021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میاں بیوی کے ایک دوسرےکےذمہ حقوقِ واجبہ اور ان میں کوتاہی کرنے کا حکم
78352نکاح کا بیاننکاح کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میری بیوی میرا، میرے گھر والوں کا اور ہر رشتے دار کا بہت خیال رکھتی ہے، کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں مگر مجھے اس سے تکلیف بھی بہت ہے، میرا اور اس کا ایک کمرے کا تعلق کوئی خاص نہیں، یعنی میں اس سے ازدواجی تعلقات کے معاملے میں خوش نہیں ہوں، پہلی بات جب کبھی میں اس کے قریب جاؤں تو وہ منع کر دیتی ہے اور اگر منع نہ بھی کرے تو خود شامل نہیں ہوتی، میں یہ باتیں کر کے شرمندہ ہو رہا ہوں کہ کیسے بتاؤں؟ آپ کےسامنے بڑی ہمت کی ہے، آپ سے بات کرنے کے لئے پتہ نہیں آپ کیا سوچیں گے؟ میرے بارے میں؟ وہ مجھے کہتی ہے جو کرنا ہے جلدی کرو، آپ کو پتہ ہے میرے بچے بھی ہیں اب میں اس کی ان حرکتوں سے تنگ ہوتا ہوں ،مجھے ایسے لگتا ہے، جیسے کسی مردہ عورت سے کر رہا ہوں، مجھے پیار یعنی بوسہ وغیرہ بھی نہیں لینےدیتی، کہتی ہے مجھے پسند نہیں، مجھے الجھن ہوتی ہے  اور خود بھی کبھی اس طرح کا  اظہار نہیں کرتی، میں کیا کروں؟بہت پریشان ہوں، اس کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتا، کیونکہ اس نے سب گھر والوں کا بہت خیال رکھا ہوا ہے، گھر کا ہر کام کرتی ہے، میری بھی ہر ضرورت پوری کرتی ہے، مجھے کوئی حل بتائیں جس سے میں اسے سمجھا سکوں میں اگر اسے گھر والوں کے سامنے برا کہوں تو بھی میں ہی برا ہوتا ہوں،کیا شریعت کی رُو سے اس کا یہ رویہ درست ہے؟ برائے مہربانی مجھے اس کا کوئی حل بتایے۔

لڑکی کا بیان:

عورت نے بتایا کہ  میرے چار بچے ہیں، دن بھر کام کر کے تھک جاتی ہوں، یہ گھر میں رات کو موبائل استعمال کرتے رہتے ہیں، میں سو جاتی ہوں، جب ان کا دل کرتا ہے تو پاس آجاتے ہیں، مجھ سے کوئی بات شیئر نہیں کرتے، بس ان کو اپنی حاجت پوری کرنے کی خواہش ہوتی ہے، میری ذات سے ان کو کوئی سروکار نہیں، مجھے گالیاں بھی دیتے ہیں، اور کئی مرتبہ مجھے کہہ چکے ہیں کہ اپنے باپ سے کہو کہ مجھے لے جائیں، میں تو ان باتوں کی وجہ سے اپنے رشتے کو محفوظ نہیں سمجھتی، پہلے بھی ایک مرتبہ طلاق کی نوبت آچکی ہے۔

لڑکے کابیان:

 لڑکے نےبتایا کہ یہ سلسلہ شادی کے ڈیڑھ سال بعد ہی شروع ہو گیا تھا، میں اس کو گالی اس وقت نکالتا ہوں، جب میری اپنے والدین یا بہنوں وغیرہ کے ساتھ کوئی بحث ومباحثہ ہوتا ہے تو یہ میرے منع کرنے کے باوجود بیچ میں بولنے لگ جاتی ہے، دوسرا میں نے کئی مرتبہ کہا کہ جب مجھے غصہ آئے تو تم خاموش رہا کرو، لیکن یہ نہیں مانتی،  اس کے علاوہ اس نے مجھے کہا کہ مجھے اپنے کام میں شریک کرو تو میں نے اسے کام میں شریک کر لیا، اب ہم سارا دن اکٹھے کام کرتے ہیں، ساری صورتِ حال اس کے سامنے ہوتی ہے تو میں اس سے کیا بات شیئر کروں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بطورِتمہید جاننا چاہیے کہ نکاح کی مبارک سنت پر عمل کرنے میں بہت سے مقاصد کا حصول مقصود ہوتا ہے، جیسے اولاد اور پاکدامنی کا حصول، دو خاندانوں کے درمیان رشتہ داری کا قائم ہونا، گناہوں سے بچنا اور احساسِ ذمہ داری وغیرہ،لیکن ان تمام مقاصد کی تکمیل میاں بیوی کے ذمہ ایک دوسرے کے حقوقِ واجبہ ادا کرنے کی صورت میں ہی ہو سکتی ہے، زوجین میں سے کسی بھی فریق کےاپنے فرائض منصبی میں کوتاہی کرنے اور دوسرے کے حقوق نہ ادا کرنے کی صورت میں یہی نکاح اور رشتہ ازدواج سکون کی بجائے انتہائی پریشانی کا باعث بن جاتا ہے، جس سے نہ صرف زوجین بلکہ دونوں خاندانوں کے اعزہ واقارب سخت بے چینی اور اضطراب کا شکار ہوتے ہیں، یہاں تک کہ کئی مرتبہ زوجین کے اختلاف کا اثر اولاد تک بھی جا پہنچتا ہے اور بعض اوقات طلاق تک نوبت جا پہنچتی ہے،اس لیے زوجین کی ذمہ داری ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی اور غفلت سے کام نہ لیں۔ اس سلسلے میں درج ذیل امور کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہے:

  1. اللہ تعالیٰ نے مرد کی بنسبت عورت کو جسمانی اعتبار سے کمزور پیدا کیا ہے اور گھر میں اکٹھے رہتے ہوئے  ایک دوسرے کے حقوق میں کچھ نہ کچھ کوتاہی ہرآدمی سے ہو جاتی ہے، اس لیے احادیثِ مبارکہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار مردوں کو بیویوں کے ساتھ خیرخواہی، حسنِ خلق اور نرمی کا معاملہ کرنے کا حکم دیا، انسان اپنے اخلاق کی بدولت بڑے سےبڑے سخت دل  شخص کو بھی نرم کر سکتا ہے،  اپنے حسنِ اخلاق کے ذریعہ بیوی کو خوش رکھنا تو بہت آسان ہے،اس لیے بیوی کے ساتھ حسنِ اخلاق اور محبت کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔
  2. مرد کو چاہیے کہ باہر کے معاملات کا اثر گھر میں ظاہر نہ کرے، مثلا کام کی تھکاوٹ، کسی سے کوئی ناچاکی یا نقصان ہو جائے تو اس کا غصہ بیوی پر نہ نکالنا چاہیے۔
  3. بیوی کو گالم گلوچ اور بُرا بھلا کہہ کر دوسروں کے سامنے اس کی عزت کو پامال کرنا ہرگز جائز نہیں، گالی دینا اور کسی مسلمان کو ذلیل کرنا اسلام کی تعلیمات نہیں ہیں، بلکہ ہر معاملے میں نرمی کے ساتھ پیش آنے کی کوشش کرنی چاہیے اوراگرکوئی سمجھانے کی بات ہو تو علیحدگی میں اور مناسب موقع دیکھ کر سمجھانا چاہیے۔
  4. شریعت نے  عورت کے ذمہ  امورِ خانہ داری اور مرد کے ذمہ باہر کے معاملات سنبھالنےکی ذمہ داری سونپی ہے، لہذا عورت کوصرف گھریلو امور کو سنبھالنا چاہیے، تاکہ شوہر باہر سے تھکا ماندہ گھر آئے تو بیوی تازہ دم ہو کر اس کی خدمت کرسکے اور اس کو خوش کر کے اپنی جنت بنا سکے، نیز گھر میں رہتے ہوئے بچوں کی تربیت بھی اچھے طریقے سے کی جا سکتی ہے،جوکہ اولاد کا شرعی حق ہے۔
  5. بیوی کی ذمہ داری ہے کہ شوہر کی ہر جائز بات پر عمل کرنے کی کوشش کرے، کیونکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اگر میں کسی کو سجدہ کی اجازت دیتا تو بیوی کو اپنے شوہر کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا۔ اس لیے جب شوہر کسی بات سے منع کرے کہ تو بیوی کی ذمہ داری ہے کہ اس سے رک جائے، خوامخواہ شوہر اور اس کے والدین کے درمیان گفتگو میں دخیل نہ بنے۔
  6. میاں بیوی کو کبھی کبھار ایک دوسرے کو ہدیہ بھی دینا چاہیے، حدیثِ پاک میں ہے کہ ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو اس سے محبت بڑھتی ہے، نیز کبھی فرصت کے ایام میں سیروتفریح کے لیے باہر کسی جگہ لے جانا چاہیے، کیونکہ گھر میں ایک ہی جگہ بند رہنے سے آدمی پریشان ، طبیعت میں بے چینی اور مزاج میں چڑچڑاہٹ پیدا ہو جاتی ہے، جس سے آپس کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی بعض امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کو سفر میں اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔
  7. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کی دلجوئی بھی فرماتے تھے، ان کے ساتھ مزاح بھی فرماتے تھے، حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دوڑ لگانا بھی ثابت ہے، جس جگہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پانی پیتی تھیں وہیں سے منہ لگا کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پانی نوش فرماتے، اپنے وصال کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی چبائی ہوئی مسواک کی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں ہی ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا۔ نیز ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنا صدقہ کے برابر اجر رکھتا ہے۔ یہ سب چیزیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تعلیم دینے اور بیویوں کو خوش رکھنے کے لیے فرمائی تھیں، اس لیے شوہر کو چاہیے کہ ان مبارک سنتوں پر عمل کرکے بیوی کو خوش رکھنے اور اس کا دل جیتنے کی کوشش کرے۔

مذکورہ بالا تمہید کے بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ عورت کے ذمہ شوہر کا سب سے بڑا حق اس کوازدواجی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دینا ہے، اس لیے شریعت نے اس معاملے میں عورت کی کوتاہی کو ہرگز برداشت نہیں کیا، چنانچہ احادیثِ مبارکہ میں شوہر کے اپنی خواہش کا اظہار کرنے کی صورت میں عورت کے انکار کرنے پر شدید تنبیہ فرمائی گئی ہے، چنانچہ بخاری شریف کی ایک حدیث میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے اور عورت آنے سے انکار کرے تو صبح تک اس پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں، دوسری روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوتے ہیں۔ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ اگر بیوی تنور پر روٹی پکانے میں مصروف ہو اور اسی حالت میں شوہر اس کو اپنی حاجت کے لیے بلائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ تنور چھوڑ کر شوہر کی حاجت کو پورا کرے۔ اس کے علاوہ اور بھی احادیثِ مبارکہ ہیں جن میں شوہر کی حاجت پوری نہ کرے پر عورت کو تنبیہ کی گئی ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ اس معاملے میں حد سے زیادہ شرم وحیا کا ظہارکرنا اور اس کو حیا کے خلاف سمجھنا بھی درست نہیں، ہمارے پیارے نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم انسانوں میں سب سے زیادہ شرم وحیا والے تھے، لیکن اس کے باوجود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سب ازواجِ مطہرات کے ازدواجی حقوق ادا فرماتے تھےاور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بھی مبارک عمل  حیا کے خلاف ہرگز نہیں ہو سکتا، بلکہ وہ عینِ شریعت اورعبادت ہے۔

لہذا خاتون کا اپنے شوہر کے ساتھ ازدواجی تعلقات میں کوتاہی اور غفلت برتنا بالکل جائز نہیں، بغیر کسی عذر کے اس میں کوتاہی کرنے سے عورت گناہگار اور اللہ تعالیٰ کے غضب کی مستحق ٹھہرتی ہے، اس لیے خاتون پر لازم ہے کہ وہ شریعت کی تعلیمات کے مطابق شوہر کے تمام حقوق ادا کرنے کی کوشش کرے ، جس چیز سے شوہر منع کرے اس سے رک جائے اور اس کو خوش رکھنے کی کوشش کرے، تاکہ اللہ تعالی اس سے راضی ہو جائیں، ایک حدیث میں وارد ہے کہ جو عورت اس حال میں فوت ہو کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گی۔

شوہر پر بھی لازم ہے کہ اگربیوی کو کوئی عذر ہو، جیسے صحت وغیرہ ٹھیک نہ ہو تو ایسی صورت میں بیوی کو ازدواجی تعلقات پر مجبور نہ کرے،[1]اس کے علاوہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے مطابق اپنی بیوی سے حسنِ خلق اور نرمی کے ساتھ برتاؤ کرے، اس کی دلجوئی کی کوشش کرے، اس کو گالی نہ دے اور دیگر نفرت پیدا کرنے والے الفاظ جیسے" اپنے باپ سے کہو کہ آپ کو اپنے گھر لے جاؤ وغیرہ" ہرگز استعمال نہ کرے، نیز اپنےکاروبارکو خود سنبھالے اور بیوی کو صرف گھریلو امور اور بچوں کی تربیت کی ذمہ داری سونپے، تاکہ وہ گھریلو کاموں سے فارغ ہو کر شوہر کی خدمت کر سکے اور شوہر کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر آکر ہر وقت موبائل پر ہی نہ لگے رہیں، بلکہ اپنی اہلیہ کو بھی وقت دیں، اس کے ساتھ اپنے کاموں میں مشورہ کریں، اس کی بات کو اہمیت دیں، اس کو صرفِ نظر نہ کریں، یہ سب چیزیں سیرتِ طیبہ سے ثابت ہیں، اس طرح ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کرنے سے ان شاءاللہ گھریلو اور ازدواجی معاملات درست ہو جائیں گے۔

 کے لیے  زوجین کو مولانا محمد حنیف صاحب کی کتاب "تحفہٴ دلہا اور تحفہٴ دلہن کا مطالعہ کرنا چاہیے، نیز شوہر کے لیے ڈاکٹر آفتاب صاحب کی کتاب آدابِ مباشرت کا مطالعہ بھی بہت مفید ہے۔

حوالہ جات
صحيح مسلم (2/ 1091) دار إحياء التراث العربي – بيروت:
عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فإذا شهد أمرا فليتكلم بخير أو ليسكت، واستوصوا بالنساء، فإن المرأة خلقت من ضلع، وإن أعوج شيء في الضلع أعلاه، إن ذهبت تقيمه كسرته، وإن تركته لم يزل أعوج، استوصوا بالنساء خيرا»
صحيح مسلم (1/ 245) دار إحياء التراث العربي – بيروت:
عن المقدام بن شريح، عن أبيه، عن عائشة قالت: «كنت أشرب وأنا حائض، ثم أناوله النبي صلى الله عليه وسلم فيضع فاه على موضع في، فيشرب، وأتعرق العرق وأنا حائض، ثم أناوله النبي صلى الله عليه وسلم فيضع فاه على موضع في»
سنن الترمذي ت بشار (2/ 458) دار الغرب الإسلامي – بيروت:
عن سليمان بن عمرو بن الأحوص قال: حدثني أبي، أنه شهد حجة الوداع مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحمد الله، وأثنى عليه، وذكر، ووعظ، فذكر في الحديث قصة، فقال: ألا واستوصوا بالنساء خيرا، فإنما هن عوان عندكم، ليس تملكون منهن شيئا غير ذلك، إلا أن يأتين بفاحشة مبينة، فإن فعلن فاهجروهن في المضاجع، واضربوهن ضربا غير مبرح، فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا، ألا إن لكم على نسائكم حقا، ولنسائكم عليكم حقا، فأما حقكم على نسائكم فلا يوطئن فرشكم من تكرهون، ولا يأذن في بيوتكم لمن تكرهون، ألا وحقهن عليكم أن تحسنوا إليهن في كسوتهن وطعامهن. هذا حديث حسن صحيح.
صحیح مسلم/جلد:2/صفحہ:697، باب بيان أن اسم الصدقة يقع على كل نوع من المعروف،ط:دار إحياء التراث العربي – بيروت:
عن أبي ذر أن ناسا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قالوا للنبي صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، ذهب أهل الدثور بالأجور يصلون كما نصلي، ويصومون كما نصوم، ويتصدقون بفضول أموالهم، قال: " أوليس قد جعل الله لكم ما تصدقون؟ إن بكل تسبيحة صدقة، وكل تكبيرة صدقة، وكل تحميدة صدقة، وكل تهليلة صدقة، وأمر بالمعروف صدقة، ونهي عن منكر صدقة، وفي بضع أحدكم صدقة، قالوا: يا رسول الله، أيأتي أحدنا شهوته ويكون له فيها أجر؟ قال: «أرأيتم لو وضعها في حرام أكان عليه فيها وزر؟ فكذلك إذا وضعها في الحلال كان له أجر»."
سنن الترمذي ت بشار (2/ 456) دار الغرب الإسلامي، بيروت:
عن قيس بن طلق، عن أبيه طلق بن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا الرجل دعا زوجته لحاجته فلتأته، وإن كانت على التنور. هذا حديث حسن غريب.
                                                                                صحيح البخاري (4/ 116) دار طوق النجاة:
عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان عليها لعنتها الملائكة حتى تصبح»
رياض الصالحين (ص: 112) دار ابن كثير للطباعة والنشر:
وفي رواية قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: «والذي نفسي بيده ما من رجل يدعو امرأته إلى فراشه فتأبى عليه إلا كان الذي في السماء ساخطا عليها حتى يرضى عنها».
سنن الترمذي ت بشار (2/ 457) دار الغرب الإسلامي، بيروت:
 عن أم سلمة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيما امرأة ماتت وزوجها عنها راض دخلت الجنة. هذا حديث حسن غريب.

 محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

4/جمادى الاخرى 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب