021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدکااپنی جائیدادمیں بعض اولادکومحروم کرنا
76081ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

وراثت کےبارےمیں شریعت کاکیاحکم ہے؟ایک بیٹاہےاورسات بیٹیاں ہیں جس میں سے3بیٹیاں دماغی معذور ہیں اورمعذوربیٹیوں میں سے1کاانتقال ہوگیاہےاور2زندہ ہیں جن کونوکروں کی طرح رکھاہواہے، اورچاربیٹیاں جوبالکل ٹھیک ہیں ان میں سےبھی ایک کاانتقال ہوگیاہےجن میں سےتین زندہ ہیں ،ٹوٹل پانچ بہنیں اورایک بھائی زندہ ہیں ،اورجوایک بیٹی مرگئی اس کابیٹاہےاورایک بیٹی جوانی سےبیوہ ہےاوراس کےدوبیٹےہیں جواس کےساتھ رہتے ہیں اوردوبیٹیاں شادی شدہ ہیں ،مکان کامالک یعنی باپ زندہ ہے۔

باپ نےفیصلہ کیاہےکہ اس پورےمکان کی ذمیداربیوہ بیٹی ہےاوراس کےبچےاوریتیم نواسہ ہے،اور دماغی معذور بیٹیاں اس بیوہ بیٹی کےذمےہیں اوروہ ان پرظلم بھی کرےتوکوئی اس کوکچھ نہیں بول سکتا۔

مکان کافیصلہ یہ کیاہےکہ چاربیٹیاں جوبالکل ٹھیک ہیں جس میں سےمری ہوئی بیٹی کابچہ اورتین بیٹیاں جوزندہ ہیں آپس میں بانٹ لیں اوربیٹےکوکچھ نہیں دینااوردومعذوربیٹیاں بیوہ بیٹی کےذمےہیں ان کوبھی کچھ نہیں دینااوربیٹاگھر میں جہاں رہتاہےاسےرہنےدوایک کمرےمیں اوربیٹاجب تک زندہ ہےمکان کوبکنےنہیں دینااوراس کےبعدبیچ کر آپس میں شریعت کےمطابق بانٹ لیناکیایہ درست فیصلہ ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب کوئی شخص فوت ہوجاتاہےتواس کی وفات کےبعدجوزندہ ورثہ موجودہوتےہیں،ان میں سےہرایک کوشرعی حصے کےمطابق وراثت تقسیم کی جاتی ہے،لیکن اگرکوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیدادوغیرہ اولادمیں تقسیم کرنا چاہے،توتقسیم کرسکتاہے،چنانچہ اس صورت میں ہرایک جوحصہ ملےگاوہ ہبہ کےحکم میں ہوگا،لہذاجب کوئی ہبہ کرکےاولاد میں جائیدادتقسیم کرناچاہےتواسے چندباتوں کاخیال رکھناضروری ہے:

1: سب ورثہ میں برابرتقسیم کرے،البتہ اس کی بھی اجازت ہےکہ وراثت کےحصص کےمطابق تقسیم کیاجائے

2: اولادمیں سےکسی کوکم دینےیامکمل محروم کر نےکی نیت نہ ہو۔البتہ کسی معقول وجہ ترجیح کے(مثلا:کسی کوغریب ہونےکی وجہ سے،یاخدمت گارہونےکی وجہ سے)اگرکچھ زیادہ ہبہ کرناچاہےتواس میں (مذکورشرط کےساتھ) گنجائش ہے ۔لہذاصورت مسئولہ میں اگر آپ کےوالدصاحب نےاپنامکان نواسہ اور تین بیٹیوں کوہبہ /عطیہ کرنے کےساتھ ساتھ قبضہ  بھی کرادیاہےتوان کےلئےیہ ہبہ تام ہوگا،چنانچہ اس مکان میں دیگرورثااپنےحصےکامطالبہ نہیں کرسکتے، البتہ یہ بات ضرورہےکہ اس" غیرمنصفانہ "فیصلےکی وجہ سےآپ کےوالدسخت گناہ گارہوں گے۔

اوراگرآپ کےوالدنےہبہ/عطیہ توکیالیکن ان کو قبضہ نہیں کرایاتوپھریہ ہبہ مکمل نہیں ہوگا،لہذاآپ کےوالدصاحب کی وفات کےبعدجوزندہ ورثہ موجودہوں گے، ان میں مکان سمیت پوری جائیدادشرعی حصوں کے مطابق وراثت بن کرتقسیم ہوگی ۔

نوٹ:اگریہ آخری صورت ہوجس میں ہبہ مکمل نہیں ہواتوپھر دوبارہ جب وراثت تقسیم کرنےکی نوبت آئےتوپھرکسی معتبردارالافتاء سے اپنےوالدکےورثا کےنام لکھ کرہرایک کاشرعی حصہ معلوم کرلیاجائے۔

حوالہ جات
«الهداية في شرح بداية المبتدي» (3/ 222):
الهبة عقد ‌مشروع لقوله عليه الصلاة والسلام: "تهادوا تحابوا" وعلى ذلك انعقد الإجماع "وتصح بالإيجاب والقبول والقبض" أما الإيجاب والقبول فلأنه عقد، والعقد ينعقد بالإيجاب، والقبول، والقبض لا بد منه لثبوت الملك.
«صحيح البخاري» (2/ 913 ت البغا):
‌باب: ‌الهبة ‌للولد، وإذا أعطى بعض ولده شيئا لم يجز، حتى يعدل بينهم ويعطي الآخرين مثله، ولا يشهد عليه.وقال النبي صلى الله عليه وسلم: (اعدلوا بين أولادكم في العطية).
«شرح معاني الآثار» (4/ 86):
عن الشعبي، قال: سمعت النعمان بن بشير، يقول: أعطاني أبي عطية فقالت أمي عمرة بنت رواحة لا أرضى حتى تشهد من الأشهاد رسول الله صلى الله عليه وسلم. فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني قد أعطيت ابني من عمرة عطية وإني أشهدك. ‌قال: «‌أكل ‌ولدك ‌أعطيت ‌مثل ‌هذا؟» قال لا، قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم» فليس في هذا الحديث أن النبي صلى الله عليه وسلم أمره برد الشيء وإنما فيه الأمر بالتسوية
«الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار» (ص562):
وفي الخانية: ‌لا ‌بأس ‌بتفضيل ‌بعض الاولاد في المحبة لانها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الاضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني، وعليه الفتوى
«الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية» (4/ 374):
ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى ‌لا ‌يثبت ‌الملك ‌للموهوب له قبل القبض

عبدالقدوس

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

۲۴رجب ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقدوس بن محمد حنیف

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب