021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوہ، بھائی اور بہن میں میراث کی تقسیم
79382میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

(1)۔۔۔ میری شادی کو تقریبا ساڑھے سات ماہ ہوئے تھے کہ میرے شوہر کا انتقال ہوا۔ ہماری اولاد نہیں ہے۔ میرے شوہر کے والدین، دادا، دادی اور نانی کا انتقال اس کی زندگی میں ہوگیا تھا۔ میرے شوہر کی ایک شادی شدہ بہن ہے اور ایک غیر شادی شدہ بھائی ہے، یعنی انتقال کے وقت ورثا میں ان کے بھائی، ایک بہن اور میں تھی۔ میرے شوہر کے والد کا انتقال 1988ء میں ہوا۔ چونکہ میری شادی کو چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ شوہر کا انتقال ہوا، اس لیے مجھے شوہر کے والد کی میراث کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں کہ وہ ان کے ورثا میں تقسیم ہوئی تھی یا نہیں؟ البتہ میرے شوہر دیندار تھے، جتنا میں جانتی ہوں وہ کسی کا حق نہیں مارسکتے تھے۔

(2)۔۔۔ میرے شوہر کے والد کا پرنٹنگ کا کاروبار تھا اور کالج میں کرایہ کی بک شاپ تھی۔ پرنٹنگ کے کاروبار میں ان کو والد صاحب سے کچھ سامان وغیرہ نہیں ملا تھا، کیونکہ وہ کرایہ کی دکان میں آرڈر پر کام لے کر کرتے تھے، ان کے انتقال کے بعد میرے شوہر کالج کی دکان کو دیکھتے تھے، اس لیے پرنٹنگ کا کام وہ دوست کی دکان پر کرتے تھے، یعنی لوگوں سے آرڈر لیتے تھے، پھر بازار سے پیپر خرید کر دوسری جگہ سے ان کے لیے چھپواتے تھے۔ کالج کی دکان میں والد کے انتقال کے وقت تھوڑی سی کتابیں تھیں، ان کے بارے میں مجھے نہیں معلوم کہ ان کا کیا ہوا۔ وہ دکان ایسی جگہ پر تھی کہ اس سے چوری ہوتی تھی ، اس لیے میرے شوہر کو اس کے بجائے دوسری دکان دی گئی جس کا معاہدہ انہی کے نام پر ہوا، میرے شوہر نے اس میں نئی کتابیں، فوٹوسٹیٹ کی مشین اور دوسری چیزیں رکھیں اور پورے گھر کی ذمہ داری سنبھالی، 35 سال تک میرے شوہر نے اس کو چلایا۔ میری شادی کے بعد کالج کی دکان کے معاہدہ میں سیکنڈ پارٹی کے طور پر انہوں نے میرا نام لکھا ہے۔ اس دکان میں موجود سامان لاکھوں کا ہے۔ اس میں میرا شرعی حصہ کیا ہوگا؟ میرے شوہر کی والدہ کا انتقال 2016 میں ہوا، ان کی بیماری کی وجہ سے کاروبار بہت متاثر ہوا، پھر کچھ عرصہ بعد صرف میرے شوہر نے اپنی محنت سے کاروبار کو سیٹ کیا۔ میرے شوہر کی وفات کے بعد میرے دیور دکان کو دیکھ رہے ہیں، آمدنی بھی وہ لے رہے ہیں۔ اس کا کیا حکم ہوگا؟

(3)۔۔۔ میرے شوہر نے مجھے بتایا تھا کہ موجودہ گھر خود انہوں نے اپنے ذاتی پیسوں سے چالیس سے پینتالیس لاکھ میں خریدا۔ اس میں شرعا میرا کیا حق ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میرے شوہر نے گھر اپنے چھوٹے بھائی کے نام کیا، جس کا میرے پاس کوئی ثبوت نہیں۔

(4)۔۔۔ میرے شوہر نے اپنے پیسوں سے گاڑی لی تھی۔ جب وہ آئی سی یو میں تھے تو انہوں نے مجھے اپنی گاڑی کی چابی اپنے پاس رکھنے کو کہا۔ اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ میں نے اپنے شوہر کا علاج ان کے پیسوں سے کرایا، اس نے مجھے اپنا اے ٹی ایم کارڈ اور بٹوہ دیا تھا، میں نے شوہر کے پیسوں سے ہسپتال کا بل ادا کیا جو تقریبا بارہ (12) لاکھ تھا، اور تعلقات کی وجہ سے مجھے تیس فیصد ڈسکاؤنٹ ملا، تقریبا ڈیڑھ لاکھ، جو میرے پاس ہے۔ اس کا حکم بھی بتادیں۔

(5)۔۔۔ میرے شوہر نے شادی کے بعد مجھے بتایا کہ انہوں نے اپنے دوست کے پاس پیسے انویسٹ کیے ہیں، ان کے اس دوست کے پاس میرے شوہر کے تقریبا تئیس (23) لاکھ روپے ہیں، ان کے اس دوست نے بتایا کہ وہ میرے پاس اس کی امانت ہے، اس دوست نے ابھی تک ان پیسوں کو کاروبار میں نہیں لگایا۔ میرے نندوئی کہتے ہیں کہ یہ رقم میرے شوہر کی نہیں، شوہر کی والدہ کی ہے، جبکہ میرے شوہر نے مجھے بتایا تھا کہ وہ میرے پیسے ہیں، ان کے دوست بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

میرے شوہر نے مجھے بتایا تھا کہ پورا کاروبار، گھر، گاڑی سب کچھ انہوں نے اپنی محنت سے خریدا ہے۔ شوہر کے گھر میں صرف غیر شادی شدہ دیور ہے، میں وہاں اکیلی تھی، اس لیے امی کے گھر آگئی ہوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔ آپ کے شوہر نے انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں نقدی، سونا، چاندی، جائیداد، مکانات، گاڑی کاروبار ،غرض جو کچھ چھوٹا، بڑا ساز و سامان چھوڑا ہے، یا اگر کسی کے ذمہ ان کا قرض تھا، تو وہ سب اس کا ترکہ یعنی میراث ہے۔ اس میں سے سب سے پہلے اس کی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں، البتہ اگر یہ اخراجات کسی نے بطورِ احسان اٹھائے ہوں تو پھر انہیں ترکہ سے نہیں نکالا جائے گا۔ اس کے بعد دیکھا جائے اگر اس کے ذمے کسی کا قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے۔ اس کے بعد اگر اس نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی ترکہ کی حد تک اس کو پورا کیا جائے۔ اس کے بعد جو کچھ بچ جائے، اس کو کل چار (4) حصوں میں تقسیم کر کے ایک (1) حصہ اس کی بیوہ یعنی آپ کو ملے گا، دو (2) حصے اس کے بھائی کو ملیں گے، اور ایک (1) حصہ اس کی بہن کو ملے گا۔

(2)۔۔۔ پرنٹنگ کا کاروبار جب آپ کے شوہر نے اپنی محنت سے کیا ہے، اس میں والد صاحب کا کچھ استعمال نہیں ہوا تو اس کی ساری آمدنی آپ کے شوہر کا ترکہ ہو کر ان کے ورثا میں مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق تقسیم ہوگی۔ کالج میں کرایہ کی نئی دکان میں اگر آپ کے شوہر نے اپنے والد کے انتقال کے بعد اپنے پیسوں سے سامان ڈالا تھا تو اب اس میں موجود تمام سامان ان کے ورثا میں نمبر (1) میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق تقسیم ہوگا۔  ان کی وفات کے بعد آنے والی آمدنی بھی تمام ورثا میں اسی تفصیل کے مطابق تقسیم ہوگی۔ جہاں تک ان کے والد صاحب کی کتابوں کا تعلق ہے تو اگر انہوں نے اس میں باقی ورثا کے حصے ادا کیے تھے تب تو اس کا معاملہ صاف ہے۔ لیکن اگر انہوں نے اس میں سے باقی ورثا کے حصے ادا نہیں کیے تھے اور ان کو بیچ کر سارے پیسے خود لیے تھے تو اس میں والد کے بقیہ ورثا کا جتنا حصہ بنتا ہو، وہ اب آپ کے شوہر کے ترکہ سے ان کو والد کی میراث کے طور پر دیا جائے گا۔  

 (3)۔۔۔ آپ کے شوہر کا ذاتی گھر بھی ان کی میراث ہے جو نمبر (1) میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق تمام ورثا میں تقسیم ہوگا۔ اگر بالفرض انہوں نے وہ بھائی کے نام کیا بھی ہو تو صرف نام کرنے کی وجہ سے ان کے بھائی اس کے مالک نہیں بنے ہیں۔

(4)۔۔۔ شوہر کی گاڑی (جس کی چابی اس نے آئی سی یو میں آپ کو دے کر اپنے پاس رکھنے کا کہا تھا)، اس کے بٹوے اور اے ٹی ایم میں موجود پیسے، اور ہسپتال سے ڈسکاؤنٹ کے طور پر واپس ملنے والی رقم یہ سب کچھ اس کی میراث ہے، جو نمبر (1) میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق تمام ورثا میں تقسیم ہوگا۔  

(5)۔۔۔ شوہر کے دوست کے پاس جو رقم رکھی ہوئی ہے، اگر آپ کے نندوئی کے پاس اس بات کے گواہ نہیں ہیں کہ یہ رقم شوہر کی والدہ کی تھی، نہ ہی کوئی اور ثبوت ہے تو وہ رقم بھی آپ کے شوہر کی میراث شمار ہوگی، اور نمبر (1) میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق تقسیم ہوگی۔

حوالہ جات
۔

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     16/رجب المرجب/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب