021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ثمن متعین کیے بغیر کوئی چیز بیچنا
79395خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

السلام علیکم! ایک سوال تھا کہ،ایک شخص نے چھوٹے بھائی کو گھر بیچا لیکن کوئی قیمت مقرر نہیں کی  کہ کتنے کا بیچ رہا ہے ، اور ڈیڑھ لاکھ وصول کر لیے۔ ساتھ میں یہ شرط لگائی کہ یہ گھر آگے نہیں بیچنا اورچھوٹے بھائی کو قبضہ دے دیا۔ اب بیچنے والا فوت ہو گیا ہے۔تو اس مسئلے کا کیا حکم ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بیع کے صحیح ہونے کے لیے ثمن(قیمت)کا طےہونا شرط ہے،اور ثمن طے نہ ہونے کی صورت میں بیع فاسد ہو جاتی ہے جسے فسخ کرنا لازم ہوتاہے۔ صورتِ مسئولہ میں  چونکہ بائع اور مشتری(بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی)کے درمیان ثمن متعین نہیں کیا گیا اوراس بیع فاسد کے بعد بائع کی وفات ہو گئی، لہذا بائع  کے وارث اورمشتری  میں سے ہر ایک پر پہلے والے عقد کو  ختم کر کے نئے سرے سے عقد کرنا لازم ہے اور بائع نے جو ڈیڑھ  لاکھ روپے وصول کیے تھے،بائع کے ورثہ پر ان  کو واپس کرنا بھی ضروری ہے۔

تاہم   اگر مشتری مکان واپس کرنےپر رضامند نہ ہو تو اس کو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔اس صورت   مشتری پر قبضہ کرتےوقت مکان کی جو  بازاری قیمت  تھی ،وہ ادا کرنا لازم ہو گا اور مشتری نے جو ڈیڑھ لاکھ روپے بائع کو دیے تھے،وہ  مکان کی قیمت میں شمار کر لیے جائیں گے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:وأما الثالث: وهو ‌شرائط ‌الصحة فخمسة وعشرون: منها عامة ومنها خاصة، فالعامة لكل بيع شروط الانعقاد المارة؛ لأن ما لا ينعقد لا يصح، وعدم التوقيت ومعلومية المبيع ومعلومية الثمن بما يرفع المنازعة، فلا يصح بيع شاة من هذا القطيع وبيع الشيء بقيمته أو بحكم فلان ،وخلوه عن شرط مفسد.(ردالمحتار:4/505)
قال جمع من العلماء رحمھم اللہ: وأما شرائط الصحة ،فعامة وخاصة ،فالعامة.......... ومنها أن يكون
المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة ،فبيع المجهول جهالة تفضي إليها غير صحيح ،كبيع شاة
من هذا القطيع وبيع شيء بقيمته وبحكم فلان.(الفتاوی الھندیۃ:3/3)
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ:فالحاصل: أن ‌كل ‌جهالة ‌تفضي إلى المنازعة مبطلة، فليس يلزم أن ما لا يفضي إليها يصح معها ،بل لا بد مع عدم الإفضاء إليها في الصحة من كون المبيع على حدود الشرع، ألا ترى أن المتبايعين قد يتراضيا على شرط لا يقتضيه العقد وعلى البيع بأجل مجهول كقدوم الحاج ونحوه، ولا يعتبر ذلك مصححا.كذا في فتح القدير وفي المعراج.(البحر الرائق:5/328)
قال العلامۃفرید الدین الھندی رحمہ اللہ:ولو مات البائع،کان لوارثہ  أن  یسترد المبیع بحکم الفساد.
(الفتاوی التاتارخانیۃ:8/454)
قال جمع من العلماء رحمھم اللہ:وکذا ٌذا مات البائع، فلورثتہ ولایۃ الاسترداد کذا فی البدائع.
(الفتاوی الھندیۃ:4/155)
وقالوا أیضاً:ولو باعہ و سکت عن الثمن،یثبت الملک إذا اتصل بہ القبض فی قول أبی یوسف و محمد رحمھما اللہ کذا فی الخلاصۃ.ویلزم علی البائع قیمۃ العبد.(الفتاوی الھندیۃ:4/6)                                                                                                                                
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: فإن البيع لو صحيحا وجب الثمن، ولو فاسدا وتعذر رده على البائع وجبت قيمته. (ردالمحتار:1/260)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: وإذا قبض المشتري المبيع.....في البيع الفاسد .....ولم ينهه البائع عنه
ولم يكن فيه خيار شرط،ِملكه... بمثله إن مثليا وإلا فبقيمته يعني إن بعد هلاكه أو تعذر رده يوم قبضه ؛
لأن به يدخل في ضمانه ،فلا تعتبر زيادة قيمته كالمغصوب.والقول فيها للمشتري؛ لإنكاره الزيادة ،و يجب على كل واحد منهما فسخه قبل القبض.
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: قوله:( فلا تعتبر إلخ) تفريع على اعتبار قيمته ‌يوم ‌القبض لا يوم الإتلاف،أي لو زادت قيمته في يده فأتلفه ،لم تعتبر الزيادة ،كالغصب.
(الدرالمختار مع رد المحتار:5/88-90)

محمد عمربن محمد الیاس

دارالافتاء جامعۃالرشید،کراچی

16رجب،1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر بن محمد الیاس

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب