021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مستحق زکوۃ شخص زکوۃ وصول کرسکتاہے
76528زکوة کابیانمستحقین زکوة کا بیان

سوال

میں مسمی عبیدالرحمن ولدعبدالعزیزباغ آزادکشمیرسےتعلق رکھتاہوں اورحال میں سٹیلائٹ ٹاون 21کلو میٹرفیروزپورروڈلاہورمیں مقیم ہوں،عرصہ 20 سال سےپرائیویٹ ادارےمیں ملازمت کرتارہا،میں نےملازمت کےساتھ ذاتی پیسوں سےایک دوست کےساتھ مل کرچھوٹےپیمانےپرکپڑےکاکاروبارشروع کیاجوبخوبی احسن طریقےسےچلتارہا،تین سال قبل میں نےکاروبارکومزیدتقویت دینےکیلےدوست احباب سےخطیررقم ادھارلےکر اپنے کاروباری شراکت داری کودی جس کاثبوت درخواست ہذاکےساتھ منسلک ہے۔

عالمی وباءکروناکےشروع ہوتےہی،لوگوں کوکاروبارمیں نقصانات شروع ہوگئےاورمیرےکاروباری شراکت دارنےبھی یہی وجہ تسمیہ بیان کرتےہوئےکہاکہ کاروبارمیں نقصان ہوچکاہےاورجتنی رقم ہم نےکاروبارپر لگائی تھی وہ اب نقصان میں آچکی ہےاورمیں آپ کورقم واپس کرنےسےقاصرہوں ،میں ایک سال تک اس کےساتھ گفت وشنیدکرتارہالیکن رقم کےحصول کی کوئی راہ ہموارنہ ہوسکی روزانہ کی بنیادپرادارےسےرخصت  لےکر کاروباری شراکت دارسےمیٹنگ کرنےکی وجہ سےمجھےملازمت سےبھی فارغ ہوناپڑا۔روزانہ کی  بنیادپر ادارےسے رخصت نہیں مل سکتی تھی،اب میں نےجن لوگوں سےقرض لیاہےوہ رقم واپسی کامطالبہ کررہے ہیں جبکہ ایسی صورتحال میں،میں رقم واپس کرنےسےقاصرہوں اوروہ لوگ مجھےجان سےمارنےکی دھمکیاں دے رہےہیں،میں جان کےبچاوکیلئےکرائےکےگھرمیں محصورہوکررہ گیاہوں،اب میرےپاس گھرکےکرائےکےپیسے بھی نہیں ہیں، ادھاررقم کی واپسی کےسلسلے میں،میں نےاپنامکان ،گاڑی ،زیورات کپڑےتک بیچ دیےہیں حتی کہ میرےبھائیوں نےبھی اپنےگھرفروخت کردیےہیں اوروہ بھی بےگھرہوگئےہیں،اورابھی بھی قرض کی خطیررقم واجب الاداء ہےان پریشان کن حالات میں میں ذہنی مریض بن چکاہوں ،مزیدیہ کہ قرض کی واپسی کی صورت نہیں بن رہی اب میرے پاس صرف یہی حل ہےکہ صاحب حیثیت لوگوں سےزکوۃ ،فطرانہ،مالی امدادکی اپیل کرکےبوجھ کواتارسکوں۔

جناب مفتیان کرام آپ سےالتماس ہےکہ شرعی احکام کی روشنی میں میری راہنمائی فرمائیں کہ میں اس طریقہ کارکےتحت رقم وصول کرکےقرض کابوجھ اتارسکتاہوں؟

واجب الاداءرقم تقریبا20 کروڑروپےہے،جناب حضرات سےگزارش ہےکہ لیٹرہیڈپرفتوی بمعہ دستخط اورمہرلگاکرلاہوروالےایڈریس پرارسال فرمائیں ۔جزاک اللہ

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں جیساکہ آپ نےاپنےمالی حالات ذکرکیےہیں ،اورساتھ میں ثبوت کےطورپر کاغذات بھی لف کیےہیں توان حالات میں آپ نفلی اور واجب صدقات:  زکواۃ ،فطرانہ کےمستحق ہیں لہذا اگرکوئی آپ کونفلی اورواجب صدقات دیناچاہےتوآپ کےلیےوصول کرناجائزہے۔لیکن یادرہےکہ محض لوگوں کےدیےہوئےصدقات پراکتفاء کرنااورازخودکمانےسےمایوس ہوکربیٹھنا،یہ غیرمستحسن عمل ہےاور خودداری  کےبھی خلاف ہے،دوسرایہ کہ لوگوں سے صدقات وصول کرنےلیےدربدرجانااورمساجدکےسامنےبیٹھناانتہائی نامناسب ہے،البتہ  آپ اپنےفقروفاقہ کےحالات مناسب اندازسےلوگوں کےسامنےرکھ سکتےہیں اورساتھ ساتھ   اللہ تعالی سےدعائیں مانگنےکااہتمام فرمائیں اور قرض کی ادائیگی  کے لیےمسلسل دعاکرتےرہیں ، ’’اَللّٰہُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ‘‘  یعنی اےاللہ!مجھے اپنے حلال کے ذریعے اپنے حرام سے تو کافی ہوجا، اورمجھے اپنی مہربانی سے اپنے سوا سے بے پرواہ کردے۔ (ترمذی)اوریہ دعاکریں "اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ، وَأَعُوْذُبِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسْلِ، وَأَعُوْذُبِكَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّيْنِ وَقَهْرِ الرِّجَالِ'' ۔

ان دعاوں کےاہتمام سےاللہ تعالی اپنےغیب کےخزانوں سےضرورآسانی فرمائیں گے،ہم بھی دعاگوہیں اللہ تعالی آپ کی مشکلات آسان فرمائے۔

ایسی  صورتحال میں مقروض کومہلت دینےکی شریعت میں ترغیب ہےاوراگرقرض خواہان صدقہ کردیں توزیادہ بہترہے چنانچہ   قرآن پاک  میں ہےکہ" اوراگرکوئی تنگدست( قرض دار)ہوتواس کاہاتھ کھلنےتک مہلت دینی ہے۔اور صدقہ ہی کردوتویہ تمہارےحق میں کہیں  زیادہ بہترہے،بشرطیکہ تم کوسمجھ ہو"۔البقرۃ

اسی طرح  مقروض کومہلت دینےاورقرض معاف کرنےسےمتعلق بہت ساری احادیث میں  فضیلت واردہوئی ہے، صحیح مسلم کی حدیث ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاکہ جوشخص کسی تنگ دست مقروض کومہلت دیتا ہےیاقرض معاف کردیتاہےتواللہ تعالی قیامت کےدن اسےاپنےسایہ تلےجگہ دےگا۔ایک دوسری حدیث میں ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:اگرکسی نےغریب تنگدست کومہلت دی یااسےقرض معاف کردیاتواللہ تعالی اسےقیامت کےدن کی تکلیفوں اورپریشانیوں سےنجات عطاکرےگا۔

حوالہ جات
قال اللہ عزوجل:
﴿✷‌إِنَّمَا ‌الصَّدَقَاتُ ‌لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (٦١) ﴾ [التوبة: 55-61]
﴿‌وَإِنْ ‌كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ﴾ [البقرة
«تحفة الملوك» (ص130):
مستحقو الزكاة ‌مصارف ‌الزكاة والعشر سبعة الفقير وهو من له أدنى شيء والمسكين وهو من لا شيء
له وقيل بالعكس والعامل غير الهاشمي ولو كان غنيا والمكاتب والمديون والغازي المنقطع وقيل الحاج المنقطع ومن ماله بعيد عنه وللمالك أن يعم كل المصارف وأن يخص بعضها
«صحيح مسلم» (4/ 2302 ت عبد الباقي):
فأشهد بصر عيني هاتين (ووضع إصبعيه على عينيه) وسمع أذني هاتين، ووعاه قلبي هذا (وأشار إلى مناط قلبه) رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول "‌من ‌أنظر ‌معسرا، ‌أو ‌وضع ‌عنه، ‌أظله ‌الله ‌في ‌ظله"
«صحيح مسلم» (3/ 1195 ت عبد الباقي):
عن حذيفة. قال:أتي الله بعبد من عباده، آتاه الله مالا. فقال له: ماذا عملت في الدنيا؟ (قال: ولا يكتمون الله حديثا) قال: يا رب! آتيتني مالك. فكنت أبايع الناس. وكان من خلقي الجواز. فكنت أتيسر على الموسر وأنظر المعسر. فقال الله: أنا أحق بذا منك. تجاوزوا عن عبدي)

عبدالقدوس

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

۲۴شعبان۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقدوس بن محمد حنیف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب