79354 | قربانی کا بیان | عقیقہ کا بیان |
سوال
ہماری والدہ پر اس ذہنی بیماری کی حالت میں قربانی واجب ہوگی یا نہیں جبکہ وہ عاقل نہیں ہے ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ قربانی کے وجوب کے لئے عقل شرط ہونے نہ ہونے میں اگر چہ ائمہ احناف کے آپس میں اختلاف ہے ، مگر امام محمد رحمہ کے مفتی بہ قول پر ,,عقل،، شرط ہے ،اسی لئے بچے کے مال میں قربانی واجب نہیں ہے ،مجنون کی جنون اگر دائمی ہو تو اس پر بلاشبہ قربانی واجب نہیں ،البتہ جو مجنون کبھی افاقہ اور کبھی جنون کی حالت میں ہوتا ہے اس پر قربانی کے وجوب میں یہ تفصیل ہے کہ اس کو اگر قربانی کے ایام میں کچھ دیر کے لئے جنون سے افاقہ ہو تو اس پر قربانی واجب ہوجائے گی ورنہ نہیں ۔
اس تفصیل کی روشنی میں اگر آپ کی والدہ کی مدہوشی کی کیفیت دائمی ہے تو ان کے مال میں قربانی واجب نہیں ،اور اگر کبھی ان کو افاقہ ہوتا ہے تو پھر قربانی کے وجوب اور عدم وجوب کا فیصلہ قربانی کے دنوں میں ان کی حا لت کے مطابق کیاجائے گا۔
تاہم اگر والدہ کے مال سے قربانی کرنے کی بجائے اولاد میں سے کوئی اپنے مال سے والدہ کے لئے بھی قربانی کرے تو قربانی ادا ہونے او ذمے سے ساقط ہونے میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہے گا ،اوردونوں کوپورا پورا اجر بھی ملے گا ۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 312)
وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر)
الی قولہ ۰۰۰ (ويضحي عن ولده الصغير من ماله) صححه في الهداية (وقيل لا) صححه في الكافي. قال: وليس للأب أن يفعله من مال طفله، ورجحه ابن الشحنة.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 316)
قوله ويضحي عن ولده الصغير من ماله) أي مال الصغير ومثله المجنون. قال في البدائع: وأما البلوغ والعقل فليسا من شرائط الوجوب في قولهما، وعند محمد من الشرائط حتى لا تجب التضحية في مالهما لو موسرين، ولا يضمن الأب أو الوصي عندهما وعند محمد يضمن. والذي يجن ويفيق يعتبر حاله، فإن كان مجنونا في أيام النحر فعلى الاختلاف وإن مفيقا تجب بلا خلاف اهـ. قلت: لكن في الخانية، وأما الذي يجن ويفيق فهو كالصحيح اهـ إلا أن يحمل على أنه يجن ويفيق في أيام النحر فتأمل
احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ
دارالافتاء جامعة الرشید کراچی
١٦ رجب ١۴۴۴ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | احسان اللہ شائق | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |