021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خاص ادارے کے لئے وقف کی گئی زمین کے منافع کا حکم
79355وقف کے مسائلمدارس کے احکام

سوال

ایک صاحب نے اپنی زندگی میں1979 یا 1980 میں اپنے نام سے ایک ادارہ بنایا اور اپنی زرعی زمین اس ادارے کے نام وقف کردی اور اس میں یہ تحریر کروایا کہ میری ساری زرعی آمدن اسی مدرسے پر خرچ کی جائے اور اس ادارے کو کسی کے بھی ماتحت نہیں کیا جائےگا۔

یہی وقف کرنے والا شخص ایک سال بعد انتقال کرگیا اور اس نے جسے ناظم مقرر کیا تھا وہی اس کا انتظام و انصرام چلاتا رہا۔

واقف کے انتقال کے بعد اس زمین پر مزارع اور کچھ لوگوں نے قبضہ کرلیا،انہوں نے بازیاب کروانے کی کوشش کی،مگر مذاکرات سے بات نہیں ہوسکی تو بات عدالت میں چلی گئی اور کافی عرصہ تک مسئلہ حل نہ ہوسکا تو اس کے بعد انہوں نے کسی اور ادارے کے مہتمم سے بازیاب کرانے کی درخواست کی اور کہا کہ آپ اس ادارے کو چلائیں تو دوسرے ادارے کے مہتمم نے اس زمین کو بازیاب کروایا۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا ان زمینوں کی آمدن اسی مدرسے پر خرچ کرنا ضروری ہے جس کے لئے انہیں وقف کیا گیا ہے؟ یا کسی اور ادارے پر خرچ کرسکتے ہیں؟

مثلا واگزار کرانے والے مہتمم کے ادارے پر خرچ کرسکتے ہیں؟ اگر جواب نہیں ہے تو اب تک جواز سمجھ کر جو خرچ کیا گیا ہے اس کا لوٹانا ضروری ہوگا یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ وقف کرنے والے شخص نے اس زمین کو خاص ادارے کے لئے وقف کیا تھا،اس لئے اس کی آمدن کو کسی اور ادارے پر خرچ نہیں کیا جاسکتا اور اب تک لاعلمی کی وجہ سے جتنی آمدن دوسرے ادارے پرخرچ کی جاچکی ہے اس کا واقف کی جانب سے معین کئے گئے ادارے کو لوٹانا ضروری ہے۔

حوالہ جات
"رد المحتار"(4/ 433):
"(قوله: قولهم شرط الواقف كنص الشارع) في الخيرية قد صرحوا بأن الاعتبار في الشروط لما هو الواقع لا لما كتب في مكتوب الوقف، فلو أقيمت بينة لما لم يوجد في كتاب الوقف عمل بها بلا ريب لأن المكتوب خط مجرد ولا عبرة به لخروجه عن الحجج الشرعية. اهـ. ط".
"العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية" (1/ 123):
"(سئل) من قاضي الشام سنة (1146) في رجل وقف وقفه على جهات بر معينة وجعل فاضل الوقف لذريته وأن يكون توجيه جهات البر المذكورة لمتولي الوقف فقام جماعة من مستحقي الوقف يدعون أنهم فقراء وأنهم أولى بالميراث من غيرهم فكيف الحكم؟
(الجواب) : قال في الإسعاف يجب صرف الغلة على ما شرط الواقف وفي غيره شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة".
"العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية" (1/ 228):
"(سئل) فيما إذا وقف زيد عقارا له معلوما منجزا على الحرمين الشريفين وشرط وظيفة النظر لعمرو وذريته ثم من بعدهم لمتولي الحرمين الشريفين مات الواقف وعمرو وتصرف بوظيفة النظر المزبور رجل من ذرية عمرو وهو أهل لذلك قام متولي الحرمين الشريفين يعارضه في التصرف بالنظر على الوقف المزبور مخالفا لشرط الواقف فهل ليس لمتولي الحرمين معارضته في ذلك؟
(الجواب) : نعم حتى تنقرض ذرية عمرو المذكور عملا بشرط الواقف المزبور؛ لأنه كنص الشارع في وجوب العمل وفي المفهوم والدلالة كما صرح بذلك في الأشباه".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

16/رجب1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے