021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
رضاعت کے ثبوت کے لئے شہادت شرط ہے
78648رضاعت کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

ایک لڑکا اپنے ماموں کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتا ہے،جب یہ بات ان دونوں کے والدین کو پہنچی،تو لڑکےکی والدہ نے دعوی کیا کہ میں نے اس لڑکی کو دودھ پلایا ہے،جب اس سے گواہوں کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے صرف ایک عورت کا تذکرہ کیا جو فوت ہوچکی ہے۔

زندہ لوگوں میں سے کوئی گواہ نہیں اور یہ بالکل واضح ہے کہ دونوں کے والدین ایک دوسرے سے ناراض ہیں اور لڑکے کی والدہ نہیں چاہتی کہ وہ اپنی بھانجی کو بیاہ کر لائے۔

لڑکی کی ماں سے گاؤں کے عالم نے قسم دے کر پوچھا کہ کیا آپ کی بیٹی کو اس نے دودھ پلایا ہے یا نہیں تو لڑکی کی ماں نے قسم کھاکر کہا کہ لڑکے کی والدہ جھوٹ بول رہی ہے، میری بیٹی کو مدت رضاعت میں کسی نے دودھ نہیں پلایا،آیا ان دونوں کا نکاح جائز ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حرمت رضاعت کے ثبوت کے لئے کم از کم دو نیک اور صالح مردوں یا انہیں صفات کی حامل دو عورتوں اور ایک مرد کی گواہی ضروری ہے،اس کے بغیر محض کسی ایک عورت کے دعوے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی،اس لئے مذکورہ صورت میں اس لڑکے کا اپنے ماموں کی بیٹی سے نکاح جائزہے۔

لیکن اگر رضاعت کا دعوی کرنے والی عورت نیک،صالح اور سچ بولنے والی ہو تو پھر احتیاطاً اس رشتے سے احتراز بہتر ہے۔

 نیزاس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اگر لڑکے کی والدہ اس رشتے پر راضی نہیں تو پھر زبردستی اس لڑکی کو اس کے گھر بیاہنے میں شادی کے بعد لڑکی کے لئے مشکلات ہوسکتی ہے،لہذا اچھی طرح سوچ سمجھ کر رشتہ کیا جائے۔

حوالہ جات
"بدائع الصنائع " (4/ 14):
"وأما بيان ما يثبت به الرضاع أي: يظهر به فالرضاع يظهر بأحد أمرين: أحدهما الإقرار والثاني البينة.....
وأما البينة: فهي أن يشهد على الرضاع رجلان أو رجل وامرأتان ولا يقبل على الرضاع أقل من ذلك ولا شهادة النساء بانفرادهن.....
"الدر المختار " (3/ 224):
"(حجته حجة المال) وهي شهادة عدلين أو عدل وعدلتان".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ:"  (قوله حجته إلخ) أي دليل إثباته وهذا عند الإنكار لأنه يثبت بالإقرار مع الإصرار كما مر (قوله وهي شهادة عدلين إلخ) أي من الرجال. وأفاد أنه لا يثبت بخبر الواحد امرأة كان أو رجلا قبل العقد أو بعده، وبه صرح في الكافي والنهاية تبعا لما في رضاع الخانية:
لو شهدت به امرأة قبل النكاح فهو في سعة من تكذيبها، لكن في محرمات الخانية إن كان قبله والمخبر عدل ثقة لا يجوز النكاح، وإن بعده وهما كبيران فالأحوط التنزه وبه جزم البزازي معللا بأن الشك في الأول وقع في الجواز، وفي الثاني في البطلان والدفع أسهل من الدفع. ويوفق بحمل الأول على ما إذا لم تعلم عدالة المخبر أو على ما في المحيط من أن فيه روايتين، ومقتضاه أنه بعد العقد لا يعتبر اتفاقا، لكن نقل الزيلعي عن المغني وكراهية الهداية أن خبر الواحد مقبول في الرضاع الطارئ بأن كان تحته متغيرة فشهدت واحدة بأن أمه أو أخته أرضعتها بعد العقد. قلت: ويشير إليه ما مر من قول الخانية وهما كبيران، لكن قال في البحر بعد ذلك: إن ظاهر المتون أنه لا يعمل به مطلقا، فليكن هو المعتمد في المذهب. قلت: وهو أيضا ظاهر كلام كافي الحاكم الذي هو جمع كتب ظاهر الرواية، وفرق بينه وبين قبول خبر الواحد بنجاسة الماء أو اللحم، فراجعه من كتاب الاستحسان".
"صحيح البخاري" (1/ 29):
"عن عقبة بن الحارث، أنه تزوج ابنة لأبي إهاب بن عزيز فأتته امرأة فقالت: إني قد أرضعت عقبة والتي تزوج، فقال لها عقبة: ما أعلم أنك أرضعتني، ولا أخبرتني، فركب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة فسأله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كيف وقد قيل» ففارقها عقبة، ونكحت زوجا غيره".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

07/جمادی الثانیہ1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے