021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدین کے ساتھ اونچی آواز میں بات کرنا
79384جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

بعض اوقات ماں باپ سے اونچی آواز میں بات ہو جاتی ہے یا چھوٹی موٹی اونچ نیچ ہوجاتی ہے، جس کے بعد احساس ہوتا ہے کہ مجھے معافی مانگنی چاہیے۔مگر پھر جب والدین کے  پاس جاتا ہوں تو وہ خوش نظر آتے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ وہ بھول گئے  اور مجھے معاف کردیا۔اس بات کا بھی ڈر لگتا ہے کہ دوبارہ ان کے سامنے مسئلہ اٹھاؤں گا تو وہ  ناراض نہ ہوجائیں۔ایسی صورت میں والدین خاموشی اختیار کرلیں تو کیا انہوں نے مجھے معاف کردیا؟آخرت میں اس بات پر پکڑا تو نہیں جاؤں گا؟

نیز والدین سے معافی مانگنے کے کچھ طریقے بھی بتادیجیے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں والدین کے حقوق  ،ان کے ساتھ حسن سلوک اور نرمی کا معاملہ کرنے کی بہت زیادہ تاکید آئی ہے۔ والدین کی نافرمانی  اور ان کی ناراضی پر سخت وعید بھی  بیان کی گئی ہے۔اس لیے  سب سے پہلی کوشش تو یہی ہونی چاہیے کہ والدین کے ساتھ نہ تو سخت اور اونچی آواز میں بات کرے اور نہ ہی انہیں  ناراض کرے ۔ لیکن اگر خدانخواستہ کوئی ایسا معاملہ پیش آجاتا  ہے توفورا ان سے معافی مانگ کر  انہیں راضی کرنا چاہیے۔

معافی کی بہتر صورت تو یہ ہے کہ  جب  بھی کوئی اونچ نیچ ہوجائے تو  ندامت کے ساتھ جا کر ان سے معافی مانگ لیں۔ اگر ایسی صورت میں   یہ اندیشہ ہو  کہ  بات کرنے سے ماں باپ دوبارہ ناراض ہوں گے تو عمومی  الفاظ سے معافی مانگ لیں  جیسے:میں نے جو  بھی غلطیاں کی ہیں وہ معاف کردیں  وغیرہ۔معافی مانگنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ والدین آپ سے راضی ہوجائیں  اور جو تکلیف انہیں پہنچی ہے اس کا ازالہ ہوجائےلہذا والدین کی اطاعت و فرمانبرداری اور ان کی  زیادہ سے زیادہ خدمت کے ساتھ ہر وہ طریقہ اختیار کیاجاسکتا ہے جس سے  وہ آپ سے  راضی ہوجائیں۔   

حوالہ جات
[الإسراء: 23]
{ وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا }
الجامع الصحيح سنن الترمذي (4/ 167)
عن عبد الله بن عمرو عن النبي صلى الله عليه وسلم قال رضى الرب في رضى الوالد وسخط الرب في سخط الوالد
 
 
الأدب المفرد للبخاري (ص: 21)
عن عبد الله بن عمرو قال جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال :جئت أبايعك على الهجرة وتركت أبوي يبكيان قال ارجع إليهما فأضحكهما كما أبكيتهما .صحيح
المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج للنووي (18/ 258)
وأما بر الوالدين فهو الإحسان إليهما وفعل الجميل معهما وفعل ما يسرهما، ويدخل فيه الإحسان إلى صديقهما، كما جاء في الصحيح: إن من أبر البر أن يصل الرجل أهل ود أبيه،

عبدالقیوم   

         دارالافتاء جامعۃ الرشید

17/رجب/1444            

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقیوم بن عبداللطیف اشرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب