021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مناسخہ اور ترکہ کی زمینوں کے کاغذات پر آنے والے خرچہ کا حکم
79379میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میری پھوپھی نفیسہ ترمذی مرحومہ کا انتقال 7 مئی 2017ء کو ہوا۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی، شوہر، والدین، دادا، دادی، نانی، چار بہنوں اور ایک بھائی (سید اطہر ترمذی) کا انتقال ان کی زندگی میں ہوگیا تھا، جبکہ ایک بھائی (سید انوار ترمذی) کا انتقال ان کی وفات کے بعد ہوا۔ اس بھائی سید انوار ترمذی کے ورثا میں بیوہ دو بیٹے (ایان ترمذی، منیب ترمذی) ایک بیٹی (سمیرا انور) موجود ہیں، جبکہ والدین، دادا، دادای، نانی اور تمام بہن بھائیوں کا انتقال اس کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا۔  

 مرحومہ کے ترکہ میں پانچ لاکھ اکتیس ہزار نو سو تینتیس (531,933) روپے، تین پلاٹ، ایک فلیٹ اور مختلف زیورات شامل ہیں۔

سوالات:

  1. کیا میں اس تمام رقم اور جائیداد کو صدقہ جاریہ میں استعمال کرسکتا ہوں؟ یا تمام ورثا کی اجازت لینی ہوگی؟
  2. اس رقم سے کسی غریب کا مکان بنانے کے لیے خرچ کرسکتے ہیں؟ یا ورثا سے اجازت لینی ہوگی؟
  3. کیا زیورات اور زمین کو کوئی قسطوں میں خرید سکتا ہے؟
  4. زمینوں اور فلیٹ کے کاغذات تیار کرنے کے لیے جو اخراجات ہوں گے، ان کو اس رقم سے خرچ کرسکتے ہیں؟ اور ورثا سے اجازت لینی ہوگی؟
  5. ان زمینوں اور فلیٹ کے کاغذات تیار کرنے کے لیے پاور دینے کا طریقۂ کار شریعت کے مطابق کیا ہوگا؟
  6. آج کل زمین اور فلیٹ کی فائل بغیر پاور کے کم ریٹ میں بھی فروخت ہوتی ہے، کاغذات پھر خریدار خود بناتا ہے۔ شریعت اس کی اجازت دیتی ہے یا نہیں؟ کیا ورثا اس فلیٹ کو اس طرح بیچ سکتے ہیں، اس طرح ان پر کاغذات تیار کرنے کے اخراجات نہیں آئیں گے، لیکن فلیٹ کم قیمت میں فروخت ہوگی۔
  7. جب میری پھوپھی کی شادی ہوئی تھی تو سارے اخراجات اور زیورات ان کے بڑے بھائی نے کیے تھے۔ اب کیا پھوپھی کی یہ ساری میراث اس بڑے بھائی کی اولاد کا حق ہے یا اس میں چھوٹے بھائی کی اولاد کا بھی حق ہے؟
  8. میری پھوپھی نے اپنی زندگی میں چھوٹے بھائی کو فلیٹ یا مکان خریدنے کے لیے کہا تھا، مگر ان کی اولاد اور بیوی نے لینے سے انکار کیا تھا۔ کیا وہ شریعت کے حساب سے حصہ کے حق دار ہیں؟
  9. بہنوں کی اولاد کو حصہ دینا ہوگا یا نہیں؟
  10. اگر دونوں بھائیوں کی اولاد میں اتفاقِ رائے نہ ہو تو اس صورت میں شریعت کیا کہتی ہے؟

وضاحت: سائل نے فون پر اور سوال (44/18206) میں بتایا کہ نفیسہ ترمذی سے پہلے ایک بہن انیسہ ترمذی صاحبہ کا انتقال ہوا ہے، ان کی میراث بھی ابھی تقسیم نہیں ہوئی۔  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(2-1)۔۔۔ مرحومہ کا ترکہ اس کے ورثا (جن کی تعیین اور تفصیل آگے نمبر (7) تا (10) میں آرہی ہے) کا حق ہےجو ان کو دینا ضروری ہے۔

آپ مرحومہ کا ترکہ، سارا یا بعض،  صدقہ نہیں کرسکتے، نہ ہی اس سے کسی غریب کے لیے مکان بناسکتے ہیں۔

(3)۔۔۔ اگر مرحومہ کے ورثا اپنی رضامندی سے کوئی چیز کسی کو قسطوں میں بیچنا چاہیں تو بیچ سکتے ہیں، یہ ان کا صواب دیدی اختیار ہے۔ 

(4)۔۔۔ اگر ورثا یہ زمینیں اور فلیٹ اپنے نام پر کرتے ہیں تو اس کا خرچہ ورثا پر ان کے حصوں کے مطابق آئے گا، پھر ورثا کی مرضی ہے کہ اپنا اپنا خرچہ اپنے اپنے پاس سے دیں یا میراث میں اپنے حصے سے منہا کرائیں۔   

(5)۔۔۔ شرعاً میت کے انتقال کے ساتھ ہی اس کا سارا ترکہ اس کے ورثا کی طرف منتقل ہوجاتا ہے، اس کے لیے کاغذات تیار کرنا ضروری نہیں، یہ ایک قانونی تقاضا ہے؛ لہٰذا قانون میں اس کا جو طریقہ طے ہو، اس طریقے سے پاور ان کی طرف منتقل کی جائے گی۔

(6)۔۔۔ اگر اس میں قانوناً کوئی رکاوٹ یا ممانعت نہ ہو اور تمام ورثا عاقل، بالغ ہوں اور اس پر راضی ہوں تو وہ ایسا کرسکتے ہیں، یہ ان کا صواب دیدی اختیار ہے۔

(7)۔۔۔ بڑے بھائی نے اپنی بہن کی شادی کے وقت ان کو جو کچھ تبرعاً دیا تھا، اب وہ اسے یا اس کی اولاد کو واپس نہیں ملے گا، نہ ہی اس کی وجہ سے وہ یا اس کی اولاد مرحومہ کی میراث میں حصے کے حق دار ہوں گے۔ وہ سب کچھ مرحومہ کے ورثا کو ملے گا جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔

(8)۔۔۔ کوئی چیز خریدنے سے انکار کرنے کی وجہ سے وارث میراث سے محروم نہیں ہوتا۔ سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق نفیسہ مرحومہ کے انتقال کے وقت صرف یہی چھوٹا بھائی (سید انوار ترمذی) زندہ تھا، اس کے علاوہ مرحومہ کا کوئی وارث زندہ نہیں تھا؛ اس لیے مرحومہ کا سارا ترکہ اس بھائی کو ملے گا۔ پھر جب ابھی اس بھائی کا انتقال ہوچکا ہے تو نفیسہ مرحومہ کا سارا ترکہ اس چھوٹے بھائی کے ورثا کو ملے گا۔  

لہٰذا نفیسہ مرحومہ کی مذکورہ نقد رقم، تینوں زمینیں، فلیٹ، زیورات اور انیسہ ترمذی صاحبہ کے ترکہ میں اس کا حصہ، یہ سب کچھ اور اس کے علاوہ اگر اس نے کوئی بھی چھوٹی یا بڑی چیز چھوڑی ہو، اس میں سے سب سے پہلے تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالے جائیں، اگر وہ کسی نے احسان کے طور پر ادا کیے ہوں تو پھر ان کو ترکہ سے نہیں نکالا جائے گا، اس کے بعد اگر ان پر کسی کا قرض ہو تو اس کو ادا کیا جائے، اس کے بعد اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو، اس کو ایک تہائی مال تک پورا کیا جائے، اس کے بعد جو کچھ بچ جائے، اس کو کل چالیس (40) حصوں میں تقسیم کر کے انوار ترمذی صاحب مرحوم کی بیوہ کو پانچ (5) حصے، دو بیٹوں (ایان ترمذی اور منیب ترمذی) میں سے ہر ایک کو چودہ، چودہ (14، 14) حصے، اور ایک بیٹی (سمیرا انور) کو سات (7) حصے دئیے جائیں۔  

(9)۔۔۔ چونکہ نفیسہ مرحومہ کی چاروں بہنیں اس سے پہلے فوت ہوچکی تھیں؛ اس لیے مرحومہ کے ترکہ میں ان کو یا ان کی اولاد کو کوئی حصہ نہیں ملے گا۔

(10)۔۔۔ شرعا نفیسہ مرحومہ کی وراثت کے حق دار صرف اس کے چھوٹے بھائی (انوار ترمذی) کے ورثا ہیں، بڑے بھائی (اطہر ترمذی صاحب) کی اولاد کا مرحومہ کی وراثت میں کوئی حق نہیں۔ اس لیے ان کے اتفاق یا اختلاف کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا، سارا ترکہ چھوٹے بھائی (انوار ترمذی) کے ورثا کو دیا جائے گا، جس کی تفصیل اوپر نمبر (8) میں  گزرچکی ہے۔

 

حوالہ جات
ردالمحتار(6/ 758):
وشروطه ثلاثة: موت مورث حقيقة أو حكما كمفقود أو تقديرا كجنين فيه غرة، ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل، والعلم بجهة إرثه.
السراجی فی المیراث (ص 36):  
العصبات النسبیة ثلاثة:  عصبة بنفسه، وعصبة بغیره، و عصبة مع غیره. أما العصبة بنفسه فکل ذکر لا تدخل فی نسبته إلی المیت أنثی، وهم أربعة أصناف: جزء المیت، و أصله، و جزء أبیه، و جزء جده، الأقرب فالأقرب، یرجحون بقرب الدرجة، أعني أولاهم بالمیراث (1) جزء  المیت أی البنون ثم بنوهم و إن سفلوا، (2) ثم أصله أي الأب، ثم الجد أي أب الأب وإن علا، (3) ثم جزء أبیه أي الإخوة، ثم بنوهم وإن سفلوا، (4) ثم جزء جده أي الأعمام ثم بنوهم وإن سفلوا.   
المجلة (ص: 26):
مادة 87:  الغرم بالغنم، يعني أن من ينال نفع شئ يتحمل ضرره.
شرح المجلة للأتاسي (1/246):
فلو کان الوقف دارا فالعمارة علی من له السکنی……کذلك ما في المادة 1308 الملك المشترك متى احتاج إلى التعمير والترميم، يعمره أصحابه بالاشتراك على مقدار حصصهم. لأن منفعة کل منهم علی قدر حصته؛ لما في المادة 1073 أن کلا ینتفع من المال المشترك بقدر حصته.
وفي المادة 1152: التكاليف الأميرية إن كانت لأجل محافظة النفوس، تقسم على عدد الرؤوس،   ولا يدخل في دفتر التوزيع النساء ولا الصبيان. أي لأنها لتحصین الأبدان، وهي علی عدد الرؤس التي یتعرض لها، ولا شیئ علی النساء والصبیان؛ لأنه لا یتعرض لهم (رد المحتار عن الولوالجیة). وإن كانت لمحافظة الأملاك، فتقسم على مقدار الملك؛ لأنها لتحصینه، فکانت کمؤنة حفر النهر.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     17/رجب المرجب/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب