021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شرکت کی ایک صورت کاحکم
78994مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں   کہ  دو آدمیوں کے آپس  میں  اس طرح  شرکت  کا  معاہدہ  ہو ا ہے کہ    ایک  بندہ  دوسرے کو 4لاکھ روپے  دیگا ،اوردوسرا بندہ اس سے  بلاک  کی فیکٹری   لگائےگا ، اور   جو منافع  ہوگا  وہ دونوں  کے آپس  میں آدھا  آدھا  تقسیم ہوگا ، اور  کاروبار  میں نقصان  کی  صورت میں نقصان   دونوں  شریک برابر  برداشت  کریں  گے۔

اگر  بالفرض  آگے چل کر   کاروبار    کامیاب نہیں  ہوتا   تو  کام کرنے والا بندہ    فیکٹری  کا میٹریل  فروخت کرکے  پہلے شخص  کو 4 لاکھ واپس کردے گا ۔سوال  یہ ہے  کہ    مذکورہ  شرائط  کے ساتھ یہ کاروبار  شروع  کرنا  جائز   ہے یا نہیں  ؟اگر  جائز نہیں ہے تو   متبادل جائز صورت  بتادیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں  ذکر کردہ  مسئلہ کی صورت شرکت   مضاربت  کی بنتی ہے  ،اور مضاربت  جائز  ہونے کے لئے  اس  کی بنیادی  شرائط یہ ہیں 1۔ رقم مضارب کے حوالے  کردی جائے  2 ۔کہ اصل رقم گارنٹیڈ ﴿مضمون﴾ نہ ہو کہ ہر حال میں اس کی واپسی  کمپنی کے ذمہ لازم ہو 3۔رب المال ﴿سرمایہ دینےوالے﴾ خود کاروبار کی عملی سرگرمیوں میں  شریک ہونے کی شرط  نہ لگائے 4۔ حاصل  ہونے والے  نفع میں دونوں  کی  شرکت   فیصدی طریقہ پر ہونفع کی کوئی  خاص مقدار کسی کے لئے  مخصوص نہ ہو 5۔ اگر نقصان  ہوجائےتو دیکھا جائے  اس سے پہلے اس تجار  ت میں اگرکوئی  نفع  حاصل ہوا  ہوتو  نقصان کی تلافی  اس سے کی جائے گی، اگر  ابھی نفع نہیں ہوا یا نفع سے تلافی  نہیں  ہو پارہی    تو  نقصان   رب المال یعنی  سرمایہ  فراہم کرنے   والے کے ذمہ  ہوگا۔

تو  دونوں  فریق  کو چاہئے  کہ ان شرائط  کے  مطابق معاملہ کریں  تاکہ  معاملہ  جائز اور  آمدنی حلال  ہو۔

حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 200)
قال: "المضاربة عقد على الشركة بمال من أحد الجانبين" ومراده الشركة في الربح وهو يستحق بالمال من أحد الجانبين "والعمل من الجانب الآخر" ولا مضاربة بدونها؛ ألا ترى أن الربح لو شرط كله لرب المال كان بضاعة، ولو شرط جميعه للمضارب كان قرضا.الی قولہ ۰۰۰قال: "ولا بد أن يكون المال مسلما إلى المضارب ولا يد لرب المال فيه" لأن المال أمانة في يده فلا بد من التسليم إليه، وهذا بخلاف الشركة لأن المال في المضاربة من أحد الجانبين والعمل من الجانب الآخر، فلا بد من أن يخلص المال للعامل ليتمكن من التصرف فيه.
الی قولہ ۰۰۰قال: "ومن شرطها أن يكون الربح بينهما مشاعا لا يستحق أحدهما دراهم مسماة" من الربح لأن شرط ذلك يقطع الشركة بينهما ولا بد منها كما في عقد الشركة.     

   احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

۲۴ جمادی  الثانیہ   ١۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب