021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق نامہ  وکیل سےلکھواکرواٹس ایپ پربھیجنےکا حکم
79363طلاق کے احکامطلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان

سوال

خاوندنےوکیل سےطلاق نامہ لکھواکربیوی کے گھر والوں کو واٹس ایپ پر بھیج دیاجس میں یہ شق تھی "بروئےاسٹیمپ ہذافریق اول نےروبرگواہان فریق دوم کوطلاق ثلاثہ یعنی طلاق،طلاق،طلاق دےدی ہے۔" برائےمہربانی راہنمائی فرمائیں کےطلاق ہوگئی ہے یانہیں جبکہ خاوند اب دستخط کرنے پر تیار نہیں اور اس کا یہ کہنا ہے کہ طلاق نامہ کی یہ شق وکیل نے تیار کی ہے نہ کہ میں نے اور نہ ہی میں نے دستخط کیے ہیں۔ طلاق نامہ بھیجتے وقت شوہر نے یہ میسج بھی کیا تھا کہ یہ میری طرف سے فائنل ڈرافٹ ہے۔کیا محض وکیل سے طلاق نامہ تیار کروا کر بھیجنے سے طلاق ہوجاتی ہے جبکہ اس پر دستخط بھی نہ کیے ہوں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

طلاق واقع ہونےکےلئےضروری ہےکہ شوہرخوددےیاوہ شخص دے جسے شوہرنے طلاق دینے کا اختیار دیا ہو یا کسی شخص کی بلااجازت دی ہوئی طلاق  کی شوہر اجازت دیدے۔ اور جس طرح طلاق زبانی طور پر ہو جاتی ہے اسی طرح لکھنے سے یا کسی اور شخص سے لکھوانے سے بھی ہو جاتی ہے۔مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر نے طلاق نامہ خود نہیں لکھا اور نہ ہی اس پر دستخط کیے لیکن وکیل سے طلاق نامہ تیار کروا کر لڑکی والوں کو واٹس ایپ پر بھیج دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ وکیل کے تیار کیے ہوئے اس مسودہ پر راضی ہے اور وکیل کی طرف سے واقع کی گئی طلاق کی اجازت دے رہا ہے، لہذااگراس نےیہ جانتےہوئےطلاق نامہ بھیجاہےکہ اس میں تین طلاقیں لکھی ہوئی ہیں تو اس طلاق نامہ کوبھیجنے کی وجہ سے بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو کرحرمت مغلظہ ثابت ہوچکی ہے۔اب نہ رجوع ہو سکتاہےاور نہ ہی بغیرحلالہ شرعیہ کےدوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار (3/ 235)
( ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل ) ولو تقديرا  ،بدائع۔۔۔۔ وأما طلاق الفضولي والإجازة قولا وفعلا فكالنكاح ،بزازية ( و ) بناء على اعتبار الزوج المذكور ( لا يقع طلاق المولى على امرأة عبده ) لحديث ابن ماجه الطلاق لمن أخذ بالساق إلا إذا قال زوجتها منك على أن أمرها بيدي أطلقها كما شئت فقال العبد قبلت وكذا إذا قال العبد إذا تزوجتها فأمرها بيدك أبدا كان كذلك ،خانية۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 246):
"كتب الطلاق، وإن مستبينًا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل: مطلقًا، ولو على نحو الماء فلا مطلقًا. (قوله: كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرًا ومعنونًا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لايكون مصدرًا ومعنونًا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لايمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لايقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينةً لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومةً يقع الطلاق نوى أو لم ينو، ثم المرسومة لاتخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة. وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب: إذا جاءك كتابي فأنت طالق فجاءها الكتاب فقرأته أو لم تقرأ يقع الطلاق، كذا في الخلاصة ط (قوله: إن مستبينًا) أي ولم يكن مرسومًا أي معتادًا وإنما لم يقيده به لفهمه من مقابلة وهو قوله: ولو كتب على وجه الرسالة إلخ فإنه المراد بالمرسوم (قوله: مطلقاً) المراد به في الموضعين نوى أو لم ينو وقوله ولو على نحو الماء مقابل قوله: إن مستبيناً (قوله: طلقت بوصول الكتاب) أي إليها ولايحتاج إلى النية في المستبين المرسوم، ولايصدق في القضاء أنه عنى تجربة الخط بحر ".

ولی الحسنین

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

 ۱۷ رجب ۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ولی الحسنین بن سمیع الحسنین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب