021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسابقہ قرآن میں فیس لےکرانعام دینا
78298سود اور جوے کے مسائلسود اورجوا کے متفرق احکام

سوال

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کےتحت ایک مسابقہ قرآنی کاانعقادکیاجارہاہے،جس میں ہرشریک سےرجسٹریشن فیس کےعنوان سے500روپےوصول کیےجارہےہیں،بعدمیں نمایاں پوزیشن حاصل کرنےوالےشرکاءکومخصوص انعامات سےنوازاجائےگا،وضاحت طلب امریہ ہےکہ اس میں قماراورغررکاعنصرتوموجودنہیں ہے؟مارکیٹ میں رائج ایسی بہت سی انعامی اسکیموں کویہ کہہ کرناجائز کہا جاتا ہے کہ ان میں قماریاغررکی علت موجود ہے۔بینوا توجروا

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر یہ رقم  مسابقہ کے انعقاد کرنے پر آنے والے اخراجات کی مد میں لی جاتی ہو تویہ معاملہ جائز ہے اوراس میں ربوا، قمار یا غرر کا پہلو نہیں اور ایسی صورت میں انعام کی رقم دیناانتظامیہ کا صوابدیدی اختیار ہوگا،یعنی جیتنے والے کاحق لازم نہیں ہوگا  اوراگر انعام رقم جمع کرنے کے ساتھ مشروط ہو اور جیتنے والے کا لازمی حق ہو تو ایسا انعام قمار ہونے کی وجہ سے  ناجائز ہے،البتہ اگر اس صورت میں اس مسابقہ میں کم از کم کسی بھی ایک ایسے فرد کو شامل کر لیا جائے جو رقم جمع کرائے بغیر بھی جیتنے کی صورت میں انعام کا اہل بن سکتا ہوتو یہ معاملہ جائز ہوجائے اور اس میں غرر اور قمار کا مفہوم ختم ہوجائے گا،اس لیے کہ اصل انعام کی رقم عوض کی رقم کے ساتھ مشروط ہونے کی وجہ سےقمار اور سودہونے کی بنیادپرناجائز ہوتا ہے،جبکہ انعام کی رقم عوض کے ساتھ مشروط نہ ہو(جیساکہ تیسرے بندے کو داخل کرنے کی صورت ہے۔) توایسا انعام جائزہوتا ہے۔عام طورپر بازاروں میں اس طرح کی اسکیمیں دو طرفہ معاوضہ پر مبنی ہوتی ہیں اور ان پر جیتنے والے کو مطالبہ کا حق دیا جاتا ہے،اس لیے وہ ناجائز ہیں۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (5/ 324)
السباق يجوز في أربعة أشياء: في الخف يعني البعير، وفي الحافر يعني الفرس والبغل، وفي النصل يعني الرمي، وفي المشي بالأقدام يعني العدو، وإنما يجوز ذلك إن كان البدل معلوما في جانب واحد بأن قال: إن سبقتني فلك كذا، وإن سبقتك لا شيء لي عليك أو على القلب، أما إذا كان البدل من الجانبين فهو قمار حرام إلا إذا أدخلا محللا بينهما فقال كل واحد منهما: إن سبقتني فلك كذا، وإن سبقتك فلي كذا، وإن سبق الثالث لا شيء له، والمراد من الجواز الحل لا الاستحقاق، كذا في الخلاصة. .
ثم إذا كان المال مشروطا من الجانبين فأدخلا بينهما ثالثا وقالا للثالث: إن سبقتنا فالمالان لك، وإن سبقناك فلا شيء لنا يجوز استحسانا، ثم إذا أدخلا ثالثا، فإن سبقهما الثالث استحق المالين، وإن سبقا الثالث إن سبقاه معا فلا شيء لواحد منهما على صاحبه، وإن سبقاه على التعاقب فالذي سبق صاحبه يستحق المال على صاحبه وصاحبه لا يستحق المال عليه، قال محمد - رحمه الله تعالى - في الكتاب: إدخال الثالث إنما يكون حيلة للجواز إذا كان الثالث يتوهم منه أن يكون سابقا ومسبوقا، فأما إذا كان يتيقن أنه يسبقهما لا محالة أو يتيقن أنه يصير مسبوقا فلا يجوز، وحكي عن الشيخ الإمام الجليل أبي بكر محمد بن الفضل أنه إذا وقع الاختلاف بين المتفقهين في مسألة وأرادا الرجوع إلى الأستاذ وشرط أحدهما لصاحبه أنه إن كان الجواب كما قلت أعطيك كذا، وإن كان الجواب كما قلت فلا آخذ منك شيئا ينبغي أن يجوز على قياس الاستباق على الأفراس، وكذلك إذا قال واحد من المتفقهة لمثله: تعال حتى نطارح المسائل، فإن أصبت وأخطأت أعطيتك كذا، وإن أصبت وأخطأت فلا آخذ منك شيئا يجب أن يجوز وبه أخذ الشيخ الإمام الأجل شمس الأئمة الحلواني، كذا في المحيط.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

 یکم جمادی الاولی۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب