021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دین کی ادائیگی کے لیے مدیون کا پلاٹ بیچنا پڑے تو بروکر کا کمیشن کس پر لازم ہوگا؟
78399وکیل بنانے کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

ساڑھے چار سال پہلے حامد نے ترغیبا نعیم کو دکانیں اپنے دوست فراز بروکر کے ذریعے دلوائیں کہ میں ڈھائی ماہ بعد دوبارہ دس لاکھ متوقع نفع کے ساتھ فروخت کروادوں گا اور فراز بروکر نے بذریعہ حامد، نعیم سے دکانیں دلوانے کی بروکری ایک لاکھ روپے اسی وقت وصول کرلی۔   

درمیان میں یہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے مسئلہ معلوم کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ شروع میں نعیم کا زبانی مطالبہ رہا کہ دکانیں جلد از جلد مطلوبہ وقت میں فروخت کروائیں، مجھے پیسوں کی ضرورت ہے۔ بعد میں حامد نے نعیم کو بتلایا کہ تمہاری دونوں دکانیں ایک کروڑ چھبیس لاکھ میں فروخت کی گئی ہیں، سودا ہوگیا ہے، مگر بلڈر ایک سال بعد کا چیک دے رہا ہے۔ نعیم نے چیک وصول کر کے ایک سال انتظار کرلیا۔ مگر ایک سال بعد چیک پاس ہونے کی تاریخ سے چند دن پہلے حامد نے نعیم کو پھر اطلاع دی کہ یہ چیک پاس نہیں ہوگا۔ پھر نعیم کے اصرار پر حامد نے یہ بات کی کہ فراز بروکر اور میں کوشش کر رہے ہیں، بلڈر نے کہا ہے کہ اس کا ایک پلاٹ ہے جس کی مالیت ایک کروڑ چھبیس لاکھ سے زیادہ ہے، اس کو فروخت کر کےنعیم کے پیسے جلد ادا کردیں۔ نعیم ہامی بھرلی۔ حامد نے پھر بھرپور یقین دلایا کہ آگے رمضان آرہا ہے، اس ماہ میں پراپرٹی کا کام نہیں ہوتا، عید الفطر کے بعد فروخت کر کے نعیم کی ادائیگی ہوجائے گی۔ پھر حامد نے نعیم کو خوش خبری دی کہ بلڈر کے پلاٹ کا سودا فراز بروکر نے کرلیا ہے، اب نعیم کی ادائیگی بالکل قریب ہے، جبکہ نعیم کا بھی مطالبہ رہا کہ جتنی جلدی ہوسکے اور جتنے میں فروخت ہوسکے، اس کو بیچ دو اور میرے پیسے ادا کرو، ڈالر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ واضح رہے کہ حامد نے نعیم کو یہ بھی پیشکش کی تھی کہ تم چاہو تو یہ پلاٹ اپنے نام کرلو، مگر نعیم نے انکار کردیا کہ مجھے میرے پیسے دیدو، مزید انتظار نہیں کرسکتا۔ پھر حامد نے یہ اطلاع دی کہ بلڈر کا پلاٹ فراز بروکر نے غالبا تین کروڑ اور کچھ لاکھ (نعیم کو یاد نہیں حامد نے اوپر کتنے لاکھ بتلائے) میں فروخت کردیا ہے، اب فلاں تاریخ کو ان شاء اللہ ادائیگی ہوجائے گی۔ پھر حامد نے حقیقتا پہلے مرحلہ پر حامد نے نعیم کو 74 لاکھ روپے دیدئیے۔ کچھ عرصہ بعد حامد نے مزید 33 لاکھ دیدئیے۔ اور باقی حساب یہ بتلایا کہ اب تمہارے باقی پیسے 18 لاکھ ہیں، وہ بھی چند دنوں میں مل جائیں گے، نعیم نے وضاحت کی کہ 18 لاکھ نہیں، بلکہ 19 لاکھ باقی ہیں جو مجھے ملنے ہیں۔ اب یہاں نعیم اور حامد کے درمیان نزاع ہوا۔ ان دونوں کا موقف درج ذیل ہے۔

نعیم کا موقف:  

حامد نے جب مجھے کہا کہ تم بلڈر کا یہ پلاٹ خرید لو تو میں نے جوابا اس سے کہا کہ تم جتنی جلدی ہوسکے اور جتنے میں یہ پلاٹ بک رہا ہو، بیچ کر میرے پیسے میرے حوالہ کردو؛ کیونکہ ڈالر تیزی سے بڑھ رہا ہے، ویسے بھی بہت دیر ہوگئی ہے، میں یہ پراپرٹی خرید کر مزید انتظار نہیں کرسکتا۔

حامد کا موقف: 

جب میں نے نعیم کو بلڈر کا پلاٹ خریدنے کی ترغیب دی تو اس نے کہا یہ پلاٹ فروخت کر کے میرے پیسے واپس کرو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ نعیم نے پلاٹ خریدنے کی ہامی بھرلی تھی اور یہ پلاٹ نعیم کا ہوگیا تھا۔ لہٰذا اس پلاٹ کو فروخت کر کے فراز بروکر نے اپنی بروکری ایک لاکھ روپے کاٹ لی، اب نعیم کو ایک لاکھ روپے کم ملیں گے، یعنی انیس (19) کے بجائے اٹھارہ (18) لاکھ روپے ملیں گے۔

نعیم کا جوابی موقف: 

جبکہ نعیم کہتا ہے کہ جب میری دکانیں فروخت ہونے کے بعد مجھے پوری رقم (ایک کروڑ چھببیس لاکھ)  کا چیک دیا گیا تو سودا مکمل ہوگیا۔ اب اگر (میری اس رقم کی ادائیگی کے لیے بلڈر کا پلاٹ بیچا گیا تو وہ) بلڈر کا پلاٹ بکا، میرے پیسے کیوں کاٹے جا رہے ہیں؟ آج تک میرے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ یہ پلاٹ میں نے خرید لیا ہے، کیونکہ ایک تو اس پلاٹ کی قیمت میری رقم سے کہیں زیادہ ہے، دوسرا میں نے حامد سے کبھی یہ معاملات طے ہی نہیں کیے کہ یہ پلاٹ اتنے کا ہے، اس میں میرے اتنے پیسے ہیں اور اس کو فروخت کرنے پر فراز بروکر اتنے پیسے کاٹے گا۔ نیز حامد نے مجھے چیک دیتے وقت بھی ایسا بھی کچھ نہیں کہا کہ آگے نیا معاملہ کے تحت تمہاری رقم ملے گی، بلکہ جب نعیم نے حامد سے احتجاجا کہا کہ میرے پیسے کیوں کاٹے جا رہے ہیں؟ تو حامد نے کہا کہ یہ ایک لاکھ روپے میں اپنی طرف سے دیدوں گا۔ میں نے حامد کو یہ بھی مشورہ دیا کہ دونوں متفقہ استفتا میں اپنا اپنا موقف لکھ کر دار الافتاء سے فتویٰ منگوا کر عمل کرتے ہیں، لیکن اس نے کہا کہ دار الافتاء تو جب جائیں جب کوئی مسئلہ ہو!

سوال یہ ہے کہ نعیم اور حامد میں سے کس کی بات درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل درست ہے تو نعیم اور حامد میں سے نعیم کا موقف درست ہے۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جب نعیم کی دو دکانیں بلڈر کو ایک کروڑ چھبیس لاکھ میں بیچ دی گئی تھیں تو بلڈر کے ذمے نعیم کو پورے ایک کروڑ چھبیس لاکھ روپے دینا لازم تھا۔ اگر اس رقم کی ادائیگی کے لیے بلڈر (جس نے نعیم کی دکانیں خریدی تھیں) نے حامد اور فراز کو اپنا پلاٹ بیچنے کا کہا اور انہوں نے بلڈر کی طرف سے اس کا پلاٹ بیچا ہے تو انہیں بلڈر سے کمیشن اور بروکری کی بات کرنی چاہیے تھی کہ ہم آپ کی رقم کی ادائیگی کے لیے آپ کا پلاٹ فروخت کر رہے ہیں، اس پر ہم آپ سے اتنا کمیشن لیں گے، اب بھی اگر انہوں نے مطالبہ کرنا ہے تو بلڈر ہی سے مطالبہ کریں۔ نعیم پر ان کا کوئی حق نہیں بنتا۔ حامد کا یہ کہنا درست نہیں کہ جب نعیم نے مجھ سے بلڈر کا پلاٹ فروخت کر کے اپنی رقم کی ادائیگی کا کہا تو گویا اس نے یہ پلاٹ خریدا۔ نعیم کی اس بات سے نہ وہ پلاٹ نعیم کا ہوا تھا اور نہ ہی حامد اور فراز، نعیم کے وکیل بن گئے تھے کہ اب وہ دونوں اس سے بروکری کا مطالبہ کرسکیں۔ لہٰذا اب حامد پر (اس بلڈر کے وکیل ہونے کی حیثیت سے) لازم ہے کہ نعیم کو اس کی بقایا انیس (19) لاکھ روپے پورے پورے ادا کرے۔ ایک لاکھ روپے کم دینا جائز نہیں، سخت حرام ہے جس سے بچنا لازم اور ضروری ہے۔  

حوالہ جات
.....

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  10/جمادی الاولیٰ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب