021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میاں بیوی کی مشترکہ کمائی سے بنائی گئی جائیداد کا حکم
78768میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میں بیوہ ہوں، میری کوئی اولاد بھی نہیں ہوئی، میرے شوہر کا انتقال 2012ء میں ہوا ہے۔ میں اور میرے شوہر ملک سے باہر رہتے تھے، ہم دونوں نے مل کر ہی کام وغیرہ کیا، اس پیسے سے ہم نے بفرزون میں ایک پلاٹ خریدا اور اسے بنوایا، جس میں چار دکانیں اور تین منزلہ مکان شامل ہے۔ شادی کے آٹھ سال تک اولاد نہ ہونے کی وجہ سے میں نے اپنے ایک بھائی کو پیدائش کے فورا بعد گود لیا، اب اس کی عمر 35 سال ہے اور صاحبِ اولاد ہے۔

گھر ہم دونوں نے مل کر بنایا تھا، لیکن نام میرے شوہر کے تھا۔ انتقال سے کچھ عرصہ قبل میرے شوہر نے مذکورہ بالا صورتِ حال کے پیشِ نظر گھر میرے نام پر کرنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن اچانک ہارٹ اٹیک ہونے کی وجہ سے یہ کام نہ ہوسکا۔ اس کی شرعی حیثیت اور حل کیا ہے؟ میرے شوہر کے انتقال کے وقت ان کے چار بھائی اور دو بہنیں حیات تھیں، جن میں سے آج تک کسی نے جائیداد کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ شوہر کے والدین، دادا، دادی اور نانی کا انتقال اس کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا۔ اب اس کی تقسیم کا شرعی طریقہ بتادیں۔

 مکان کے ایک پورشن میں میری رہائش ہے، باقی دو پورشن اور تین دکانیں کرایہ پر دی ہوئی ہیں۔ شوہر کی وفات کے بعد اس  سے آنے والا کرایہ میں وصول اور استعمال کر رہی ہوں؛ کیونکہ اور کوئی ذریعۂ آمدن نہیں۔ اگر تقسیم ہوتی ہے تو کیا کرایہ کی اس ساری آمدن کا بھی حساب ہوگا جو میں اب تک استعمال کرچکی ہوں؟ اگر میں گھر وغیرہ سب چیزوں کا حساب کرتی ہوں اور تقسیم کرتی ہوں تو بے آسرا رہ جاؤں گی، میں یہ جاننا چاہوں گی کہ میں ابھی تقسیم کردوں یا وصیت کروں؟ اگر ابھی تقسیم کرتی ہوں تو اس میں میرا کتنا حصہ ہوگا اور کتنا تقسیم ہوگا؟ اور اگر وصیت کرتی ہوں تو اس کا کیا طریقۂ کار ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق جب یہ مکان اور دکانیں آپ کے شوہر اور آپ کی مشترکہ

کمائی سے بنی ہیں تو یہ آپ دونوں کے درمیان مشترک ہیں، اگر آپ دونوں کی کمائی برابر یا تھوڑی بہت کم وبیش تھی، لیکن یہ معلوم نہیں کہ کس کی کتنی رقم لگی تو یہ سب کچھ آپ دونوں کا آدھا آدھا شمار ہوگا، اور اگر ہر ایک کی لگائی ہوئی رقم الگ الگ معلوم ہو تو پھر شرکت بھی اسی تناسب سے ہوگی۔ مشترک کمائی سے بننے کے بعد صرف کاغذات میں کسی ایک کے نام ہونے سے ملکیت کے حکم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لہٰذا آپ کی کمائی کے بقدر حصہ تو آپ کی ذاتی ملکیت ہے، رہا شوہر کا حصہ تو وہ کل چالیس (40) حصوں میں تقسیم ہوگا جس میں سے دس (10) حصے آپ کو ملیں گے، چھ، چھ (6، 6) حصے اس کے چار بھائیوں میں سے ہر بھائی کو ملیں گے اور تین، تین (3، 3) حصے دو بہنوں میں سے ہر بہن کو ملیں گے۔ شوہر کے حصے کا کرایہ بھی اس کے ترکہ میں شامل ہوگا، لہٰذا اب تک آپ نے شوہر کے حصے کا جتنا کرایہ وصول اور استعمال کیا ہے، اس میں سے ایک چوتھائی تو آپ کا بنتا تھا، لیکن باقی تین چوتھائی دوسرے ورثا کا حق تھا، وہ انہیں دینا آپ پر لازم ہے۔ صرف خاموش رہنے اور مطالبہ نہ کرنے کی وجہ سے مکان اور دکانوں یا ان کے کرایہ میں بقیہ ورثا کا حصہ ساقط نہیں ہوا۔ واضح رہے کہ لے پالک شرعا وارث نہیں بنتا، لہٰذا آپ کے بھائی (جس کو آپ نے گود لیا تھا) کو آپ کے شوہر کی میراث میں سے کچھ نہیں ملے گا۔   

اس تفصیل کے مطابق مذکورہ مکان اور دکانوں میں آپ کو اپنے ملکیتی حصہ کے علاوہ شوہر کے حصے سے بھی ایک چوتھائی حصہ بطورِ میراث ملے گا؛ اس لیے یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ تقسیم کے بعد آپ بے آسرا رہ جائیں گی۔ لہٰذا میراث کی تقسیم میں مزید تاخیر درست نہیں، بلکہ شوہر کا حصہ تقسیم کر کے اس کے بھائیوں اور بہنوں (اور ان کے انتقال کی صورت میں ان کے ورثاء) کو ان کا حصہ دیدیں اور اپنا ذاتی حصہ اور شوہر کی میراث سے ملنے والا حصہ اپنے پاس رکھیں، اور اس سے جو کرایہ آئے، اس سے اپنا گزر بسر کریں۔

حوالہ جات
الدر المختار (4/ 325):
( لا تصح شركة في احتطاب واحتشاش واصطياد واستقاء وسائر مباحات ) كاجتناء ثمار من جبال وطلب معدن من كنز وطبخ آجر من طين مباح؛ لتضمنها الوكالة، والتوكيل في أخذ المباح لا يصح ( وما حصله أحدهما فله وما حصلاه معا فلهما ) نصفين إن لم يعلم ما لكل.
رد المحتار (4/ 325):
قوله ( وما حصلاه معاً، الخ ) يعني ثم خلطاه وباعه فيقسم الثمن على كيل أو وزن ما لكل منهما، وإن لم يكن وزنيا ولا كيليا قسم على قيمة ما كان لكل منهما، وإن لم يعرف مقدار ما كان لکل منهما صدق كل واحد منهما إلى النصف؛ لأنهما استويا في الاكتساب، وكأن المكتسب في أيديهما، فالظاهر أنه بينهما نصفان، والظاهر يشهد له في ذلك، فيقبل قوله، ولا يصدق على الزيادة على النصف إلا ببينة؛ لأنه يدعي خلاف الظاهر ا هـ فتح.
  مطلب: اجتمعا في دار واحدة، واكتسبا، ولايعلم التفاوت فهو بينهما بالسوية: 
تنبيه:  يؤخذ من هذا ما أفتى به في الخيرية في زوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ كل منهما يكتسب على حدة ويجمعان كسبهما ولا يعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمييز   فأجاب بأنه بينهما سوية، وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية ولو اختلفوا في العمل والرأي ا ه.
المجلة (ص: 111):
مادة 597: لا يلزم ضمان المنفعة في مال استعمل بتأويل ملك ولو كان معدا للاستغلال، مثلا لو تصرف مدة أحد الشركاء في المال المشترك  بدون إذن شريكه مستقلا فليس للشريك الآخر اخذ أجرة  حصته؛ لأنه استعمله على أنه ملكه.
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (1/ 588):
شرح المادة 597: مسائل تتفرع عن ذلك:
أولًا: مثلًا لو تصرف أحد الشركاء تغلبًا في المال المشترك كالدار والحانوت مدةً بدون إذن شريكه مستقلًا واستعمله بنفسه، فليس للشريك الآخر أخذ أجرة حصته؛ لأنه استعمله على أنه ملكه، كما أنه ليس له أن يطالب بسكنى الدار وحده بقدر ما سكنها شريكه، انظر المادة ( 1083 )، حتى أن الساكن إذا دفع إلى شريكه أجرة حصته يزعم أنها تلزمه فله استردادها بعد ذلك، انظر المادة ( 97 ) .  ويفهم من هذه المادة أن لأحد الشريكين أن يسكن المال المشترك سواء أكان شريكه حاضرا  أو غائبًا؛ إذ يتعذر عليه الاستئذان في كل مرة فكان له أن يسكن في حال غيبته .
ثانيا : إذا تسبب أحد الشريكين بتعطيل المال المشترك ، فليس للشريك الثاني أجرة .
 ثالثا : إذا آجر أحد الشریکین حصته من شریکه سنة و سکنها المستأجر سنتین فلا تلزم أجرة للسنة الثانیة. وحكم الأجنبي الذي يخلف الشريك فهو كالشريك أيضًا.
ويستفاد من المثال أن ذلك خاص باستعمال الشريك بالذات، ولا دخل لإيجاره من آخر؛ لأن الشريك إذا لم يستعمل المال المشترك مستقلًا بنفسه، وآجره كله من آخر وأخذ أجرته لزمه رد أجرة شريكه إليه . مثلًا لو آجر أحد الشركاء الحمام المشترك بين ثلاثة، ولكل منهم ثلثه، من آخر وأخذ أجرته لزمه أن يعطي لشريكيه ثلثي الأجرة ،وسنفصل هذه المسألة، وتوضح في المادة ( 1077 )، لكن إيجار أحد الشركاء المال المشترك على هذا الوجه أو إعارته غير جائزة دیانة؛ إذ التصرف في ملك الغير بلا إذن حرام ، ولا يمنع قضاء؛ إذ الإنسان لا يمنع من التصرف فيما بيده إذا لم ينازعه فيه أحد ( التنقيح، رد المحتار،  علي أفندي ) .

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  12/جمادی الآخرۃ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب