021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قیدی کو میراث کا حصہ دینا
79458میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

میرا ایک بھائی کشمیر میں جہاد کے دوران انڈین فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا ہے۔ اب دوسرے بھائی والد صاحب کےترکہ کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو کیا  قیدی بھائی کو  میراث میں حصہ ملے گا یا نہیں جبکہ اس کی رہائی کا  بظاہر کوئی امکان نہیں ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کے بھائی کا انڈین فوج  کی قید میں ہونے کا آپ کو علم ہے، انہیں مفقود الخبر نہیں کہا جا سکتا۔قید میں وہ بظاہر زندہ ہیں،البتہ ان کی رہائی کے امکانات کم ہیں۔ رہائی کے امکانات کم ہونے کی بنیاد پر انہیں مردہ نہیں کہا سکتا،جب تک ان کی موت کا یقینی علم نہ ہوجائے۔ اس لیے آپ کے قیدی بھائی بھی میراث میں حصہ دار ہونگے،البتہ ورثاء  کے درمیان تقسیمِ میراث کے بعد ان کے حصۂ میراث کو محفوظ رکھا جائے گا۔ اس کے متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ ان  کو اس وقت تک زندہ مانا جائے گا جب تک ان کے ہم عمر زندہ ہیں۔ جب ان  کے ہم عمر مر جائیں، تب ان کو متوفی اور مردہ سمجھا جائے گا اور نوے ۹۰ سال کی عمر ایسی مانی گئی ہے کہ انسان کے ہم عمر عمو ما اتنی مدت میں انتقال کر جاتے ہیں۔ ( ہاں بعض صورتوں میں جیسے کہ جنگ میں گم ہو گیا ہو یاٹی بی یا کینسر وغیرہ مہلک مرض میں غائب ہوگیا ہو یا دریا میں کام کرتے ہوئے لاپتہ ہو گیا ہو اور شرعی قاضی کو یا اس کے قائم مقام شرعی پنچایت کو اس کی موت کا غالب گمان ہو جائے تو وہ موت کا حکم دے سکتا ہے یا شہادتِ شرعیہ سے اس کی موت کا ثبوت ہو جائے تو اس کو مردہ تسلیم کیا جائے گا۔) تو  جب تک وہ زندہ تصور کئے جاتے ہیں، ان کا حصہ رکھا جائے گا، وہ رہا ہو کر واپس آجائیں تو ان کا حصہ انہیں  دےدیا جائے گا ،اور جب ان کو مردہ تسلیم  کر لیا جائے تو جتنا مال ان کے حصہ کی وجہ سے روکا گیا تھا، وہ دیگر ورثاء کو  واپس کر دیا جائے گا۔

حوالہ جات
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (5/ 455)
ذكر محمد رحمه الله في «الأصل» : الرجل يخرج في بيته فيقصد ولا يعرف موضعه، ولا يستبين أثره، ولا موته إذ باشره العدو فلا يستبين موته، ولا قتله، وأما حكمه: فما ذكر محمد رحمه الله في «الكتاب» أنه يعتبر حياً في حق نفسه حتى لا يقسم ماله بين ورثته، ولا تتزوج امرأته، ولا يحكم القاضي في شيء من أمره حتى يثبت موته، أو قتله، ويصير ميتاً في حق غيره، حتى لا يرث أحداً من أقربائه إذا مات.
ومعنى قوله: لا يرث أحداً من أقربائه؛ أن نصيبه المقصود من الميراث لا يصير ملكاً للمفقود أما يوقف للمفقود نصيباً من ميراث من مات من أقربائه؛ وهذا لأن حياة المفقود محتملة، والمحتمل يكفي للتوقف كما في الجنين، فإن ظهر حياً ظهر أنه كان مستحقاً، وإن لم يظهر حياً حتى بلغ من السن.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 176)
(وهو غائب لم يدر موضعه) يعني لم تدر حياته ولا موته فالمدار إنما هو على الجهل بحياته وموته لا على الجهل بمكانه فإنهم جعلوا منه كما في المحيط المسلم الذي أسره العدو ولا يدرى أحي أم ميت مع أن مكانه معلوم وهو دار الحرب فإنه أعم من أن يكون عرف أنه في بلدة معينة من دار الحرب أو لا.
الفتاوى الهندية (6/ 456)
المفقود هو الرجل الذي يخرج في وجه فيفقد ولا يعرف موضعه ولا تستبين حياته ولا موته أو يأسره العدو فلا يستبين موته ولا قتله، كذا في المحيط قال مشايخنا رحمهم الله تعالى: مدار مسألة المفقود على حرف واحد إن المفقود يعتبر حيا في ماله ميتا في مال غيره حتى ينقضي من المدة ما يعلم أنه لا يعيش إلى مثل تلك المدة، أو تموت أقرانه وبعد ذلك يعتبر ميتا في ماله يوم تمت المدة أو مات الأقران وفي مال الغير يعتبر ميتا كأنه مات يوم فقد، كذا في الذخيرة من مات في حال فقده ممن يرثه المفقود يوقف نصيب المفقود إلى أن يتبين حاله؛ لاحتمال بقائه فإذا مضت المدة التي تقدم ذكرها وحكمنا بموته قسمت أمواله بين الموجودين من ورثته، وأما الموقوف من تركة غيره فإنه يرد على ورثة ذلك الغير ويقسم بينهم كأن المفقود لم يكن.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 178-179)
والحاصل أنه حي في مال نفسه فلا يورث ميت في حق غيره فلا يرث، وهذا إذا لم تعلم حياته إلى أن يحكم بموته وإن علم حياته في وقت من الأوقات يرث من مات قبل ذلك الوقت من أقاربه كما في الحمل لاحتمال أن يكون حيا فيرث فإن تبين حياته في وقت مات فيه قريبه وإلا يرد الموقوف لأجله إلى وارث مورثه الذي وقف من ماله.
(قوله كالحمل) أي الحمل نظيره في الميراث عند الشك في نصيب الحمل فإنه يوقف له ميراث ابن واحد على ما عليه الفتوى.

محمد فرحان

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

16/رجب الخیر/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد فرحان بن محمد سلیم

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب