78338 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
میں ایک بیوہ خاتون ہوں،میرےنام پرایک مکان ہے،میرےدوبیٹےاورپانچ بیٹیاں ہیں۔میں اپنی زندگی میں اس مکان کی تقسیم اس طرح چاہتی ہوں کہ اپنےبڑےبیٹےکوآدھامکان دےدوں،کیوں کہ اس کی مالی حالت اچھی نہیں ہے،بقیہ ایک بیٹااورپانچ بیٹیاں اس پرراضی بھی ہیں کہ بڑےبھائی کوآدھامکان دےدیاجائے۔
بقیہ آدھامکان فروخت کرکےمیں (بیوہ)اپنےلیےحج کی رقم علیحدہ کرکےباقی رقم ایک بیٹااورپانچ بیٹیوں میں برابر تقسیم کردوں۔آیایہ تقسیم درست ہے؟اگردرست نہیں ہےتواس میں کیاصورت اختیارکی جاسکتی ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہےکہ زندگی میں اولادکےدرمیان جوجائیدادتقسیم کی جاتی ہے،اس کاحکم ھدیہ(یعنی گفٹ) کاہوتاہے، جس کاسب سےبہترطریقہ یہ ہےکہ تمام اولاد(بشمول مردوعورت)کوبرابرحصہ دیاجائے،البتہ اولادمیں سےکسی ایک کو اگرکسی جائزبنیاد(وجہ)پرزیادہ حصہ دیاجائےتوشرعاًاس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
صورت مسؤلہ میں چونکہ بڑابیٹامالی لحاظ سےکمزوربھی ہےاورباقی بھائی،بہن بھی اس کواضافی حصہ دینےپرراضی ہیں،تو آپ کی تقسیم شرعی اعتبارسےدرست اورجائزہے ،اسی طرح اپنےحج کےلیےرقم علیحدہ کرکےرکھنابھی جائزہے۔
حوالہ جات
حاشية ابن عابدين (4 / 444):
وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض روى عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره ۔
وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى
وقال محمد يعطى للذكر ضعف الأنثى۔
محمدعمربن حسین احمد
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
یکم جمادی الاولیٰ 1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد عمر ولد حسین احمد | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |