القدير (4/ 233):
قوله "يسقطان كل حق، إلى آخره" مقيد بالمهر والنفقة الماضية إذا كانت مفروضة، بخلاف نفقة العدة والسكنى في العدة لا تقع البراءة منهما وإن كانا من حقوق النكاح، بل للمختلعة النفقة والسكنى؛ إلا أن اختلعت على نفقة العدة فتسقط دون السكنى؛ لأنها حق الشرع.  وإطلاق جواب المسئلة يقتضي سقوط المهر في جميع الصور سواء سميا شيئا في الخلع أولا، وليس كذلك، وجملته أنهما إما أن لا يسميا شيئا بأن يقول خالعتك فقبلت ولم يذكرا شيئا، أو سميا المهر أو بعضه أو مالا آخر.  فإن لم يسميا شيئا ففيه ثلاث روايات: إحداها لا يبرأ الزوج عن المهر حتى تأخذه إن لم يكن مقبوضا، والثانية يبرأ كل منهما عنه وعن دين آخر سواه، والثالثة يبرأ كل منهما عن المهر لا غير فلا يطالب به أحدهما الآخر، وهو الصحيح على قول أبي حنيفة، سواء كانا قبل الدخول أو بعده مقبوضا كان أو لا، حتى ترجع عليه بشيء إن لم يكن مقبوضا، ولا يرجع الزوج عليها به إن كان مقبوضا كله والخلع قبل الدخول، وهذا لأن المال مذكور عرفا بالخلع، فحيث لم يصرح به لزم ما هو من حقوق النكاح بقرينة أن المراد الانخلاع منه.
رد المحتار (3/ 452):
مطلب حاصل مسائل الخلع والمباراة على أربعة وعشرين وجها:-  ثم اعلم أن حاصل وجوه المسألة أن البدل إما أن يكون مسكوتا عنه أو منفيا أو مثبتا على الزوج أو عليها بمهرها كله أو بعضه أو مال آخر. وكل من الستة على وجهين، إما أن يكون المهر مقبوضا أو لا. وكل من الإثني عشرإما أن يكون قبل الدخول بها أو بعده.  فإن كان البدل مسكوتا عنه ففيه روايتان، أصحهما براءة كل منهما عن المهر لا غير، فلا ترد ما قبضت، ولا يطالب هو بما بقي، وسيأتي تمام الكلام عليه عند قول المصنف "وبرىء عن المؤجل لو عليه" الخ.  
الفتاوى الهندية (1/ 560):
نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  27/صفر المظفر/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب