021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مہتمم اورناظم کےمعاملات حل نہیں ہوئے،اورمیں کتب کی تدریس کےلیےآیاتوبیوی کوتین طلاق
78318طلاق کے احکامطلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان

سوال

کیافرماتےہیں علماء دین وشرع متین  اس مسئلہ کےبارےمیں کہ زید ایک دینی ادارہ میں درجہ قرآن کریم  ناظرہ گھنٹہ سواگھنٹہ اوردرجہ کتب کےاسباق پڑھاتاتھا،ادارےکامہتمم زید کاحقیقی باپ اورناظم اعلی زید کاحقیقی سسرتھا،مہتمم اورناظم دونوں حقیقی بھائی بھی ہیں،مہتمم اورناظم کااختلاف ہوگیا،اختلا ف کااہم پوائنٹ اہتمام تھا،مہتمم صاحب کہتےہیں میں مہتمم ہوں،میری ہربات مانو،ناظم کہتاہےمیں تمہیں مہتمم ہی تسلیم نہیں کرتا،ہم نےتجھے مہتمم بنایاتھا،ہم اب تجھے تسلیم نہیں کرتے،اکثریتی اراکین ناظم کےساتھ تھےاورہیں،اس اختلاف کااثر زید کےمعاملات بالخصوص بچوں پربہت ہونےلگا،نتیجۃ ایک دن زید نےاپنےوالد صاحب سےکہااپنےمعاملات ناظم سےحل کرو،جب تک تمہارےمعاملات حل نہیں ہوں گے،میں درجہ کتب کی تدریس کےلیےنہیں آؤنگا،اگرآؤں تومیری بیوی کو بیک وقت تین طلاق ہوں گی،زید کاذہن یہ تھاکہ شاید اس سخت رویہ کی وجہ سےمعاملات حل ہوجائیں گے،لیکن یہ معاملات پہلےسےبھی زیادہ سخت ہوگئے،لہذازید نےدرجہ قرآن کی تدریس توجاری رکھی،لیکن درجہ کتب کی تدریس موقوف کردی۔

مذکورہ صورت حال تقریبا چھ ماہ سےاسی طرح رہی،بعدازاں مہتمم صاحب بقضائےالہی وفات پاگئے،وفات سےقبل ہسپتال میں انہوں نے اپنےخادم چھوٹےبیٹےکو وصیت کی کہ میرےبعد اس مسئلہ کوحل کرلینا،میری موت کےبعدمیرےبرادران سےجوکہ تمہارےچچابھی ہیں،ان سےجھگڑانہ کرناوہ تمہیں جو شاخ وغیرہ دیں،ان کو سنبھال لینا۔

علاوہ ازیں مہتمم صاحب نےاپنےاس بھائی سےکہاجس سےتناز ع تھا کہ اس مسئلہ کوحل کرلو،اس بات کوکہنےکےلیےوہ اپنےبھائی کےپاس گئے،جن کی رہائش تقریبا ایک کیلومیٹردورتھی۔

علاوہ ازیں ایک اوربھائی سےبھی کہابیٹھواس مسئلہ کوحل کرلو،باقی کل اراکین زیدکےاہتمام پرمتفق ہیں،ماسوائےزید کےایک بھائی کےکہ وہ خود اہتمام کاخواہاں ہے،اورمہتمم مرحوم نےبھی اس کوکچھ اختیارات دےرکھےتھے،لیکن بھائی اورچچا اورشوری کاکوئی رکن اس کاحمایتی نہیں ہے،لیکن اب زید کہتاہےچونکہ تدریس میں تعلیق بالطلاق مانع ہے،اس لیےبغیرتدریس کےمیں اہتمام کوقبول نہیں کرتا۔

اب دریافت طلب اموریہ ہیں:

مہتمم کی وفات سےزید والی تعلیق ختم ہوگئی یانہیں ؟کہ اہتمام والامسئلہ تو ختم ہے،زیدنہیں بنےگاتوکوئی تیسرابنےگا،اختلاف رکھنےوالانہیں بن سکتاکیونکہ ادارہ باقاعدہ رجسٹرڈہے،اوراس کی شوری  ہے،اورشوری کاکوئی رکن(اختلاف رکھنےوالےبھائی )کاحمایتی نہیں ہے۔

زیداہتمام کوقبول کرلےاورتنازعہ ختم ہوجائےتواس سےتعلیق ختم ہوجائےگی یانہیں ؟

نوٹ:اس اہتمام کوقبول کرنےکی صورت میں ایک بھائی مخالف رہےگا

مسئلہ کےحل کےلیےمہتمم کاوصیت کرنا ،اس وصیت سےتعلیق ختم ہوگی یانہیں ؟

مہتمم مرحوم کادوسرےبھائیوں سےکہنا پھرایک بھائی کےپاس صرف اسی مسئلہ کےحل کےلیےجانا ،ا س سےتعلیق ختم ہوتی ہیں یانہیں ؟

اگرمذکورہ صورت میں تعلیق ختم نہیں ہوسکتی تو اس کےختم کرنےکےلیےکوئی حیلہ یاتجویز بتلائیں تاکہ ادارہ کےانتظامی معاملات درست ہوجائیں۔اوربرادری میں مزید انتشارنہ ہو۔

تنقیح:مستفتی نےوضاحت کی ہےکہ دراصل مدرسہ کاشورئی نظام ہے،ٹوٹل گیارہ افرادہیں،جن میں سے9افرادایک طرف تھےوہ زیدکےچچاکےمہتمم بننےکےحق میں تھے اورباقی یعنی زیدکےوالد اورزیدکابھائی دوسری طرف تھے۔

زیدخوبھی والدکی زندگی میں چچاکےحق میں تھا اورباقی اراکین بھی ،لیکن زیدکےوالد کےبزرگ ہونےاوران کے ادب واحترام کی وجہ سےکوئی مزید بات نہیں کرسکتاتھا،والدکےانتقال کےبعد بھی وہی شور ی کے9افرادایک طرف ہیں،یعنی زیدکواہتمام دینےکےحق میں ہیں،جبکہ زید کا بھائی اس کےحق میں نہیں ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1 تا 5۔واضح رہےکہ تعلیق ایک دفعہ ہوجائےتوشرعااس کوختم نہیں کیاجاسکتا،اس کےمطابق شرط پرعمل کرناضروری ہوتاہے،ہاں  جس کےساتھ معاملہ کو معلق کیاگیاہووہ مرجائےتوتعلیق  کاحکم بھی ختم ہوجاتاہے۔

صورت مسئولہ میں سوال میں ذکرکردہ تفصیل اورتنقیح کےمطابق حقیقی اختلاف مہتمم اورناظم یعنی دوبھائیوں کاتھا،ایک بھائی(زیدکےوالد)کےفوت ہونےسےچونکہ اختلاف ختم ہوگیا،لہذا اب موجود ہ صورت میں تعلیق کاحکم نہیں لگےگا۔زیداگردرجہ کتب کی تدریس شروع کردےتو اس کی بیوی کوطلاق واقع نہیں ہوں گی۔

حوالہ جات
"الفتاوى الهندية" 9 / 213:
إذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته : إن دخلت الدار فأنت طالق۔
"البحر الرائق شرح كنز الدقائق" 24 / 480:
وَلَا يَصِحُّ الرُّجُوعُ عَنْ الْيَمِينِ۔
"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" 7 / 335:
ولأن هذا النوع من التمليك فيه معنى التعليق فلا يحتمل الرجوع عنه. والفسخ كسائر التعليقات المطلقة بخلاف البيع فإنه ليس فيه معنى التعليق رأسا۔
"البحر الرائق شرح كنز الدقائق" 12 / 26:
وأصل هذا أن الحالف في اليمين المطلقة لا يحنث ما دام الحالف والمحلوف عليه قائمين لتصور البر فإذا فات أحدهما فإنه يحنث ۔
وبهذا ظهر أن الضمير في قوله حتى مات يعود إلى أحدهما أيهما كان سواء كان الحالف أو المحلوف عليه لا أنه خاص بالحالف كما هو المتبادر من العبارة
"رد المحتار" 14 / 293:
( إن كلمته ) أي عمرا ( إلا أن يقدم زيد أو حين أو إلا أن يأذن أو حتى يأذن فكذا فكلمه قبل قدومه أو ) قبل ( إذنه حنث و ) لو ( بعدهما لا يحنث ) لجعله القدوم والإذن غاية لعدم الكلام ( وإن مات زيد قبلهما سقط الحلف ) قيد بتأخير الجزاء لأنه لو قدمه فقال امرأته طالق إلا أن يقدم زيد لم يكن للغاية بل للشرط لأن الطلاق مما لا يحتمل التأقيت فلا تطلق بقدومه بل بموته ( كما لو قال ) لغيره ( والله لا أكلمك حتى يأذن لي فلان أو قال لغريمه والله لا أفارقك حتى تقضي حقي ) أو حلف ليوفينه اليوم ( فمات فلان قبل الإذن أو برئ من الدين ) فاليمين ساقطة .
والأصل أن الحالف إذا جعل ليمينه غاية وفاتت الغاية بطل اليمين خلافا للثاني ۔
"المحيط البرهانى" 11 /  176:
ولو قال لامرأته: أنتِ طالق إن خرجت من هذه الدّار إلا بإذن فلان، فمات فلان قبل الإذن بطلت اليمين في قول أبي حنيفة رحمه الله ومحمّد خلافاً لأبي يوسف. والأصل عندهما: أنَّ اليمين إذا انعقدت على فعل في المستقبل ومات المعقود عليه أنّ اليمين تبطل، وعند أبي يوسف لا تبطل. وسيأتي الكلام فيه في كتاب الأيمان إن شاء الله.
"المحيط البرهاني في الفقه النعماني " 9 / 19:
(الفصل الرابع) في اليمين إذا جعل لها غاية
إذا جعل الحالف ليمينه غاية وفاتت الغاية بطلت اليمين عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله حتى إذا قال لغيره: والله لا أكلمك حتى يأذن لي فلان، أو قال لغريمه: والله لا أفارقك حتى تقضي حقي فمات فلان قبل الإذن برىء من غير المال فاليمين ساقطة في قول أبي حنيفة ومحمد خلافاً لأبي يوسف رحمهم الله، وعلى هذا إذا حلف ليوفين فلاناً ماله اليوم فأبرأه الطالب. وعلى هذا يخرج جنس هذه المسائل.
"الفقه على المذاهب الأربعة"2 /  96:
 وإذا حلف لا يكلمه حتى يأذن له فلان فمات قبل الإذن فإن اليمين تسقط والضابط في ذلك أنه إذا جعل الحالف ليمينه غاية ففاتت الغاية بموت ونحوه بطل اليمين لما علمت من أن شرط بقاء اليمين المؤقتة أن يكون البر متصورا۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

01/جمادی الاولی   1444ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب