021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک کاروباری معاہدہ کی شرعی حیثیت اوربعض متعلقہ احکام
78314اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلملازمت کے احکام

سوال

عرض ہے کہ بندہ ایک اکیڈمی شروع کرنا چاہتا ہے جس میں سکلز ڈیویلپمنٹ اور دیگر تعلیمی سلسلہ جات کا آغاز کیا جائے گا۔ اس کو کرنے کے لئے مجھے جو جگہ یا سازوسامان کی ضرورت ہے وہ کوئی دوسرا شخص مہیا کرے گا اور میں اس جگہ پر ان کے سامان اور دیگر سہولیات کو استعمال کرتے ہوئے ایک اکیڈمی کا آغاز کرونگا ۔ اس کی مینجمنٹ اور اس کو چلانے کے تمام تر ضروری اقدامات کروں گا۔ نفع نقصان میں دونوں کی شراکت ہوگی ۔ جو کہ جگہ کی نوعیت ، سہولیات کی فراہمی اور آپ کی رہنمائی کے ساتھ فیصد کے اعتبار سے طے کی جائے گی۔ اس سلسلہ میں چند سوالات ہیں جو کہ عرض کئے دیتا ہوں ۔آپ اپنے علم و حکمت اور ذاتی تجربہ سے میری رہنمائی فرما دیں ۔

 1۔ درج بالا نوعیت کی شراکت داری کو شرعی اعتبار سے کیا کہتے ہیں اور اس کو کرنے کا جائز طریقہ کار کیا ہے ؟

2۔ اس نوعیت کے کام میں جگہ فراہم کرنے والے سے کن کن سہولیات کی ڈیمانڈ کی جائے ؟

 3۔ کام شروع کر نے کے بعد بجلی کا بل اور چیزوں کی  منٹینس کس کے ذمہ ہوگی ؟

 4۔ تعلیمی سلسلہ جات کے علاوہ اگر بندہ وہاں بیٹھ کرفارغ اوقات میں اس جگہ کو استعمال میں لاتے ہوئے کوئی اور ذاتی کام سر انجام دیتا ہے تو اس کا کیا حکم ہوگا؟

 5۔ اگر وہ ذاتی کام کاروباری نوعیت کا ہے تو کیا اس کے نفع میں بھی تقسیم ہوگی ؟

 6۔ اس میں حساب کتاب کا معاملہ کتنے عرصہ کے بعد کیا جائے گا؟

 7۔ اس قسم کے شراکت کے لئے کیا کیا ضروری معاملات ہیں جو کہ پہلے طے کر لینے چاہئے ؟

 8۔ نفع نقصان کی تقسیم فیصد کے اعتبار سے کیسے کی جاتی ہے اوریہ کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کتنی ہوتی ہے ؟

 9۔ معاہدہ کی مدت کیا ہونی چاہئے ؟اور یہ کیسے ترتیب دیا جائے ؟

 10۔ اگر تمام تر کوشش کے باوجود اکیڈمی نہیں چل پاتی تو پھر اس کو ختم کیسے کیا جائے گا؟اور اس بات کو معاہد ہ میں کیسے طے کیا جائے گا؟ آپ سے گزارش ہے کہ ان سوالوں کے جوابات اپنی علم و حکمت و بصیرت اور ذاتی تجربہ کی روشنی میں عنایت فرمائیں اور معاہد ہ کو ترتیب دینے کے لئے جوشقیں ہونی چاہئے اس کے بارے میں رہنمائی فرما دیں اور معاہدہ ترتیب دینے میں مدد فراہم کریں ،تاکہ بندہ کو اور دوسرے ساتھی کو مستقبل میں کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ اللہ آپ کو دنیا و آخرت کی تمام کامیابیوں سے ہمکنار کرے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 ۱۔اگرمعاہدے کی رو سے اثاثہ جات فراہم کرنے والے(مالک) کا انتظامی معاملہ میں کوئی عمل دخل نہ ہوتویہ معاملہ  شرعی ضابطہ کے مطابق استیجار کے طریقے پر بھی ہوسکتا ہے، جس میں جو شخص  اثاثہ جات پیش کررہا ہے وہ دوسرے کی خدمات  اجرت پرحاصل کرے۔ اس میں کام یا وقت دونوں میں سے کسی ایک کی تعیین کی صورت میں کام کرنے والے کومتعین اجرت ملے گی اور نفع اور نقصان سارا  کا سارااصل مالک کا ہی ہوگا، الا یہ کہ اجیر کی غفلت ثابت ہوجائے تو وہ نقصان کا ضامن ہوگا۔لہذاایسے میں سؤال میں پوچھا گیا معاملہ نفع ونقصان میں شراکت کی بنیاد پر درست نہیں ہوگا،بلکہ مذکورہ طریقہ پر اجارہ کا معاملہ کرنا درست ہوگا۔

صورت مسؤلہ میں اگرسرمایہ اوراثاثہ جات فراہم کرنے والا بھی کم از کم معاہدہ کی رو سے اس طرح کام میں شریک ہو کہ طلبہ کو داخلہ  دینے  اور مختلف کورسز کا انعقاد کرنے کے سلسلےمیں فیصلہ سازی  میں اس کوبھی عمل دخل کی اجازت ہو،اگرچہ عملی طور پر آسانی ونظم وضبط کےلحاظ سےیہ کام  منتظم کےحوالے ہوتویہ معاملہ شرکت اعمال کے تحت درست ہوگا،ایسے میں نفع ونقصان میں شرکت کی بنیاد کسی بھی نسبت سےمعاملہ کرنادرست ہوگا۔مگر ایسی صورت میں کام کے لیے درکار اثاثہ جات وغیرہ اخراجات دونوں شریکوں پر ان کی شرکت کے تناسب سے لازم ہونگے، لہذا اگر اثاثہ جات سب ایک شریک نے فراہم کئے ہوں تو اثاثہ جات کےمالک کے لیے اپنے اثاثہ جات کا الگ سے کرایہ  لینا بھی جائز ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 70)

(ولا يضمن ما هلك في يده أو بعمله) كتخريق الثوب من دقه إلا إذا تعمد الفساد فيضمن كالمودع.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 70)

(قوله ولا يضمن ما هلك في يده) أي بغير صنعه بالإجماع، وقوله أو بعمله: أي المأذون فيه، فإن أمره بعمل فعمل غيره ضمن ما تولد منه تتارخانية. وفيها: وإذا ساق الراع الغنم فنطح أو وطئ بعضها بعضا من سوقه،

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 321)

(و) إما (تقبل) وتسمى شركة صنائع وأعمال وأبدان (إن اتفق) صانعان (خياطان أو خياط وصباغ)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 322)

فلا يلزم اتحاد صنعة ومكان (على أن يتقبلا الأعمال) التي يمكن استحقاقها

ومنه تعليم كتابة وقرآن وفقه على المفتى به، بخلاف شركة دلالين ومغنين وشهود محاكم وقراء مجالس وتعازووعاظ، وسؤال لأن التوكيل بالسؤال لا يصح قنية وأشباه (ويكون الكسب بينهما) على ما شرطا مطلقا في الأصح لأنه ليس بربح بل بدل عمل فصح تقويمه (وكل ما تقبله أحدهما يلزمهما) وعلى هذا الأصل (فيطالب كل واحد منهما بالعمل ويطالب) كل منهما (بالأجر ويبرأ) دافعها (بالدفع إليه) أي إلى أحدهما (والحاصل من) أجر (عمل أحدهما بينهما على الشرط) ولو الآخر مريضا أو مسافرا أو امتنع عمدا بلا عذر لأن الشرط مطلق العمل لا عمل القابل: ألا ترى أن القصار لو استعان بغيره أو استأجره استحق الأجر بزازية

۲و۷۔ اس بارے میں اس طرح کے اداروں کے ماہرین سے رجوع کیا جاسکتا ہے، البتہ غیر ضروری مواد کا مطالبہ عقد کی رو سے درست نہیں۔

۳و۶۔یہ معاملہ یومیہ،ماہانہ اور سالانہ ہر بنیاد پر کیا جاسکتا ہے،لہذا تعیین کی صورت میں یومیہ ہفتہ وار،سالانہ اور ماہانہ یامتعین نہ کرنے کی صورت میں عرف کے مطابق کسی بھی وقت کو مقرر کیا جاسکتا ہے۔البتہ ماہانہ متوقع اخراجات مثلا مختلف بلز وغیرہ کی ادائیگی ماہانہ بنیاد پر ہی الگ ہونگے ۔

۴و۵۔اگر وقت مقرر میں حاضری پر کام کرنے کا معاملہ ہوا ہے تواس وقت میں ذاتی کام نہیں کرسکتا اور اگر معاملہ کسی متعین نوعیت کے کام کا ہوا ہو اور وقت طے نہ ہو ایسی صورت میں اس وقت میں ادارہ میں اپنا ذاتی کام بھی کرسکتا ہے،لیکن ادارہ کی اشیاء کے بلا اجازت استعمال کی صورت میں توبہ واستغفار کے علاوہ  ان کی اجرت مثل بھی لازم ہوگی اور اجرت مثل میں معیار مارکیٹ ریٹ ہوگا کہ اس جیسی جگہ  کو استعمال کرنے کا ماہانہ  کرایہ کتنا ہے اس کو دنوں اور گھنٹوں پر تقسیم کرکے ذاتی کام کی اجرت مثل معلوم کی جاسکتی ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 12)

قلت: وهل مال اليتيم والمعد للاستغلال والمستأجر في البيع وفاء على ما أفتى به علماء الروم كذلك؟ محل تردد فليراجع،

 (قوله والمستأجر في البيع وفاء) بفتح الجيم، يعني إذا استأجر من المشتري ما باعه منه وفاء بعد قبض المبيع صح كما مر قبيل الكفالة.

قال الشارح هناك: قلت وعليه فلو مضت المدة وبقي في يده، فأفتى علماء الروم بلزوم أجر المثل.

واعترضه شيخ مشايخنا السائحاني بأن الأملاك الحقيقية لم تجب الأجرة بالتمكن في فاسد إجارتها فكيف هذا اهـ.

وقال ط: وفيه أنه إجارة أصلا بعد انقضاء المدة فتدبر اهـ.

أقول: ولا سيما على المعتمد من أنه حكم الرهن فإنه لا يلزمه الأجر ولو استوفى المنفعة في المدة ولو بعد القبض كما في النهاية.

وأفتى به في الخيرية والحامدية من كتاب الرهن، خلافا لما قدمه الشارح عن الجلبي قبيل الكفالة.

وقال في البزازية: من جعله فاسدا قال لا تصح الإجارة ولا يجب شيء، وكذا من جعله رهنا، ومن جوزه جوز الإجارة من البائع وغيره وأوجب الأجر اهـ.

۸۔سرمایہ اور محنت کی پیمائش اور تحدید وقت یا کام کے اعتبارسے کی جائے گی ،البتہ  اجارہ ہونے کی صورت میں نفع ونقصان سارا کا سارا مالک کاہوگا،اس میں اجیرشریک نہیں ہوگا اور شرکت اعمال ہونے کی صورت میں معاہدہ کے مطابق مشترکہ طور پر تقسیم ہوگا۔

۹۔نمبر۴و ۵ میں بیان ہوچکا۔

۱۰۔ اس کا جواب انتظامی امور سے متعلق ہے ،لہذااسےاس کام کے ادارتی وانتظامی ماہرین سے معلوم کر کے ایک تفصیلی معاہدہ کی صورت میں لکھ کر مفتیان کرام سےاس کی شرعی حیثیت معلوم کی جاسکتی ہے۔

مزیدآپ اپنےمعاملےکےبارےمیں ایس سی ایس سےمشورہ لیں توبہترہے،وہ آپ کوشرعی اصولوں کےمطابق باقاعدہ معاہدہ بناکردےسکیں گے۔

(اس کےلیےآپ اس نمبرپرمحمدزمان سےرابطہ کرسکتے ہیں:2000177-0323)

حوالہ جات
۔۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲جمادی الاولی۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب