021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں اولاد کے درمیان جائیداد کی تقسیم
78041ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

ہماری والدہ کا ایک مکان تھا جو 6,500,000 میں فروخت ہوا۔ ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوا ہے۔ ہم دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ والدہ کے والدین حیات نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کی تقسیم کی کیا صورت ہوگی؟ میراث کی طرح تقسیم ہوگی یا پھر کوئی اور صورت ہوگی کہ والدہ جس کو جتنا دینا چاہے یا جس کو نہ دینا چاہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک ہوتا ہے، ورثا کا حق اس کے ساتھ اس کی موت کے بعد متعلق ہوتا ہے۔ لہٰذا اولاد اپنے والد یا والدہ سے ان کی زندگی میں جائیداد کی تقسیم کا مطالبہ نہیں کرسکتے۔ البتہ اگر وہ خود اپنی جائیداد اپنی زندگی میں اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں، اور یہ شرعًا ہبہ ہوگا، میراث نہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنی بقیہ زندگی کے لیے اپنے پاس اتنا کچھ رکھیں جو ان کے لیے کافی ہو؛ تاکہ بعد میں کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے۔ اس کے بعد جو کچھ اولاد میں تقسیم کرنا چاہیں تو اس میں اصل اور بہتر یہ ہے کہ تمام اولاد، لڑکوں اور لڑکیوں سب کو برابر برابر حصہ دیں، اور اگر میراث کے مطابق تقسیم کرنا چاہیں یعنی لڑکے کو لڑکی کا دگنا حصہ دیں تو اس کی بھی گنجائش ہے، لیکن کسی کو بالکل محروم کرنا یا بہت معمولی حصہ دینا جائز نہیں، ایسا کرنے سے وہ گناہ گار ہوں گے، البتہ اگر کسی بیٹے یا بیٹی کو اس کی خدمت، دینداری یا غربت کی وجہ سے کچھ زیادہ حصہ دیں تو اس کی گنجائش ہے۔  

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کی والدہ یہ رقم آپ کے درمیان تقسیم کرنا چاہتی ہے تو مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق عمل کرسکتی ہے، البتہ جس کو جو کچھ دے، باقاعدہ قبضہ کے ساتھ دے؛  صرف زبانی یا تحریری طور پر دینے سے شرعا ہبہ تام اور مکمل نہیں ہوتا۔  

حوالہ جات
مشكاة المصابيح (2 / 183):
وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : إني نحلت ابني هذا  غلاما فقال : " أكل ولدك نحلت مثله ؟ " قال  لا قال : "فأرجعه". وفي رواية : أنه قال : "أيسرك أن يكونوا إليك في البر سواء ؟ " قال : بلى قال : " فلا إذن " .  وفي رواية : أنه قال : أعطاني أبي عطية فقالت عمرة بنت رواحة : لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله قال : " أعطيت سائر ولدك مثل هذا ؟ " قال : لا قال : " فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم " . قال : فرجع فرد عطيته . وفي رواية : أنه قال : " لا أشهد على جور ".
رد المحتار (4/ 444):
وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: "اتقوا الله واعدلوا في أولادكم"، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية، فيسوي بين الذكر والأنثى؛ لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة.
وفي الخانية: ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض، روى عن أبي حنيفة: لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين، وإن كانوا سواء يكره. وروى المعلى عن أبي يوسف: أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار، وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى. وقال محمد: يعطى للذكر ضعف الأنثى.
وفي التتارخانية معزياً إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف: وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا، والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف، وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم، وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  29/ربیع الاول/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب