021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیع مرابحہ پر مبنی مشترک کاروبار کا حکم
73893خرید و فروخت کے احکاممرابحہ اور تولیہ کا بیان

سوال

ہماری کمپنی چوبیس ممبران پر مشتمل ہے،جو کہ ہر ماہ پانچ ہزار روپیہ مشترکہ کاروبار کے لیے جمع کرواتے ہیں،تاکہ یہ تمام رقم ایک جگہ پر اکھٹی ہو اور پھر اس سے  کاروبار کیا جائے۔ہمارے کاروبار کا طریقہ یہ ہے کہ اگر کسی ممبر کو پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ صدر کے نام ایک درخواست تحریر کرتا ہے۔اس میں جس کوسامان کی ضرورت ہو تو یہ درخواست کمپنی کے بزنس ایڈوائزر کو جاتی ہے۔بزنس ایڈوائزر اس درخواست کو دیکھ کر اگر درخواست کمپنی کے مفاد میں ہے تو اس پر سائن کرکے خزانچی کو بھیج دیتے ہیں۔درخواست دہندہ سے مطلوبہ رقم کا چیک سیکورٹی کے طور پر لے لیتا ہے جو کہ مقررہ معاہدہ پورا ہونے کے بعد خزانچی درخواست دہندہ کو واپس دینے کا پابند ہوتا ہے۔خزانچی چیک وصول کرکے سامان خریدنے کے لیے مطلوبہ رقم فراہم کردیتا ہے۔اس کے بعد سامان خرید کر اس کی رسید جس پر خریدے گئے سامان کی تفصیل،اس پر باقی اخراجات کی تفصیل )مثلا لوڈنگ،ان لوڈنگ رکشا کرایہ اور باقی اخرجات شامل ہوتے ہیں( کمپنی کو مل جاتی ہے کہ یہ سامان کمپنی نے خرید لیا ہے۔اس کے بعد درخواست دہندہ ایڈوائزر سے مطلوبہ سامان  ریٹ میں کمی بیشی کر کے خرید لیتا ہے جو کہ ایک ماہ،دو ماہ،چھ ماہ یا کسی بھی مدت کے لیے ادھار پر ہوتا ہے اور وہ رقم کو طے کیے گئے ٹائم میں واپس دینے کا پابند ہوتا ہے۔ کیا مذکورہ کاروبار جائز ہے؟ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں ایک آسان طریقہ بتائیں جو کہ شرعی لحاظ سے بالکل ٹھیک ہو،جس میں کسی بھی قسم کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت بیع کی ایک خاص قسم ہے،جس کو فقہ اسلامی میں مرابحہ کہا جاتا ہے۔مرابحہ کی تعریف یہ ہے کہ بیچنے والا خریدار کو سامان کی اصل قیمت اور اس پر ہونے والے اخراجات کا ذکر صراحة کرکے کچھ منافع رکھ کربیچتا ہے۔لہذا اگر آپ سامان کی اصل قیمت اور اس پر ہونے والے اخراجات کا ذکر صراحة کرکے اپنے کسی ممبر کو بیچتے ہو تو آپ کا یہ کاروبار شرعا جائز ہے بشرطیکہ جس چیز کو بیچا جارہا ہے شرعا اس کے بیچنے کی اجازت ہو اور فساد کی دیگر وجوہ میں سے کوئی وجہ نہ پائی جائے۔ 

حوالہ جات
)بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ج: 11، ص: 52،437)
وبيع المرابحة:وهو مبادلة المبيع بمثل الثمن الأول وزيادة ربح... لا بأس بأن يلحق برأس المال أجرة القصار والصباغ والغسال والفتال والخياط والسمسار وسائق الغنم ، والكراء ، ونفقة الرقيق من طعامهم وكسوتهم وما لا بد لهم منه بالمعروف ، وعلف الدواب ، ويباع مرابحة وتولية على الكل اعتبارا للعرف ؛ لأن العادة فيما بين التجار أنهم يلحقون هذه المؤن برأس المال ويعدونها منه ، وعرف المسلمين وعادتهم حجة مطلقة قال النبي : عليه الصلاة والسلام :" ما رآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن ."

    ابرار احمد صدیقی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

 ١۲/محرم/١۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ابراراحمد بن بہاراحمد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے