021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تقسیم سے پہلے مال میراث پرزکوٰۃ کا شرعی حکم
79022.62زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

عرض یہ ہے دو سال سے میراث کی تقسیم نہیں کی تھی  کچھ قانونی مجبوریوں کے باعث، اب دو سال بعد تقسیم کی ہے ۔ اب گزشتہ دو سال کی زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟وہ مشترکہ ترکے سے نکالیں یا ہر وارث اپنے حصے کی زکوٰۃ نکالے۔تقسیم سے پہلےترکہ ورثاء کی ملکیت میں شمار ہوگا یا نہیں؟ تقسیم سے پہلے میراث والے حصے پے زکوٰۃ لازم تھی یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مالِ میراث تقسیم سے پہلے اگرچہ ورثا ء کی ملکیت میں ہوتا ہے، لیکن جب تک باقاعدہ تقسیم نہ ہوہر وارث کا حصّہ دین ضعیف کے حکم میں ہوتا ہے۔اور دین ضعیف پر قبضہ سے پہلےزکوٰۃواجب نہیں ہوتی ، اس لیے ترکہ پر اس وقت تک زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی جب تک کہ اس کو  شرعی ورثاء کے درمیان ان کے حصص کے مطابق  تقسیم نہ کردیا جائے۔

واضح رہے زکوٰۃ کے واجب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مال پر ملکیت کے ساتھ اس پر قبضہ بھی ہو، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  تقسیم سے پہلےگزشہ دوسال کی زکوۃ واجب نہیں ہوگی،البتہ تقسیم کے بعد   جو وارث پہلے سے صاحبِ نصاب ہو، وہ دیگر اموال کے ساتھ اِس مال کی زکوٰۃ بھی ادا کرےگا۔ جو وارث پہلے سے صاحبِ نصاب نہ ہو،تقسیم کے بعد اگر  وہ صاحبِ   نصاب ہو جائے اور اس پر مکمل سال بھی گزرجائے تو اس   صورت میں اس پر زکوۃ واجب ہوگی۔

نصابِ زکوٰۃ: اگرکسی شخص کے پاس صرف سوناہو تو ساڑھے سات تولہ سونا اور صرف چاندی ہوتو ساڑھے باون تولہ چاندی یا  اس کی قیمت کے برابر نقدی یا سامانِ تجارت ہوتو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی اور اگر مذکورہ اشیاء تنہانصاب تک نہ پہنچتی ہوں مگر مجموعی مالیت  چاندی کے نصاب برابربنتی ہوتو اس پر بھی زکوٰہ واجب ہوگی۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 172)
أما الشرائط التي ترجع إلى المال فمنها: الملك .........الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لا تجب فيه الزكاة كذا في السراج الوهاج.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 9)
ومنها الملك المطلق وهو أن يكون مملوكا له رقبة ويدا وهذا قول أصحابنا الثلاثة.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 10)
جملة الكلام في الديون أنها على ثلاث مراتب في قول أبي حنيفة: دين قوي، ودين ضعيف، ودين وسط كذا قال عامة مشايخنا أما القوي فهو الذي وجب بدلا عن مال التجارة كثمن عرض التجارة من ثياب التجارة، وعبيد التجارة، أو غلة مال التجارة ولا خلاف في وجوب الزكاة فيه إلا أنه لا يخاطب بأداء شيء من زكاة ما مضى ما لم يقبض أربعين درهما، فكلما قبض أربعين درهما أدى درهما واحدا.وعند أبي يوسف ومحمد كلما قبض شيئا يؤدي زكاته قل المقبوض أو كثر.
وأما الدين الضعيف فهو الذي وجب له بدلا عن شيء سواء وجب له بغير صنعه كالميراث، أو بصنعه كما لوصية، أو وجب بدلا عما ليس بمال كالمهر، وبدل الخلع، والصلح عن القصاص، وبدل الكتابة ولا زكاة فيه ما لم يقبض كله ويحول عليه الحول بعد القبض.
الفتاوى الهندية (1/ 175)
وأما سائر الديون المقر بها فهي على ثلاث مراتب عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ضعيف، وهو كل دين ملكه بغير فعله لا بدلا عن شيء نحو الميراث أو بفعله لا بدلا عن شيء كالوصية أو بفعله بدلا عما ليس بمال كالمهر وبدل الخلع والصلح عن دم العمد والدية وبدل الكتابة لا زكاة فيه عنده حتى يقبض نصابا ويحول عليه الحول. ووسط، وهو ما يجب بدلا عن مال ليس للتجارة كعبيد الخدمة وثياب البذلة إذا قبض مائتين زكى لما مضى في رواية الأصل وقوي، وهو ما يجب بدلا عن سلع التجارة إذا قبض أربعين زكى لما مضى كذا في الزاهدي.

          عدنان اختر

دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی

۲۸،جمادی الثانیہ،۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عدنان اختر بن محمد پرویز اختر

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب