021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حکومت کی طرف سے دی گئی عام تعطیل کے دن ادارہ کھلا رکھنے کا حکم
78018جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

اگر حکومت عام تعطیل دے، جیسے محرم الحرام ،چہلم ،لیڈروں کی برسی وغیرہ اور اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں اتوار کی چھٹی کا کیا حکم ہے؟ کیا چھٹی نہ کرنے  اور حکومت کی اطاعت نہ کرنے کی صورت میں ہم گنہگار ہوں گے ؟  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 ہفتہ میں ایک دن چھٹی آرام اور ہفتہ بھر کی تھکاوٹ وغیرہ دور کرنے کے لیے دی جاتی ہے، جس کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ آنے والے ہفتے میں ملازمین تازہ دم ہو کر کام کر سکیں، کیونکہ آدمی مسلسل کام کرنے سے تھک جاتا ہے، جس کی وجہ سے کام میں خلل واقع ہوتا ہے اور کام سست روی کا شکار ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم ممالک میں بھی ہفتہ میں ایک دن عام تعطیل ہوتی ہے، لہذا حکومت کی طرف سے ایک دن چھٹی کا قانون شرعاً جائز اور مصلحت پر مبنی ہے اور مسلمان حکمران کی جائز امور میں اطاعت شرعاً واجب اور لازم ہوتی ہے، اس لیے ہفتہ میں ایک دن چھٹی کرنا حکومت کے جائز قانون کی پاسداری کرتے ہوئے ضروری ہے۔

جہاں تک اتوار کے علاوہ دیگر چھٹیوں کا تعلق ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر حکومت کسی  جائزمقصدکے پیشِ نظر چھٹی کا اعلان کرتی ہے، جیسے سیکورٹی خدشات وغیرہ تواس میں بھی اطاعت واجب ہے، اس کے علاوہ اگر لیڈروں کی برسی وغیرہ  کی وجہ سے ہر سال چھٹی کا اعلان کیا جائے تو ہر سال  ایسے مواقع میں  چھٹی کرنا اسلامی تعلیمات کا تقاضا نہیں ہے، بلکہ یہ ایک محض رسم ہے، اس کو ترک کرنا چاہیے۔ لیکن اگرایسے مواقع پر ادارہ نہ بند کرنے کی صورت میں حکومت کی طرف سے کسی نقصان کا خدشہ ہو تو اپنے آپ کو نقصان سے بچانے کے لیے آپ کو ادارہ بند کر لینا چاہیے اور ایسا کرنے سے آپ حضرات گناہ گار نہیں ہوں گے۔

حوالہ جات
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (14/ 221) دار إحياء التراث العربي - بيروت :
عن نافع عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال السمع والطاعة حق ما لم يؤمر بالمعصية فإذا أمر بمعصية فلا سمع ولا طاعة.
قال العلامۃ العینی رحمہ اللہ تعالی فی شرحہ:" قوله: السمع أي إجابة قول الأمير، إذ
طاعة أوامرهم واجبة ما لم يأمر بمعصية ،وإلا فلا طاعة لمخلوق في معصية الخالق. ويأتي من حديث علي رضی اللہ عنہ بلفظ:" لا طاعة في معصية ،وإنما الطاعة في المعروف .. وفي الباب عن عمران بن حصين أخرجه النسائي، والحكم بن عمر وأخرجه الطبراني وابن مسعود وغيرهم.وذكر عياض:أجمع العلماء على وجوب طاعة الإمام في غير معصية، وتحريمها في المعصية".
بدائع الصنائع:7/99،دار الکتب العلمیۃ،بیروت:
" وإذا أمر عليهم يكلفهم طاعة الأمير فيما يأمرهم به، وينهاهم عنه؛ لقول الله تبارك وتعالى:"يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم" . [النساء: 59] وقال عليه الصلاة والسلام : "اسمعوا وأطيعوا، ولو أمر عليكم عبد حبشي أجدع، ما حكم فيكم بكتاب الله تعالى"،ولأنه نائب الإمام، وطاعة الإمام لازمة كذا طاعته؛ لأنها طاعة الإمام، إلا أن يأمرهم بمعصية، فلا تجوز طاعتهم إياه فيها؛ لقوله عليه الصلاة والسلام : "لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق".
رد المحتار:5/422،دار الفکر،بیروت:
" قوله: (أمر السلطان إنما ينفذ) :أي يتبع، ولا تجوز مخالفته. وسيأتي قبيل الشهادات عند قوله :أمرك قاض بقطع أو رجم إلخ التعليل بوجوب طاعة ولي الأمر .وفي ط عن الحموي: أن صاحب البحر ذكر ناقلا عن أئمتنا :أن طاعة الإمام في غير معصية واجبة".

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

27/ربيع الاول 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب