021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بارڈر سے پٹرول اور ڈیزل لانے کے لیے کارڈ دے کر پیسے لینے کا حکم
77966جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

ہمارے علاقے بلوچستان میں لوگ بارڈر سے پٹرول اور ڈیزل لانے کا کاروبار کرتے ہیں۔ حکومتی انتظامیہ نے اس کے لیے یہ اصول طے کیا ہے کہ جن گاڑیوں والوں کے پاس سرکاری انٹری کارڈ (ٹوکن) ہوگا، صرف وہی گاڑیاں بارڈر سے سامان لاسکتے ہیں۔ انٹری کارڈ ایک کارڈ ہوتا ہے جو متعلقہ محکمہ بناتی ہے، اس پر آدمی کا نام، اس کی تصویر اور وہ کارڈ بناتے وقت اپنے ساتھ جو گاڑی لے کر جاتا ہے اس کا نمبر ہوتا ہے۔ کارڈ بنانے پر کوئی خاص اخراجات نہیں آتے، صرف فارم لینا ہوتا ہے اور عرضی نویس سے سٹام پیپر، یہی کل اخراجات آتے ہیں۔ فارم میں اپنا نام اور گاڑی نمبر وغیرہ درج ہوتا ہے، جبکہ سٹام پیپر میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ میں (کارڈ بنوانے والا) اس گاڑی کا مالک ہوں اور اس گاڑی کو بارڈر کے صرف ان کاموں میں استعمال کروں گا جن کی سرکار نے اجازت دی ہے،اس کے علاوہ منشیات وغیرہ کے لیے میں اپنی گاڑی کو ہرگز استعمال نہیں کروں گا۔ فارم جمع ہونے کے بعد قرعہ اندازی ہوتی ہے، جن لوگوں کے نام قرعہ اندازی میں نکلتے ہیں، وہ پھر اپنی وہی گاڑیاں جن کا نمبر فارم میں لکھا ہو، اپنے ساتھ لے جاتے ہیں، حکومتی انتظامیہ گاڑیوں کے  نمبر دیکھ کر ان کو کارڈ دیدیتی ہے۔ جن لوگوں کے پاس اپنی گاڑیاں نہیں ہوتیں، وہ فارم میں اپنی طرف سے کوئی نمبر لکھ دیتے ہیں، پھر اگر قرعہ اندازی میں ان کا نام نکلتا ہے تو وہ اپنے کسی دوست یا رشتہ دار کی گاڑی لے لیتے ہیں اور اس پر عارضی طور پر وہ نمبر لگادیتے ہیں جو انہوں نے فارم میں لکھا ہوتا ہے اور وہاں جا کر کارڈ وصول کرلیتے ہیں، پھر آکر گاڑی واپس کرلیتے ہیں۔ انتظامیہ زیادہ چیکنگ نہیں کرتی، بس فارم میں لکھا ہوا نمبر اور گاڑی پر لگا ہوا نمبر دیکھ کر کارڈ دیدیتی ہے۔

ہر کارڈ ہولڈر مہینہ میں صرف ایک دفعہ بارڈر سے پٹرول اور ڈیزل لاسکتا ہے۔ اب بعض لوگوں کے پاس ایک سے زیادہ گاڑیاں ہوتی ہیں، لیکن چونکہ ان کے پاس کارڈ ایک ہوتا ہے تو وہ اپنے کارڈ پر مہینہ میں ایک ہی دفعہ پٹرول اور ڈیزل لاسکتے ہیں۔ جبکہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس گاڑیاں نہیں ہوتیں، لیکن انہوں نے (اوپر ذکر کردہ طریقے سے) اپنے نام کے  انٹری کارڈ بنوائے ہوتے ہیں، تو وہ اپنے کارڈ زیادہ گاڑیاں رکھنے والوں کو اس شرط پر دیتے ہیں کہ میرے انٹری کارڈ کے ذریعے آپ اپنی گاڑی بارڈر لے جاکر پیٹرول اور ڈیزل لائیں، لیکن مجھے ایک خاص رقم مثلا پچاس ہزار روپیہ دیں گے۔ کارڈ ہولڈر اپنا کارڈ مستقل بیچتا نہیں ہے، بلکہ پٹرول اور ڈیزل لانے کے لیے دے کر رقم لیتا ہے، کارڈ لینے والا پٹرول اور ڈیزل لانے کے بعد کارڈ واپس اس کے حوالے کردیتا ہے، اگلے مہینے وہ دوبارہ اسی شخص کو بھی دے کر اس سے رقم لے سکتا ہے اور کسی اور کو بھی دے سکتا ہے۔  

کیا اس طرح اپنا ٹوکن کسی کو دے کر پیسے لینا جائز ہے؟ اگر نہیں تو جواز کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ جن لوگوں کے پاس اپنی گاڑی نہ ہو، ان کے لیے کسی اور کی گاڑی پر جعلی نمبر لگا کر اسے اپنی گاڑی ظاہر کرنا اور اس پر انٹری کارڈ بنانا جھوٹ اور قانون کی خلاف ورزی جیسے گناہوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں، اس سے بچنا ضروری ہے۔ اور جب اس طرح کارڈ بنانا جائز نہیں تو ایسا کارڈ آگے کسی کو دے کر اس پر پیسے لینا بدرجۂ اولیٰ جائز نہیں۔  

اگر کوئی شخص اپنی گاڑی کا اصلی کارڈ بنائے تب بھی سوال میں ذکر کردہ تفصیل (انٹری کارڈ پر کارڈ ہولڈ کا نام، تصویر اور گاڑی نمبر لکھنے اور ہر کارڈ ہولڈر کو مہینہ میں صرف ایک دفعہ پٹرول اور ڈیزل لانے کی اجازت دینے) کے مطابق کارڈ ہولڈر کا اپنا کارڈ کسی کو استعمال کے لیے دے کر اس پر پیسے لینا دھوکہ دہی اور قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے جائز نہیں؛ کیونکہ گاڑی والا کسی اور کا کارڈ دکھا کر یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ اس کی گاڑی کا ٹوکن نمبر ہے، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ نیز کارڈ پر ہر ماہ بارڈر سے پٹرول اور ڈیزل لانے کی اجازت ایک حقِ مجرد ہے جو حکومت منتخب افراد کو دیتی ہے، یہ کوئی ایسی منفعت نہیں جسے کرایہ پر دینا اور اس پر اجرت لینا شرعا جائز ہو؛ اس لیے اس وجہ سے بھی اپنا کارڈ کسی کو دے کر اس پر رقم لینا شرعا جائز نہیں۔ البتہ اگر کسی شخص کی اپنی گاڑی کا اصلی کارڈ ہو اور وہ کسی وجہ سے اپنے لیے پٹرول اور ڈیزل نہیں لاتا، بلکہ اپنی گاڑی پر کسی اور شخص کے لیے پٹرول اور ڈیزل لے کر آتا ہے تو وہ اس سے اس وکالت اور خدمت کی اجرت لے سکتا ہے۔  

حوالہ جات
فقه البیوع (1/281-280):
113- بیع الاسم التجاري أو العلامة التجاریة:
الکلام في جواز الاعتیاض عن الاسم التجاری في الموضعین: الأول: هل یجوز الاعتیاض عن استعمال الاسم التجاری رغم أنه لیس عینًا مادیًا، وإنما هو مجرد حق؟…… فعلی ضوء القواعد التی استخلصناها في موضوع بیع الحقوق، ینبغي أن یجوز الاعتیاض عنه علی طریق التنازل دون البیع. وبهذا أفتی شیخ مشایخنا الأمام أشرف علي التهانوي رحمه الله تعالی وقاسه علی مسألة التنازل عن الوظائف بمال.
ویبدو لهذا العبد الضعیف عفا الله عنه أن حق الاسم التجاري والعلامات التجاریة، وإن کان في الأصل حقا مجردا غیر ثابت في عین قائمة، ولکنه بعد التسجیل الحکومي الذي یتطلب جهدا کبیرا وبذل أموال جمة، والذي تحصل له بعد ذلك صفة قانونیة تمثلها شهادات مکتوبة بید الحامل وفي دفاتر الحکومة، أشبه الحق المستقر في العین، والتحق في عرف التجار بالأعیان، فینبغي أن یجوز الاعتیاض عنه علی وجه البیع أیضا…….. الخ
114- حقوق الامتیاز (Franchise)   
إن بیع الاسم التجاري والعلامة التجاریة قد تطور في عهدنا بما یسمی بیع حقوق الامتیاز، وأصبحت له صور متعددة منشعبة. وحاصل هذا الحق أن مالکا لحق من حقوق الاسترباح یبیع ذلك الحق إلی آخر إما مطلقا، أولمدة معلومة، أوفي مکان معلوم……………فإن نقل هذا الحق إلی من اشتراه بصفة دائمة فإنه بیع، وإن نقل إلیه لمدة معلومة فإنه إجارة یجب أن تراعی فیه أحکام الإجارة.
115- الترخیص التجاري:
وما قلنا في حکم الاسم التجاري والعلامة التجاریة من جواز الاعتیاض عنهما یصدق علی الترخیص التجاري. وحقیقة هذا الترخیص أن معظم الحکومات الیوم لاتسمح بإیراد البضاعات من الخارج أو إصدارها إلیه إلا برخصة تمنحها الحکومة. والذي یظهر أن هذا نوع من الحجر علی التجار، ولاتستحسنه الشریعة إلاسلامیة إلا لحاجة ملحة، ولکن الواقع في معظم البلاد هکذا. وإن حامل هذه الرخصة ربما یبیعها إلی آخر لیتمکن المشتري من استیراد البضائع من الخارج أو یصدرها إلیه بدلًا من البائع.
والواقع في هذه الرخصة أنها لیست عینًا مادیة، ولکنها عبارة عن حق بیع البضاعة في الخارج أو شراءها منه، فیتأتی فیه ما ذکرنا في الاسم التجاري من أن هذا الحق ثابت أصالةً، فیجوز النزول عنه بمال.
وبما أن الحصول علی هذه الرخصة من الحکومة یتطلب کلًا من الجهد والوقت والمال. وإن لهذه الرخصة صفة قانونیة تمثلها الشهادات المکتوبة ویستحق بها التجار تسهیلاتٍ توفرها الحکومة لحاملیها، فصارت هذه الرخصة في عرف التجار ذات قیمة کبیرة یُسلك بها مسلك الأموال، فلایبعد أن تلتحق بالأعیان في جواز بیعها وشراءها.  ولکن کل ذلك إنما یتأتی إذا کان القانون یسمح بنقل هذه الرخصة إلی رجل آخر. أما إذا کانت الرخصة باسم رجل مخصوص أو شرکة مخصوصة، و لایسمح القانون بنقلها إلی رجل آخر أو شرکة أخری، فلا شبهة في عدم جواز بیعها؛ لأن بیعه حینئذٍ یؤدي إلی الکذب والخدیعة؛ فإن المشتري یستعمله  باسم البائع، لا باسم نفسه، فلایحل ذلك لما فیه من الکذب، إلا بأن یؤکل حامل الرخصة بالبیع والشراء، وحینئذٍ لایکون ذلك بیعًا للرخصة، وإن کان یجوز لحامل الرخصة أن یطالب الموکل بأجرة الوکالة. والله سبحانه وتعالی أعلم.
بدائع الصنائع (4/ 192):
ومنها أن تكون المنفعة مقصودة يعتاد استيفاؤها بعقد الإجارة ويجري بها التعامل بين الناس؛ لأنه عقد شرع بخلاف القياس لحاجة الناس، ولا حاجة فيما لا تعامل فيه للناس، فلا يجوز استئجار الأشجار لتجفيف الثياب عليها والاستظلال بها؛ لأن هذه منفعة غير مقصودة من الشجر. ولو اشترى ثمرة شجرة، ثم استأجر الشجرة لتبقية ذلك فيه لم يجز؛ لأنه لا يقصد من الشجر هذا النوع من المنفعة، وهو تبقية الثمر عليها، فلم تكن منفعة مقصودة عادة. وكذا لو استأجر الأرض التي فيها ذلك الشجر يصير مستأجرا باستئجار الأرض، ولا يجوز استئجار الشجر. وقال أبو يوسف: إذا استأجر ثيابا ليبسطها ببيت ليزين بها ولا يجلس عليها، فالإجارة فاسدة؛ لأن بسط الثياب من غير استعمال ليس منفعة مقصودة عادة. وقال عمرو عن محمد في رجل استأجر دابة ليجنبها يتزين بها فلا أجر عليه؛ لأن قود الدابة للتزين ليس بمنفعة مقصودة. ولا يجوز استئجار الدراهم والدنانير ليزين الحانوت، ولا استئجار المسك والعود وغيرهما من المشمومات للشم؛ لأنه ليس بمنفعة مقصودة، ألا ترى أنه لايعتاد استيفاؤها بعقد الإجارة.  

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  4/ربیع الاول/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب