021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کی اجازت سے مشترکہ مکان پر تعمیر کرنے کا حکم
78050میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میرے والد نے ایک مکان خریدا، جو والدہ نام پر رجسٹر کروایا گیا، جب میری شادی ہوئی تو میں نے والد صاحب سے کہا کہ اوپر کے جو دو کمرے آپ مجھے دے رہے ہیں اس میں واش روم چھوٹا ہے اوراسٹور بھی نہیں ہے، اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے پیسوں سے کچھ کام کروا لوں، والد صاحب نے اجازت دی، میں نے اوپر کافی کام کروایا اور ان کی اجازت سے اوپر کی منزل کی چھت بھی ڈال دی، اس کے بعد میری شادی ہوئی اور اس کے ایک سال بعد والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔

اکٹھے رہنے کی وجہ سے کچھ اختلافات ہو گئے، تو فیصلہ یہ ہوا کہ دوسری منزل مکمل کر کے میں اوپر کی منزل پر رہوں، چنانچہ دوسری منزل پر کام کروا کے میں اوپر شفٹ ہو گیا، ایک مرتبہ بجلی والوں نے سروے کیا اور انہوں نے ایک میٹرہونے کی وجہ سے دو لاکھ روپے کا بل بنا کر بھیج دیا، ہم نے درخواست بھی دی، مگر کچھ فائدہ نہ ہوا، بہرحال کچھ ڈسکاؤنٹ کروا کر میں نے تین میٹر لگوائے، جس میں سب کا فائدہ ہوا۔ سوال یہ ہے کہ یہ کام کافی پہلے کیے گئے، جب اتنی مہنگائی نہ تھی، لہذا میرا پہلی منزل، دوسری منزل اور میٹر لگوانے پر جو خرچہ ہوا اس کے حساب سے مجھے سونا دیا جائے۔ میری بہنیں کہتی ہیں کہ یہ سارے خرچے امی اور ان کی بہنوں نے کیے ہیں، میں اس کو مانتا ہوں کہ والدہ نے بھی کچھ خرچے کیے ہیں، لیکن میں 2003ء سے اب تک بجلی، گیس، پانی اور یوٹیلٹی کے بل سب میں نے ادا کیے، ان کے پیسے مجھے ملنے چاہئیں۔

نیزوالدہ بیمار ہوتیں تو ہسپتال میں ایڈمٹ ہونے، دوائیوں اور دیگر کچھ اخراجات میں اور کچھ خالہ دیتی تھیں، میری بہنوں نے پانچ روپے بھی خرچ نہیں کیے۔ کیا میں ان اخراجات کا مطالبہ کر سکتا ہوں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں آپ نے والدین کے مکان پر اپنی ذات کے لیے جو تعمیر وغیرہ کی ہے وہ آپ کی ملکیت ہے، آپ اس تعمیر کو اکھاڑ سکتے ہیں اور اگر ورثاء کی رضامندی سے اس تعمیر کی مارکیٹ ریٹ کے مطابق قیمت لگوا کر وصول کر لی جائے تو اس کی بھی اجازت ہے، لیکن تعمیر پر ہونے والے اخراجات کے عوض سونے کا مطالبہ کرنا درست نہیں۔

اس کے علاوہ آپ نے بجلی کا میٹر لگوانے، گزشتہ سالوں میں یوٹیلٹی بلز ادا کرنے اور والدہ کی بیماری پر جو پیسے خرچ کیے ہیں، اگر وہ بطورِ تبرع اور احسان خرچ کیے تھے تو آپ وہ اخراجات وصول نہیں کر سکتے، البتہ اگر وہ اخراجات واپس لینے کے ارادے سے خرچ کیے تھے تو اس صورت میں خرچ کرتے وقت والدہ اور بہنوں وغیرہ کو بتانا ضروری تھا کہ میں یہ اخراجات وصول کروں گا، لہذا اگر آپ نے ان کو یہ اخراجات وصول کرنے کے بارے میں بتایا تھا تو آپ ترکہ سے یہ اخراجات بھی وصول کرسکتے ہیں، لیکن ان کے عوض  بھی سونے کا مطالبہ کرنا درست نہیں، اور اگر آپ نے ان کے سامنے یہ وضاحت نہیں کی تھی تو اس صورت میں آپ کا یہ اخراجات ترکہ سے وصول کرنا جائز نہیں۔

حوالہ جات
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (2/ 141) دار المعرفة، بیروت:
المستأجر إذا أخذ منه الجباية الراتبة على الدور والحوانيت يرجع على الآجر وكذا الأكار في الأرض وعليه الفتوى. المستأجر إذا عمر في الدار المستأجرة عمارات بإذن الآجر يرجع بما أنفق۔
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (4/ 488) دار إحياء التراث العربي:
 ومن عمر دار زوجته بماله أي بمال الزوج بإذنها أي بإذن الزوجة فالعمارة تكون لها أي للزوجة لأن الملك لها وقد صح أمرها بذلك والنفقة التي صرفها الزوج على العمارة دين له أي للزوج عليها أي على الزوجة لأنه غير متطوع فيرجع عليها لصحة الأمر فصار كالمأمور بقضاء الدين۔
 وإن عمّرها أي الدار لها أي للزوجة بلا إذنها أي الزوجة فالعمارة لها أي للزوجة وهو أي الزوج في العمارة متبرع في الإنفاق فلا يكون له الرجوع عليها به وإن عمر لنفسه بلا إذنها أي الزوجة فالعمارة له أي للزوج لأن الآلة التي بنى بها ملكه فلا يخرج عن ملكه بالبناء من غير رضاه فيبقى على ملكه فيكون غاصبا للعرصة وشاغلا ملك غيره بملكه فيؤمر بالتفريغ إن طلبت زوجته ذلك كما في التبيين لكن بقي صورة وهي أن يعمر لنفسه بإذنها ففي الفرائد ينبغي أن تكون العمارة في هذه الصورة له والعرصة لها ولا يؤمر بالتفريغ إن طلبته انتهى۔

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

29/ربيع الاول 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب