021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایزی پیسہ کے "ون روپی” گیم (Rs.1game) کا حکم
78603خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

آج کل ایزی پیسہ کی موبائل ایپ پر ایک آفر دی جاتی ہے جس کا نام "Rs. 1 game" ہے۔ اس میں کوئی سمارٹ فون، ایل ای ڈی یا اس طرح کی کوئی اور قیمتی چیز آفر کی جاتی ہے۔ جو جو اس آفر میں حصہ لیتا ہے، اس کے اکاؤنٹ سے ایک روپیہ کاٹ لیا جاتا ہے۔ پھر کچھ دن کے بعد مقررہ دن پر قرعہ اندازی ہوتی ہے جس میں آفر میں حصہ لینے والوں میں سے کسی ایک کا نام نکلتا ہے، جس کا نام نکلتا ہے اس کو وہ چیز ایک روپیہ میں بیچ دی جاتی ہے، اور باقی تمام لوگوں کو ان کا ایک ایک روپیہ واپس کردیا جاتا ہے۔

کیا یہ طریقہ شرعا جائز ہے؟ اس میں حصہ لینا اور اس کے ذریعے نام نکلنے پر وہ چیز ایک روپیہ میں لینا جائز ہے یا نہیں؟  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ایزی پیسہ ایپ پر "ون روپی گیم" کا جائزہ لینے سے معلوم ہوا کہ کمپنی کسی قیمتی چیز (جس کی قیمت عام طور پر ایک لاکھ سے دو لاکھ ہوتی ہے، اس سے کم وبیش بھی ہوسکتی ہے) کو قرعہ اندازی کے ذریعے صرف ایک روپیہ میں خریدنے کا آفر دیتی ہے، جو لوگ قرعہ اندازی میں شریک ہونا چاہتے ہیں وہ اس چیز کی تصویر (جو ایزی پیسہ ایپ پر ہوتی ہے، اس کے نیچے چیز کی اصل مالیت اور اس کے نیچے "Buy for Rs.1" لکھا ہوتا ہے، یعنی یہ چیز ایک روپیہ میں خریدیں) پر کلک کر کے اپنے اکاؤنٹ سے ایک روپیہ ایزی پیسہ کمپنی کو بھیج دیتے ہیں تو وہاں "Purchased" یعنی یہ چیز آپ نے خرید لی، لکھا ہوا آجاتا ہے۔ پھر ایزی پیسہ کمپنی چند دن (عام طور سے دس دن) بعد قرعہ اندازی کے ذریعے خریدار (جس کو Winner یعنی آفر جیتنے والا کہا جاتا ہے) کے نام کا اعلان کرلیتی ہے اور اس کو ایک روپیہ کے بدلے میں وہ چیز بیچ دیدیتی ہے، جبکہ باقی لوگوں کو ان کا ایک ایک روپیہ واپس کردیا جاتا ہے۔ عام طور سے قرعہ اندازی میں حصہ لینے والے سات آٹھ لاکھ سے اوپر ہوتے ہیں۔ جب تک قرعہ اندازی نہیں ہوتی، لوگوں کی یہ رقم ایزی پیسہ کمپنی کے پاس ہوتی ہے۔   

اس تمہید کی روشنی میں مذکورہ گیم، اس میں حصہ لینا اور جیتنے کی صورت میں وہ چیز لینا شرعا جائز نہیں،

جس کی تفصیل درجِ ذیل ہے:

(1)۔۔۔ کمپنی جس چیز کی پیشکش کرتی ہے، اس کی تصویر کے نیچے لکھے ہوئے الفاظ  "Buy for Rs.1" یعنی یہ چیز ایک روپیہ میں خریدیں، ایزی پیسہ کمپنی کی طرف سے ایجاب (Offer) ہے، اور اس پر کلک کرنا  قبول (Acceptance) ہے، چنانچہ قرعہ اندازی میں حصہ لینے والا شخص جب اس پر کلک کر کے ایک روپیہ ادا کرتا ہے تو ایپ کے مطابق بیع )خرید وفروخت(ہوجاتی ہے جس کو Purchased کے الفاظ سے یقینی بنادیا جاتا ہے، لیکن کمپنی ہر شخص کے ساتھ جو بیع کرتی ہے وہ ایک اور کام یعنی قرعہ اندازی میں نام نکلنے پر موقوف اور معلق ہوتی ہے۔ اور خرید و فروخت کے معاملے کو کسی دوسرے کام یا واقعے پر معلق کرنا جائز نہیں، فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اس کو "قمار" یعنی جوا قرار دیا ہے۔

(2)۔۔۔ اصل میں یہاں خرید وفروخت کا معاملہ مقصود ہی نہیں ہوتا، اگر وہ مقصود ہوتا تو اس کے لیے ایزی پیسہ کمپنی کے پاس وہ چیز (جس کی آفر کی جا رہی ہو) اتنی مقدار میں ہونا لازم ہے جتنی مقدار میں لوگ اس گیم میں حصہ لیتے ہوں، حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔

(3)۔۔۔ نیز جب خرید وفروخت کا معاملہ ایک دفعہ ہوجائے تو پھر کوئی ایک فریق دوسرے کی مرضی کے بغیر اس کو ختم نہیں کر سکتا، صورتِ مسئولہ میں جن افراد کے نام نہیں نکلتے، ایزی پیسہ کمپنی ان کے ساتھ معاملہ یک طرفہ طور پر ختم کر کے ان کو ان کا ایک ایک روپیہ بھیج دیتا ہے، جو کہ بیع کے اصول کے خلاف ہے۔

لہٰذا یہ گیم محض "قمار" یعنی جوا ہے، خرید وفروخت کو بیچ میں مصنوعی حیلے کے طور پر ڈالا گیا ہے، حقیقت میں ہر آدمی اپنا ایک ایک روپیہ داؤ پر لگا رہا ہے، اور قمار شرعا جائز نہیں، حرام ہے؛ لہٰذا اس گیم میں حصہ لینے سے اجتناب کرنا لازم ہے۔ کمپنی کے لیے بھی ایسی گیم متعارف کرانا جائز نہیں، بلکہ حرام ہے۔ کمپنی کی شرعی ذمہ داری ہے کہ تمام معاملات شریعت کی روشنی میں سر انجام دے، ناجائز معاملات سے اجتناب کرے، اور جب بھی کوئی گیم یا معاملہ متعارف کرانا چاہے تو پہلے کسی مستند دار الافتاء کے سامنے اس کی پوری تفصیلات رکھ کر اس کی شرعی حیثیت معلوم کرلیا کرے، پھر دار الافتاء کی بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق کام کرے۔

حوالہ جات
تبيين الحقائق (4/ 131):
أصل آخر: أن التعليق بالشرط المحض لا يجوز في التمليكات؛ لأنه من باب القمار، وأنه منهي عنه.
الدر المختار (5/ 256):
( وما لا تصح ) إضافته ( إلى المستقبل ) عشرة ( البيع وإجازته وفسخه والقسمة والشركة والهبة والنكاح والرجعة والصلح عن مال والإبراء عن الدين )؛ لأنها تمليكات للحال، فلا تضاف للاستقبال، كما لا تعلق بالشرط؛ لما فيه من القمار.
رد المحتار (5/ 257):
قوله ( لما فيه من القمار ) هو المراهنة كما في القاموس، وفيه: المراهنة والرهان: المخاطرة.  وحاصله أنه تمليك على سبيل المخاطرة، ولما كانت هذه تمليكات للحال لم يصح تعليقها بالخطر لوجود معنى القمار.
الدر المختار (5/ 66)
( والملامسة ) للسلعة ( والمنابذة ) أي نبذها للمشتري ( وإلقاء الحجر ) عليها، وهي من بيوع الجاهلية، فنهى عنها كلها،  عيني، لوجود القمار، فكانت فاسدة إن سبق ذكر الثمن،  بحر.  قوله ( إن سبق ذكر الثمن ) عبارة البحر: ولا بد في هذه البيوع أن يسبق الكلام منهما على الثمن ا ه أي لتكون علة الفساد ما ذكر، وإلا كان الفساد لعدم ذكر الثمن إن سكتا عنه؛ لما مر أن البيع مع نفي الثمن باطل، ومع السكوت عنه فاسد.
رد المحتار (5/ 66):
    قوله ( لوجود القمار ) أي بسبب تعليق التمليك بأحد هذه الأفعال، اه. ح.                     

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  26/جمادی الاولیٰ/1444ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب