021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
یتیم پوتوں، پوتیوں کی میراث کا مسئلہ اور اولاد کے درمیان میراث کی تقسیم
78370میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

حاجی محمد اعظم صاحب کے دو بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں۔ ایک بیٹے ڈاکٹر امان اللہ کا انتقال اپنے والد حاجی محمد اعظم کی زندگی میں ہوگیا۔ اس کے بعد حاجی محمد اعظم اللہ کو پیارے ہوگئے۔ حاجی محمد اعظم نے زندگی میں اپنی جائیداد اولاد میں تقسیم نہیں کی تھی۔ اب ان کی اولاد میں ایک بیٹا (حاجی احسان اللہ) اور چھ بیٹیاں (فوزیہ، صابرہ، یاسمین، نسرین، طاہرہ اور ساجدہ) زندہ ہیں۔  

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ حاجی محمد اعظم مرحوم کے انتقال کے وقت اس کی اہلیہ،  والدین، دادا، دادی اور نانی میں سے کوئی زندہ نہیں تھا۔

(1)۔۔۔ پہلا سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر امان اللہ جو اپنے والد سے پہلے فوت ہوئے تھے، اس کی اولاد کو اپنے دادا کی میراث میں حصہ ملے گا یا نہیں؟

 (2)۔۔۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ حاجی محمد اعظم مرحوم کے ان ورثا میں میراث کیسے تقسیم ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔ جب حاجی محمد اعظم مرحوم کا بیٹا اور بیٹیاں موجود ہیں تو ڈاکٹر امان اللہ (جس کا انتقال اپنے والد کی زندگی میں ہوا تھا) کی اولاد کو اپنے دادا کی میراث میں حصہ نہیں ملے گا، وہ حاجی محمد اعظم مرحوم کے ورثا میں شامل نہیں۔ البتہ اگر حاجی محمد اعظم مرحوم کا زندہ بیٹا اور بیٹیاں اپنی رضامندی سے اپنے بھتیجوں اور بھتیجیوں کو کچھ حصہ دیں تو یہ ان کے لیے اجر وثواب کا باعث ہوگا، صلہ رحمی کا تقاضا بھی یہی ہے۔

اگر ڈاکٹر امان اللہ کے بچوں کے پاس اپنے نان نفقہ کا کوئی انتظام نہ ہو تو ان کا نان نفقہ ان کے ذو رحم محرم رشتہ داروں پر حسبِ ترتیب واجب ہوگا، جس کی تفصیل بوقتِ ضرورت صورتِ حال کی وضاحت کر کے معلوم کی جاسکتی ہے۔     

(2)۔۔۔ حاجی محمد اعظم مرحوم نے انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں نقدی، سونا، چاندی، جائیداد، مکانات، کاروبار غرض جو کچھ چھوٹا، بڑا ساز و سامان چھوڑا ہے، یا اگر کسی کے ذمہ ان کا قرض تھا، تو وہ سب اس کا ترکہ یعنی میراث ہے۔ اس میں سے سب سے پہلے اس کی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں، البتہ اگر یہ اخراجات کسی نے بطورِ احسان اٹھائے ہوں تو پھر انہیں ترکہ سے نہیں نکالا جائے گا۔ اس کے بعد دیکھا جائے اگر اس کے ذمے کسی کا قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے۔ اس کے بعد اگر اس نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی ترکہ کی حد تک اس کو پورا کیا جائے۔ اس کے بعد جو کچھ بچ جائے، اس کو کل آٹھ (8) حصوں میں تقسیم کر کے بیٹے (حاجی احسان اللہ) کو دو (2) حصے اور چھ بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ایک، ایک (1، 1) حصہ دیدیں۔

حوالہ جات
القرآن الکریم، [النساء: 11]:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ}.  
صحيح مسلم (3/ 1233):
حدثنا عبد الأعلى بن حماد (وهو النرسي) حدثنا وهيب عن بن طاوس عن أبيه عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألحقوا الفرائض بأهلها، فما بقي فهو لأولى رجل ذكر.
تکلمة فتح الملهم بشرح صحیح الإمام مسلم (2/19):
مسألة میراث الحفید عند وجود الابن:
إن حدیث الباب من أقوی الدلائل علی أن الحفید لایرث مع الابن؛ لأن الابن عند وجوده أولی رجل ذکر، فیحوز المال، ویحرم الحفید لکونه أبعد بالنسبة إلیه. وهذا ما أجمعت علیه الأمة الإسلامیة منذ القرون الأولی، لم یختلف فیه أحد من الفقهاء، حتی ظهرت في بلادنا طائفة مستغربة تحکم رأیها في جمیع مسائل الشریعة، فشذت عن الأمة في کثیر من المسائل، منها هذه المسألة……………….. الخ
المبسوط للسرخسي (5/ 377):
والحاصل أن بعد الأب النفقة على كل ذي رحم محرم إذا كانوا أغنياء على حسب الميراث، ومن كان منهم فقيرا لم يجبر على النفقة، فإن تطوع بشيء فهو أفضل.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  8/جمادی الاولیٰ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب